رپورٹ :محمد امین انجم
میلے ٹھیلے سرائیکی ثقافت کا اہم جزو ہیں اور صدیوں سے خطہ زمین پر ہوتے چلے آرہے ہیں سرائیکی خطہ میلوں ٹھیلوں کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے ان میلوں میں نئی نسل اپنی ماں دھرتی کی ثقافت، لوک ادب، لوک موسیقی اور اپنے آباؤ اجداد کی تہذیبی روایات سے روشناس ہوتی ہے۔
سرائیکی وسیب کے مقام مہرے والا (ضلع راجن پور)میں ہونے والا 34واں سالانہ خواجہ فرید ؒ ادبی ثقافتی سرائیکی میلہ اپنے اند ر ایک طویل تاریخ سموئے امن کی راہ پر جس استقامت کے ساتھ پاؤں پیادہ چلا آرہا ہے اس کی مثال تاریخ میں شاید ہی کبھی ملے گی۔
سرائیکی میلے کے میزبان صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر و دانش ور عاشق بزدار اور ان کے ساتھیوں صوفی تاج گوپانگ، قسور عباس دریشک، منور بزدار، غلام عباس ڈاہر المعروف نازک نور پوری، سرور اعوان اور قسور بزدارکو بھی داد دینا ہو گی کہ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان لوگوں کو سرائیکی وسیب کے باسیوں کی آواز سنانے چاہتے ہیں جنہوں نے اپنے کانوں میں سیسہ ڈال رکھا ہے مگر پھر بھی وہ ہر سال مہرے والا کا سٹیج سجاتے ہیں۔
لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں شعرا، فنکاروں اور سرائیکی قومی تحریک کے سوجھوانوں سمیت سیاسی و سماجی شخصیات کو بلاتے ہیں افراتفری اور مادیت پرستی کے اس دور میں شعروں اور گیتوں کی شکل میں امن و محبت کا فلسفلہ بیان کرکے وسیب کی پہچان کرواتے ہیں عاشق بزدار کی قیادت میں مہرے والا کی یہ ٹولی شاید درہ چھاچھڑ کے پتھروں سے بنی ہوئی ہے جو وسیب کی محرومیوں کو اجا گر کرنے کی خاطر ہر توہین برداشت کرنے اور نظر انداز کیے جانے کی ذلت اٹھانے کے باوجود ایک تیکھی مسکراہٹ سہہ جانے کے عادی ہیں ۔
ورنہ انسان مسلسل 34سالوں تک نظر انداز کیے جانے اور بے شناخت بنائے جانے پر کبھی تو چیخ اٹھتا ہے اور جب اس کا غصہ اعتدال کی حد کو پار کر تا ہے تو وہ اپنا استحصال کرنے والی قوتوں کا گریبان پکڑ لیتا ہے شاید انہی مہان لوگوں کے لیے مہان سرائیکی شاعر احمد خان طارق نے کہا تھا کہ
” ساڈا طارق دل ہے جگ وانگوں ایہا گالھ اے ٹوکرے بدھڑیں ہیں "
اگر مہرے والا کے سٹیج کی تاریخ کو دیکھا جائے تو بڑے بڑے نامور سیاسی رہنما، معروف دانشور، عظیم فنکار اور شعرا کرام یہاں آکر اپنے فن کا جادو جگا چکے ہیں ۔
ان شخصیا ت میں میر غوث بخش بزنجو، رسو ل بخش پلیجو، بیر سٹر تاج محمد لنگاہ، سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلا نی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سینیٹر عبدالحئی بلوچ، پروفیسر عزیزالدین احمد، استاد فدا حسین گاڈی، حمید اصغر شاہین، ڈاکٹر مجاہد مرزا، پروفیسر شوکت مغل، سیٹھ عبیدالرحمن، ڈاکٹر مہر عبدالحق، ریاض ہاشمی، ڈاکٹر احسن واہگہ، نذیر لغاری، ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ (ایم این اے)، ڈاکٹر نخبہ لنگاہ، ڈاکٹر سجاد حید ر پرویز، مزار خان، غلام حر قندانی، زمان جعفری، ارشاد تونسوی، اعجاز بلوچ، پروفیسر مشتاق گاڈی، رانا محبوب اختر، ظفر لنڈ شہید، مظہر عارف، ڈاکٹراشو لعل، کامریڈ منظور بوہڑ، سرور کربلائی، شاکر شجا ع آبادی، ممتا ز حیدر ڈہر، عبداللہ عرفان، گل بہار بانو، منصور ملنگی، فقیر ا بھگت، استاد حسین بخش ڈھاڈی اور ثریا ملتانیکر جیسے نامور لوگ شامل ہیں ۔
امسال 9نومبرکو مہرے والا (ضلع راجن پور)میں شروع ہونے والے دو روزہ خواجہ فریدؒ ادبی ثقافتی سرائیکی میلہ کی اہمیت گزشتہ 33میلوں سے اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ حکومت پاکستان کی طرف سے 1947کے قتل عام اور اس کے کرداروں کو بھلاتے ہوئے سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے اور انڈین سپریم کورٹ کی طرف سے بابری مسجد/رام مندر کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے ساتھ ساتھ 9نومبر 2019کا تیسرا بڑ اواقعہ ہے جہاں مذاہب کو سیاست کا آلٰہ کار بنانے کی پست حرکت کے برعکس رزاق سالک کی نظمیں، مومن مولائی، مخمور قلندری، حافظ گلاب احمد فیاض، صفدر بوسن، ارشاد ناصر کی انقلابی شاعری اور موہن بھگت جیسے کلاکار کی آوا ز میں خواجہ فرید ؒ کی کافیاں گونج رہی تھیں جہاں محبت کا مذہب بیان ہو رہا تھا اور امن کا پرچار ہو رہا تھا۔
اس لحاظ سے مہرے والا (راجن پور)کا خواجہ فریدؒ ادبی ثقافتی سرائیکی میلہ 9نومبر 2019کا سب سے بڑا عالمی واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے جو اپنے آپ میں امن کے کسی بھی نوبل انعام کا طلب گار نہیں ہے مہرے والا کے کردار کو ڈاکٹر اشو لال کی شاعری کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔
” پہلی گالھ ہے محبت، ڈوجھی گالھ تاں ہوندی وی نئیں "
34واں سالانہ دو روزہ خواجہ فرید ؒ ادبی ثقافتی قومی میلے کی پہلی رات (9نومبر)کی تقریبات کا با قاعدہ آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا سٹیج سیکرٹری قسور بزدار نے 34سالہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نوبت (سرائیکی رقص جھمر)کا اعلان کیا تو پنڈال میں موجود ہزاروں کی تعداد میں شائقین ڈھول کی تھاپ اور شہنائی کی گونج پر جھوم اٹھے ۔
نوبت کے بعد نو جوان عزیر بھٹی نے خواجہ فرید ؒ کی کاپی پیش کر کے محفل کو مزید گرما دیا میلے کے میزبان عاشق بزدار نے جشن عید میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انبیا کرام کے سلسلہ میں معتبر نام حضرت محمد ﷺ کا ہے ان کی آمد اور بعثت نوع انسانی کے لیے باعث رحمت ہوئی ہمیں چاہیے ہم آپ ؐ کی انسان دوست تعلیمات کو عام کریں انہوں نے سرائیکی قومی تحریک کے حوالے سے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے آج پورے ملک میں قومی مطالبات کی لہر پیدا ہورہی ہے تو ہم سرائیکی قوم بھی اپنی صفیں سیدھی کر رہ ہیں۔
اگر ہمیں پر امن طور پر علیحدہ صوبہ اور شناخت نہ دی گئی تو ہم احتجاجی سیاست کا آغاز کریں گے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے قومی حقوق حاصل کریں گے ۔
سرائیکی ایکشن کمیٹی پاکستان کے مرکزی چیئر مین راشد عزیز بھٹہ نے کہا کہ سرائیکستان کے لفظ اور جغرافیائی حدود پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے سرائیکستان صوبہ پانچ ڈویژنوں اور 23اضلاع پر مشتمل ہو گا ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک صوبہ سرائیکستان کی شہ رگ ہیں چولستان تھل داما ن کی زمینوں پر مقامی لوگوں کا حق ہے مگر ان علاقوں میں زمینوں کی بند ر بانٹ جاری ہے جسکی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں سرائیکستان صوبہ نہ ہونے اور سرائیکی علاقوں میں پسماندگی و غربت کے سبب سرائیکی عوام کراچی کوئٹہ کے علاقوں میں روزگار کے لیے جاتے ہیں لیکن وہاں دہشتگردی کا شکار ہو جاتے ہیں مزدوروں کی لاشیں جب سرائیکی خطہ میں آتی ہیں تو کہرام مچ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا جو پورا نہیں ہوا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت اپنے تحریری وعدے پر عمل کرے سانحہ ہیڈ راجکاں میں 25چولستانیوں کے گھرو ں کو مسمار کر کے جلایا گیا، سرائیکی چولستانی خواتین پر حملہ کر کے زخمی کیا گیا وفاقی و صوبائی حکومت سانحہ ہیڈ راجکاں چولستان کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچائے۔
سرائیکستان قومی اتحاد کے سربراہ خواجہ غلام فرید کوریجہ نے کہا کہ پاکستان سندھی، پشتون، بلوچ، پنجابی اور سرائیکی پر مشتمل پانچ قوموں کا ملک ہے سرائیکی کے علاوہ باقی تمام قوموں کے صوبے موجود ہیں مگر سرائیکیوں کی تہذیب اور ثقافت کو تسلیم کرنے میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ بغض سے کام لے رہی ہے ہم سکھ اقلیت کے حقوق کی حمایت کر تے ہیں لیکن قومیت اور مذہب کی بنیاد پر دیگر اقلیتوں کے حقوق بھی تسلیم کیے جائیں ننکانہ کو سکھوں کے مقدس شہر ہونے کے ناطے یونین کونسل سے ضلع بنا دیا گیا مگر سرائیکی وسیب کے روحانی ثقافتی مرکز کوٹ مٹھن شریف کی تاریخی حیثیت کو مٹایا جا رہا ہے موجودہ حکومت میں بھی سرائیکی قوم کا استحصال جاری ہے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ پاکستان تحریک انصاف کی بی ٹیم ہے سرائیکیوں کی ثقافتی شناخت کے انکار کی شکل میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا گیا جو وزارتیں لے کر اپنے مننطقی انجام کو پہنچ چکا ہے ۔
کامریڈ عبدالرؤف لنڈ نے کہا کہ سرائیکی میلے کا مقصد عام لوگوں کی اجتماعیت اور اشتراکیت کے ذریعے سرائیکی کلچر کا فروغ اور سرائیکی صوبے کا قیام ہے اگر آپ صوبہ چاہتے ہیں تو آپ کو طبقاتی جدو جہد کو راہنما بناتے ہوئے پنجابی بالا دست طبقے کے ساتھ سا تھ مقامی سرائیکی سرداروں، جاگیر داروں، مخدوموں اور سرمایہ داروں کے خلاف جدو جہد کرنا ہوگی کیونکہ” بقول لینن نزدیک نزدیک کی چوٹ زیادہ کارگر ہوتی ہے”۔
انہوں نے کہا کہ محض اجرک کو کسی شادی میلے میں پہن کر کلچر کو نہیں بچایا جا سکتا کلچر محنت کش طبقے کی اجتماعی محنت رسم و رواج کو بالا دست طبقے کی چیڑ پھاڑ اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کر کے بچایا جاسکتا ہے اب منت زاری اور عاجزی و انکساری کا وقت نہیں ہے جب تک ہم لغاریوں، دریشکوں، مزاریوں، کھوسوں، گورچانیوں اور مخدوموں کے خلاف میدان عمل میں اتر کر جدو جہد نہیں کریں گے ہمیں کامیابی نہیں ملے گی۔
سوجھل دھرتی واس کے چیئر مین انجینئر شاہنواز مشوری نے کہا کہ حکومت کی طرف سے سرائیکی صوبہ پر خاطر خواہ پیش رفت نہ ہونے سے سرائیکی قوم میں بے چینی پھیل رہی ہے آنے والے دنوں میں قوم پرست تنظیمیں لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنوں کے لیے مشاورت کر رہی ہیں ۔
سرائیکی قومی تحریک کے رہنماؤں رانا فراز نون، اللہ نواز وینس، ظہور دھریجہ، حسن معاویہ ایڈووکیٹ، مظہر علی تابش اور دیگر نے سرائیکی قومی مسئلہ کو اجاگر کرنے پر سیر حاصل گفتگو کی۔
شعری نشست میں معروف سرائیکی شعرا ارشاد ناصر، پنل جتوئی، رزاق سالک، صفدر بوسن، حبیب اللہ طارق، حافظ گلاب احمد فیاض، یاسر بزدار، مخمور قلندری، مومن مولائی، مشتاق سبقت، سیف اللہ آصف، امان اللہ ارشد، قربان کلاچی، مختار دستی، خلیل فریدی، نذر ارشاد، شمس واسی، حنیف شاکر اور دیگر نے اپنا خوبصورت کلام پیش کر کے شائقین سے خوب داد حاصل کی۔
الغرزہ نواز استاد غلام فرید کنیرا کی بانسری پر خوبصور ت دھنوں نے میلے کو چار چاند لگا دیے میلے کی دوسری رات (10نومبر)موسیقی پر مشتمل تھی معروف لوک فنکاروں موہن بھگت، مصطفی کھنڈ، اعظم عادل، عنصر کھچی، فضل شہزاد، اعظم لشاری،اختیارگلفاد اور سراج بھٹہ نے اپنی آواز کے خوب جادو جگائے۔
میلے کے اختتام پر میزبان عاشق بزدار نے ضلع راجن پور میں خواجہ فرید یونیورسٹی کا قیام، ابتدائی تعلیم سرائیکی زبان میں دینے، سرائیکی وسیب کے بے روزگار نو جوانوں کے لیے روزگار کے وسائل پید ا کرنے، انٹری ٹیسٹ کے ظالمانہ گورکھ دھندے کے خاتمے، پنجاب پبلک سروس کمیشن میں سرائیکی علاقے کا کوٹہ مختص کرنے، جام پور کے مقام پر دریائے سندھ پر راجن پور اور مظفر گڑھ اضلاع کو ملانے کے لیے پختہ پل کی تعمیر، ڈیرہ غازی خان تا کشمور تک انڈس ہائی وے کو ون وے کرنے اور جام پور کو تمباکو کی فصل کی پیداوار کے حوالے سے انڈسٹریل سٹیٹ کا درجہ دینے جیسی قراردادیں پیش کیں تو پنڈال میں موجود ہزاروں شائقین نے کھڑے ہو کر قراردادوں کی بھرپور تائید کی یوں 34ویں خواجہ فرید ؒ ادبی ثقافتی سرائیکی میلے کی تقریبات رات گئے تک جاری رہیں ۔
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون