عدالت حکومت کو تو حکم دے سکتی ہے کہ اپنے کسی اقدام کو جائز قرار دینے کے لئے قانون سازی کرے یا پھر ایسے اقدامات اٹھانے سے بعض آ جائے لیکن وہ پارلیمنٹ کو کیسے پابند کر سکتی ہے کہ وہ آرمی چیف کی ایکسٹنشن یا کسی دوسرے مسئلہ پر باقاعدہ قانون سازی کرے؟
قانون سازی مقننہ کا کام ہے عدالت حکومت کو تو ہدایت دے سکتی ہے کہ کسی معاملے کو قانون سازی کے لیے پارلیمان میں لے جائے مگر عدالت پارلیمان کو اپنی پسند کی قانون سازی کے لیے مجبور قطعاً نہیں کر سکتی۔
عدالت نے چھ ماہ حکومت کو دیئے ہیں نہ کہ پارلیمنٹ کو کہ آرمی چیف کی ایکسٹنشن کے لئے قانون سازی کرائے۔
حکومت اگر چاہتی ہے کہ ایکسٹنشن کو کوئی آئینی تحفظ دیا جائے تو اس کے لئے اسے پارلیمنٹ سے اس اقدام کی منظوری لینی ہو گی اب آگے اپوزیشن جماعتوں اور ان کی قیادت کی مرضی ہے کہ وہ ڈنڈے کے زور پر لی جانے والی ایکسٹنشن کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے کسی قسم کی قانون سازی کے لیے حکومت کا ساتھ دیں یا نہ دیں۔
عدالت کو یہ استحقاق یا اختیار ہرگز نہ تھا کہ وہ چھ ماہ کی ایکسٹنشن دیتی چھ ماہ کیا عدالت کے دائرہ اختیار میں ایک منٹ کی ایکسٹنشن دینے کی مجاز بھی نہیں تھی۔ چھ ماہ کی ایکسٹنشن دے کر عدالت نے لاش گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دی ہے جو عدالت کو کسی صورت زیب نہیں دیتا تھا سب کو معلوم ہے ایکسٹنشن جیسے بھاری پتھر کو عدالت نے چوم کر رکھ دیا ہے۔
ایسا کرنے سے موجودہ ججوں نے تو اپنی جان چھڑا لی ہے لیکن اپنے بعد میں آنے والے ججوں کے لئے ایک مشکل مرحلے محفوظ کر کے رکھ گئے ہیں دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں اس وقت کے جج اس بھاری پتھر کا کیا کرتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر