نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیش لفظ :دلی دل والوں کی۔۔۔ علی مزمل

ڈیرہ اسماعیل خان اور گرد و نواح کو سیراب کرتا دریائے سندھ جبری ہجرت کا چشم دید گواہ ہے اور نہ جانے کتنے ہجرت گزیدہ اجسام کو اپنی تہوں میں امان دے چکا ہے۔

ڈیلی سویل کی طرف سے  سرائیکی وسیب کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے نامور سوجھوان ،ادیب غلام عباس سیال کا سفر نامہ دلی دل والوں کی اپنے قارئین کے لئے پیش ہوگا۔ اس سفرنامے کے لئے لکھا گیا علی مزمل کا پیش لفظ نذر قارئین ہے۔


مالکِ شرق و غرب نے تخلیقِ آدم کے بنیادی عناصر میں متجسسانہ سرشت، تغیر پزیری کا مادہ اور زمین پیمائی کی فطری خواہش کو اکثرِ انسانوں کا جزو اعظم بنا دیا اور یہی تجسس، متغیر مزاج اور اَن دیکھے خطوں کی کشش آج کی ترقی یافتہ دنیا کا پیش خیمہ بنی۔ اگر یہ بنیادی اوصاف جو انسان کو جانور پر فوقیت دیتے ہیں نہ ہوتے تو آج انسان حیوانِ ناطق بھی نہ ہوتا۔

انسانی دماغ میں کروڑ ہا خلیات ہیں اور اس قدر وسعت اور صلاحیت ہے کہ اگر اس کا مکمل احاطہ کیا جائے تو کائنات کا کوئی ایسا عقدہ نہیں جس کا حل ممکن نہ ہو۔ابنِ بطوطہ، کرسٹوفر کولمبس اور کم آل سانگ سے لے کر مستنصر حسین تارڑ اور غلام عباس سیال تک معروف اور غیر معروف سیاحوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔

اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ مماثل خصائل اور یکساں مشاغل کے سبب بلا تخصیص مذہب و ملت ایک ہی خاندان کے افراد کہلائے جا سکتے ہیں۔ابتدائے آفرینش سے تا حال تخلیق کی کوئی مروجہ یا متعین شکل یا پیمانہ دریافت نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی تخلیق صرف تعمیر سے مشروط ہے تخلیق لاتعداد زرائع اور اشکال میں جنم لیتی ہے مگر تخلیق کی بے تحاشہ غیر متشکل جہات بھی ہر لمحہ اپنے وجود میں آنے کا احساس دلاتی رہتی ہیں مگر جب تک تخلیق کار اپنی تخلیق کو مادی یا صوتی پیکر عطا نہ کر دے، عالم اس سے آشنا نہیں ہو سکتا،

تخلیق جب تک خیال ہو اور دماغ کی تہوں میں ملفوف رہے وہ تخلیق کار کی ملکیت تصور ہو گی مگر تجسیم ہوتے ہی عوام الناس کی میراث ہو جاتی ہے مثلاً ایک کہانی، نظم، غزل یا نثر اگر ضبطِ تحریر میں آ چکی ہے تو اس کا مشتہر کرنا تخلیق کار کا اخلاقی فرض ہے۔ جس طرح 2014 میں کیا گیا سفر 2018 میں تحریری شکل میں ”دلی دل والوں کی” کے عنوان سے منصۂ شہود پر آنا قابلِ ستائش ہے جس کے لیے مصنف غلام عباس سیال مبارک باد کے مستحق ہیں۔

عام طور پر کسی سیاح کے لیے تخلیق کار کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اکثر افراد ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں مگر صاحب الرائے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی رائے کے اظہار میں مجھے کوئی باک نہیں۔میری ذاتی رائے ہے کہ سفر نگاری بھی تخلیق کے زمرے میں آتی ہے کہ کسی عکاس (فوٹو گرافر) کے لیے یہ بات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کہ عکسالہ (کیمرہ) کے دیدبان (ویو فائنڈر) سے نظر آنے والے منظر کو مِن و عَن یا دل کش ادبی پیرائے میں بیان کرنے کا فن بھی جانتا ہو۔

مذکورہ بالا تحریری و تخلیقی اوصاف کے لیے قدرت کے عطا کردہ اور بھی خصائل ہیں جو ایک چشم بین کو تخلیق کار کے دائرہ میں لا کھڑے کرتے ہیں۔ غلام عباس سیال اور دیگر افراد کے سفر ناموں کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو جو بات غلام عباس کی تحریر کو ممتاز کرتی ہے وہ مقصدیت اور اپنی خاک میں جنم لینے والی روحوں تک رسائی اور بچ رہنے والی روحوں کے امانت داروں تک یہ مثبت پیغام پہنچانا ہے کہ دیس نکالا کے باوجود تم آج بھی ہمارے قلب و وجود میں آباد ہو۔گاہے سیاحتی تصانیف پڑھنے میں آتی ہیں جنہیں آنکھوں دیکھے مشاہدات کا مرقع گردانا جا سکتا ہے جب کہ غلام عباس سیال نے تقسیم کے کرب کی روحانی اذیت کا نوحہ لکھا ہے۔

دورانِ مطالعہ کئی مقامات پر دیدہئ نم نے تحریر کو دھندلا دیا اور بعض مواقع پر رقعت کے سبب مطالعہ کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا کہ حساس دل مقاماتِ آہ و فغاں سے چشم پوشی اور پہلو تہی کو گناہِ عظیم سمجھتے آئے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان اور گرد و نواح کو سیراب کرتا دریائے سندھ جبری ہجرت کا چشم دید گواہ ہے اور نہ جانے کتنے ہجرت گزیدہ اجسام کو اپنی تہوں میں امان دے چکا ہے۔ جو آوازیں انسان چند قدوم سے سننے کی اہلیت نہیں رکھتا مگر وہی آوازیں جانور کئی قوس کی دوری سے با آسانی سننے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں مگر صدیوں سے پیوندِ زمین بستیوں کے مکینوں کو محدود وقت میں دیس نکالا مل جانے پر محض جسموں کی منتقلی کے بعد ارواح کی آہ و فغاں صرف زندہ ضمیر اور بے دار روحوں کو سنائی دیتی ہے۔ یہ کرب آمیز اور لطیف محسوسات ثقالت پرست اور منافرت سے لبریز اجسام کے بس کا روگ نہیں۔


47 کی ہجرت کو تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی سے موسوم کرنا قطعاً بے جا نہ ہو گا۔ اس سفر نامہ کے محرر و مصنف غلام عباس سیال جن کے آباؤ اجداد کے افعال کا دائرہ صدیوں کا احاطہ کرتے ہوئے علاقائی تاریخ پر مرتسم ہے۔ غلام عباس سیال جسے دنیا کی قدیم ترین تہذیب کافرزند ہونے پر غیر فخریہ انبساط ضرور ہے، کو مملکتِ خدادا کے قیام پر اعتراض نہیں مگر تقسیم کے مجوزہ قوائد کے رو سے ہر شخص کو اختیار حاصل تھا کہ جو شخص اپنی مرضی سے جس ملک چاہے نقل مکانی کر سکتا ہے اور پورے اختیار کے ساتھ اپنی موروثی املاک پر اپنا تسلط قائم رکھتے ہوئے شخصی اور مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارے مگر حیف صد حیف کہ معائدہ کی مذکورہ شِق کو جس بربریت سے تاراج کیا گیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
یہ ایسا انسانی المیہ ہے جس کی پاداش میں انسانیت تاحشر عدت میں بیٹھی رہے گی۔ میں اس زیاں پر اس لیے سوگوار ہوں کہ میرے گلے میں بھی اہلِ ہجرت کی فرزندی کا طوق ہے میرے اجداد بھی بدایوں اور شاہجان پور (یو پی) کے راندہ درگاہ تھے جنہیں گل بدامان ڈیرہ اسماعیل خان کی آغوش میں پناہ ملی اور ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو رہے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے دادی، والد، والدہ اور برادرِ کلاں یہیں آسودہء خاک ہیں۔

آفرین ہے ان والدین پر کہ کبھی زبان پر حرفِ شکایت نہ لائے مگر جنم بھومی کے تذکرہ پر ان کی آنکھوں کا ویران ہونا اور پھر تادیر ملول رہنا مجھ سے کبھی فراموش نہ ہو پائے گا۔ وہ تو چلے گئے مگر تقسیم کی تلخی غیر محسوس انداز میں ہماری روحوں میں زہرِ ہلاہل کی طرح سرائیت کر گئی۔

جیسے یہاں کے نکالے ہوئے شرنارتھی کہلائے تو ہم جیسے وہاں کے نکالے ہوئے ”مہاجر” کا کلنک ماتھے پر سجائے نہ جانے کب تک جینے کا ڈھونگ رچاتے رہیں گے۔ کیا موجودہ صورتحال دو قومی نظریہ کی مجسم تشریح ہے کہ عددی اعتبار سے پاکستان سے دگنی مسلمان آبادی اب بھی ہندوستان میں مقیم ہے۔ کیا وہاں مستقبل بعید میں ایک اور پاکستان کی بازگشت سنائی دے گی؟کیا بنگلادیشی مہاجرین کیمپوں میں ہزاروں پاکستانی وطن کے نام پر بیٹھے موت کے منتظر رہیں گے؟

نہایت معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا میں دو قومی نظریہ صرف اسرائیلی یہودیوں نے دیا اور اس پر تاحال عمل پیرا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں بسنے والا یہودی اسرائیلی ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس جملہ کو نہایت ڈھٹائی سے بے توقیر کیا گیا۔آج اس سانحہ کو رونما ہوئے اکہتر برس بیت گئے، چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے، پلوں کے نیچے سے بہت اس قدر پانی گزر چکا ہے کہ یہ مثال اپنا بھرم کھو چکی۔ گردشِ ایام گزرے وقت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ مگر قدرت نے انسان کو اس صلاحیت سے نوازا ہے کہ بگاڑ میں سے بھی سدھار کا پہلو نکال لیتا ہے۔ اور حال میں رہتے ہوئے ماضی کی بند کھڑکی وا کر سکتا ہے اور مستقبل کے مفروضے مرتب کر سکتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ہر غلطی انسان کو ایک سبق دیتی ہے اور وہ سبق اسے آئندہ غلطی سے بچاتا ہے۔مذکورہ تقسیمی عمل میں جن فاش اغلاط کا ارتکاب سرِ عام کیا گیا اقوامِ عالم کے لیے اس میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔میں اہلیانِ ڈیرہ کے ایک معمولی نمائندہ کے طور پر اعادہ کرتا ہوں کہ اپنے اجداد اور وسیب کی خواہشات کا بھرم رکھتے ہوئے اپنی سرزمین کی بقاء کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا اور یہاں سے گئے افراد کی طرز پر تعلیمی اور فلاحی ادارے قائم کرنے کے لیے کوشاں رہوں گا تاکہ ماضی میں انسانیت پر لگے اَن گنت زخموں کے اندمال کی راہ ہموار ہو۔

جاری ہے۔۔۔۔

About The Author