نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اے آر وائی کے پاس ٹھیک سے تسلی بھی نہیں تھی۔۔۔مبشرعلی زیدی

دوستوں نے بعد میں بہت سوال کیے اور میں آئیں بائیں شائیں کرتا رہ گیا۔ میرے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔مبشرعلی زیدی

مئی 2008 میں امی کے ٹیسٹ ہوئے تو معلوم ہوا کہ انھیں جگر کا کینسر لاحق ہے اور آخری اسٹیج پر ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ان کے پاس تین مہینے ہیں۔ میں نے جیو دبئی اسٹیشن کو ایک ماہ کی چھٹی کی درخواست دی اور دوستوں کو بتادیا کہ واپس نہیں آؤں گا۔ امی کے پاس جتنا وقت بچا ہے، وہ ان کے ساتھ گزاروں گا۔

عجیب اتفاق ہوا کہ ہم 8 جون کو کراچی پہنچے اور 10 جون کو جیو نے دبئی سے بوریا بستر لپیٹ لیا۔ اچانک پورا عملہ کراچی پہنچ گیا اور وہاں سے نشریات شروع ہوگئیں۔ غالباً یہ بتایا گیا کہ امارات حکومت نے نشریات بند کرنے کو کہا ہے۔ انصار بھائی نے مجھے فون کرکے کہا کہ دفتر کیوں نہیں آرہے؟ میں نے بتایا کہ پہلے سے چھٹی پر ہوں۔ انھوں نے اصرار کیا کہ کراچی میں رہتے ہوئے کیسی چھٹی؟ دفتر آؤ اور کام کرو۔ یہاں ٹرانس مشن چلانے والوں کی ضرورت ہے۔

جیو نے دبئی میں ایک الگ ادارہ قائم کرکے کچھ لوگوں کو مستقل ملازمت دے دی تھی۔ یعنی ہم جیو پاکستان کے نہیں، جیو امارات کے ملازم تھے۔ ہمیں درہم میں سیلری ملتی تھی۔ کسی کام سے پاکستان بھیجا جاتا تو ٹی اے ڈی اے ملتا تھا۔

جیو کے پاکستان منتقل ہونے کے بعد دبئی کے عملے میں کچھ بے چینی تھی۔ لاہور اسلام آباد کے دوست کراچی میں قیام کے معاملے پر الجھن کا شکار تھے۔ اے آر وائی نے ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہا۔
ان دنوں نصراللہ ملک اے آر وائی میں کام کرتے تھے۔ وہ عثمان بھائی کے دوست تھے۔ (آج کل یہ دونوں حضرات نیو ٹی وی میں ایک ساتھ ہیں) انھوں نے جیو دبئی کے عملے کو پیشکش پہنچائی کہ اے آر وائی جوائن کریں اور دبئی میں قیام برقرار رکھیں۔ تب تک اے آر وائی کا دبئی اسٹیشن کام کررہا تھا۔

عثمان بھائی نے ہم لوگوں کو بتایا کہ سلمان اقبال سے ملنے جانا ہے۔ میں نے بتایا کہ اے آر وائی جانے کی خواہش نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ امی کو کینسر لاحق ہے اور میں انھیں چھوڑ کے دبئی نہیں جاسکتا۔ عثمان بھائی نے کہا، مت جاؤ لیکن سلمان اقبال سے ملاقات کے لیے ہمارے ساتھ چلو۔

مجھے سب دوستوں کے نام یاد نہیں۔ میں عثمان بھائی، عاطف اعوان اور ابراہیم راجا تو یقیناً تھے۔ شاید سات آٹھ لوگ تھے۔ ہم مزار قائد کے قریب بڑے سے محل پہنچے۔ ڈرائنگ روم میں سلمان اقبال کے علاوہ ان کے ایچ آر منیجر اور ناصر بیگ چغتائی بھی موجود تھے۔ وہ کچھ عرصہ پہلے جیو چھوڑ کر اے آر وائی کے ڈائریکٹر نیوز بن گئے تھے۔

سلمان اقبال سے مذاکرات میرے لیے مایوس کن تھے۔ جیو نے دبئی میں ہمارا بہت خیال رکھا تھا اور ہر طرح کی سہولت دی تھی۔ فیملی سمیت ویزا، میڈیکل، ٹکٹ، ٹرانسپورٹیشن، اچھی تنخواہ، سب کچھ فراہم کیا۔ اے آر وائی کے پاس ٹھیک سے تسلی بھی نہیں تھی۔ ایچ آر منیجر نے بتایا کہ ٹکٹ صرف ملازم کو ملے گا، فیملی کو نہیں۔ میڈیکل اور دوسری سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ میرا پہلے ہی ارادہ نہیں تھا۔ اس ملاقات نے دلبرداشتہ کردیا۔
میری چھٹیاں باقی تھیں کہ ایک دن دو کالز ایک ساتھ آئیں۔ ایک جیو سے تھی کہ بڑے صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ دوسری ایک دوست نے کی کہ آج رات ایک دعوت میں ڈیفنس جانا ہے۔ اتفاق سے بڑے صاحب سے ملاقات دعوت سے کچھ دیر پہلے تھی۔ میں وقت پر دفتر پہنچ گیا۔

بڑے صاحب نے کچھ انتظار کروایا، پھر مجھے کمرے میں بلایا۔ مجھ سے پوچھا کہ کوئی شکایت ہے تو بتائیں۔ میں نے کہا، جی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان واپس آنے کے بعد کتنی تنخواہ کی توقع کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میری کوئی توقعات یا خواہشات نہیں۔ آپ جو بھی مناسب سمجھیں۔ انھوں نے ایک سادہ کاغذ پر لکھا، پروموشن، ایک لاکھ پچھتر ہزار تنخواہ، 1300 سی سی کار، جو تین سال بعد آپ کی ہوجائے گی۔ میں نے انھیں بتایا کہ یہ بہت زیادہ ہے اور مجھے گاڑی چلانا نہیں آتی۔ انھوں نے ہنس کر کہا کہ یہ آپ کا حق ہے۔ ہاتھ ملاکر مجھے رخصت کیا۔

میں نیچے آیا تو دفتر کے دوست دعوت میں جانے کے لیے تیار تھے۔ میں سارے راستے گم صم رہا۔ ہم ڈیفنس میں جنگ کے ڈائریکٹر عابد عبداللہ صاحب کے گھر پہنچے۔ یہ دعوت جیو دبئی کے عملے کے اعزاز میں تھی۔ ان میں بیشتر وہی لوگ تھے جو سلمان اقبال سے ملاقات کرکے آئے تھے۔
جب سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے اور دفتر کا ذکر چھڑ گیا کہ آئندہ کیا ہوگا تو عابد عبداللہ صاحب نے کہا، آپ کسی اور ادارے میں جانے کا مت سوچیں۔ بہت جلد آپ سب لوگوں کو نئے لیٹرز مل جائیں گے۔ کسی نے کہا، پتا نہیں اچھے پیسے ملیں گے یا نہیں۔

عابد عبداللہ نے اچانک کہا، بہت اچھے پیسے ملیں گے۔ بے شک مبشر زیدی سے پوچھ لیں۔
سب کی گردنیں میری طرف گھوم گئیں۔ میں ہکابکا رہ گیا۔ تب احساس ہوا کہ بڑے لوگ کیسے گیم کھیلتے ہیں۔ انھیں معلوم تھا کہ میں جیو کا وفادار اور قناعت پسند آدمی ہوں۔ اسی لیے بڑے صاحب نے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کی۔ گویا پنالٹی کارنر پھینکا۔ عابد عبداللہ نے دعوت کے بہانے سب کے سامنے میری مثال پیش کرکے گول کردیا۔

دوستوں نے بعد میں بہت سوال کیے اور میں آئیں بائیں شائیں کرتا رہ گیا۔ میرے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

کھانا اچھا تھا۔ وعدے کے مطابق چند دن بعد مجھے پروموشن کا لیٹر اور گاڑی مل گئی۔ کئی دوست جیو میں رک گئے۔ کئی اے آر وائی چلے گئے۔ ان پر کیا بیتی، یہ الگ دلچسپ کہانی ہے جو کسی دن سبط عارف یا احسان احمد کو سنانی چاہیے۔

About The Author