مئی 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وائلڈ لائف پارک کی حالت زار کے ذمہ دار کون؟۔۔۔جام ایم ڈی گانگا

اس پارک کو نہری پانی فراہم نہ کرنا یا متبادل پانی کا انتظام نہ کرنا یقینا وائلڈ لائف کی بے حسی اور نااہلی ہے

وزیر اعلی پنجاب نے وسائل کا رخ جنوبی پنجاب کی طرف موڑ دیا ہے. سرائیکی وسیب کے لیے اربوں کے ترقیاتی منصوبے منظور اور فنڈز جاری، حکومتی اقدامات سے سرائیکی خطے میں ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا.

سابق وزیر اعلی پرویز الہی سے لیکر سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف اور ٹمپریری و نمائشی وزیر اعلی سردار دوست محمد کھوسہ تک اور اب سرائیکی وسیب ہی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار تک ہر دور میں مذکورہ بالا سکہ بند فقرے ہمیں اپنے سرائیکی وسیب کے اضلاع کے نام نہاد عوامی خوشامدی نمائندگان سے سنتے چلے آ رہے ہیں.

ایسے خوش کن اعلانات سننے کے بعد جب ہم مختلف اضلاع کے زمینی حقائق دیکھتے ہیں. حکومت کے اعلان کردہ منصوبہ جات کی حقیقت، ترقیاتی رفتار اور تکمیلی مدت کا جائزہ لیتے ہیں تو یقین کریں.

جھوٹوں پر وہ حرف بھیجنے کو جی کرتا ہے.کیڈٹ کالج خان پور، رحیم انڈسٹریل اسٹیٹ، مینگو ٹریٹمینٹ پراسیسنگ اینڈ کولڈ سٹوریجز وغیرہ سمیت کس کس منصوبے کا یہاں نوحہ لکھوں.

48لاکھ سے زائد آبادی والے میرے ضلع رحیم یار خان کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں وائلڈ لائف پارک کے نام سے ایک من صوبہ 1986ء میں لانچ ہوا. 33سالوں میں وہ آج کے دن تک مکمل نہیں ہو سکا.

اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور اپنی اپنی مدت پوری کرکے چلی گئیں مگر افسوس صد افسوس کہ یہ منصوبہ ہنوز اپنی تکمیل کےلیے کسی احساس رکھنے والے عوامی نمائندے اور انصاف پسند حکمرانوں کا منتظر ہے.

میں اپنی بات کو مزید آگے بڑھانے سے قبل اس پارک کے حوالے سے ایک خبر آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں.

ُ ُُ ُ 15ایکڑ رقبے پر محیط 1986ءسے قائم وائلڈ لائف پارک رحیم یارخان کی حالت زار جاننے کے لئے ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے وائلڈ لائف پارک مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔

بڑے جانوروں کے جنگلے اور پرندوں کے پنجرے ‘ فٹ پاتھ لان‘ واٹر کورس‘ سٹاف کی رہائش گاہ ‘ ٹوائیلٹ‘ پینے کے پانی سمیت دیگر منصوبے تاحال کئی سالوں سے ادھورے پڑے ہیں۔

گراﺅنڈز میں جگہ جگہ تعمیراتی ملبہ عرصہ دراز سے پڑا ہوا خراب ہورہا ہے۔ نہری پانی نہ ملنے کی وجہ سے گراﺅنڈ اور پودے سوکھ رہے ہےں۔ پارک میں تفریح کے لئے آئے ہوئے بچوں اور ان کے والدین نے بتایاکہ وائلڈ لائف پارک میں کوئی بڑا جانور شیر‘ ہاتھی ‘ اونٹ اور زرافہ وغیرہ نہ ہیں جس کی وجہ سے عوامی رحجان دن بدن کم ہورہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پارک میں نہ کنٹین ہے اور نہ ہی دیگر سہولتیں میسر ہیں جس کی وجہ سے پارک سارا دن ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ چند ایک لوگوں کے علاوہ زیادہ تر منچلے اور ڈیٹ ٹائم والے عاشق مزاج لوگ ہی اس پرسکون ماحول کو انجوائے کرتے ہیں۔

وائلڈ لائف پارک کے حکام کے مطابق گزشتہ حکومت کے دور سے فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے وائلڈ لائف پارک کے تعمیراتی کام رکے ہوئے ہیں۔ تاہم اپنی مدد آپ کے تحت پارک کو مزین اور صاف ستھرا کیا جارہا ہے‘ نئے پودے لگائے جارہے ہیں اور مقامی مخیر حضرات کے تعاون سے پارک میں بچوں کی تفریح کے لئے جھولے لگا دیئے گئے ہیں جو جلد چالو کردیئے جائیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پارک کو درپیش مسائل جلد حل کروانے کے لئے انہوں نے اعلی حکام کے ساتھ ساتھ مقامی ایم پی اے چودھری آصف مجید سے بھی رابطہ کیا ہے انہوں نے وائلڈ لائف پارک کے تمام مسائل جلد حل کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ وائلڈ لائف پارک کے رکے ہوئے فنڈز جلد ریلیز کرانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی اور اس پارک کو بہاول پور ڈویژن کا خوبصورت پارک بنانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت وائلڈ لائف پارک میں 16ہرن ‘4 پاڑہ  ہرن‘9نیل گائے‘ 3بندر‘ 20بطخیں اور 160 مور ہیں۔ ٗ ٗ

محترم قارئین کرام،،آپ یہ حقیقت جان کر یقینا حیران ہوں گے کہ رحیم یار خان میں حقیقی معنوں میں کوئی بڑا اور معیاری پارک سرے سے موجود ہی نہیں. یہاں تخت لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے چوک جتنی جگہوں کو پارک کا نام دے کر الٹا لفظ پارک کی توہین کی گئی ہے.

شہر اور مضافات میں تفریحی سہولیات کا فقدان ہے. رحیم یار خان میں کم از کم 25ایکڑ رقبے پر محیط تفریحی پارک وقت کی اشد ضرورت ہے.شہر میں تفریحی اور ثقافتی تقریبات کے انعقاد کے کیے بھی کوئی عوامی سرکاری آڈیٹوریم اور ہال نہیں ہے. یہاں الحمرا لاہور یا ملتان آرٹس کونسل ہال کی طرح ایک جدید یال کی تعمیر بھی وقت کی ضرورت ہے.

وائلڈ لائف پارک ٹبی لاڑاں رحیم یار خان کو جن مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا. یہ ابھی اس سے کوسوں دور ہے. جنگلی حیوانات کی افزائش نسل اس کا پہلا مقصد تھا. دوسرا عوامی تفریح. اس کی حالت کے بارے میں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں.

صوبہ پنجاب بلخصوص اپر پنجاب میں بھلا کوئی ایسا وائلڈ لائف پارک جیسا شہکار سرکاری منصوبہ ہے. جو ترقیاتی پیریڈ میں اس کا مقابلہ کرے. یا مخیر حضرات کی خیرات سے تفریحی پارک چلایا جا رہا ہو. بیورو کریسی اور حکمرانوں کے ایسے رویوں اور سلوک پر افسوس ہے. اسی لیے تو سرائیکی خطے کے لوگ حکمرانوں سے من صوبوں کی بجائے اپنا صوبہ مانگتے ہیں.

لوگوں نے یہاں تحریک چلا رکھی ہے کہ ہمیں کوئی من صوبہ نہیں اب اپنا صوبہ دو. یہ ملک سب کا سانجھا ہے. اس کے وسائل پر سب کا برابر حق ہے. وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، ترقیاتی عدم توازن ہی نفرتوں کی سب سے بڑی وجہ ہے.

رحیم یار خان اور مضافات میں کئی ایسے مقامات موجود ہیں جن پر تھوڑی سی توجہ دے کر اور کچھ وسائل خرچ کرکے نہ صرف قدیمی تاریخی ورثے کو محفوظ کیا جا سکتا ہے بلکہ انہیں عوام کے لیے شاندار اور بڑے تفریحی مقامات کا درجہ بھی دیا جا سکتا ہے. ایسے دو نمایاں مقام ہیں جن کی بہت بڑی تاریخی حیثیت بھی ہے.

ایک رحیم یار خان کے جنوب میں شہر کے پہلو میں پتن منارہ ہے. دوسرا رحیم یار خان شہر کے شمال میں تاریخی قلعہ مئو مبارک شریف ہے.دونوں جگہوں پر سرکاری زمینیں اور شام لاٹیں موجود ہیں.ایک آئیڈیل قسم کے جدید تفریحی پارک کےلیے دریائی محل وقوع کی حامل جگہ بے نظیر شہید بریج چاچڑاں شریف بھی اہم جگہ ہے.

اس محل وقوع کی اہمیت و افادیت یہ ہے کہ اس پارک سے بیک وقت دو اضلاع ضلع رحیم یار خان اور ضلع راجن پور کے عوام یکساں مستفید ہو سکیں گے.

سی پیک موٹر وے ظاہر پیر کے مقام پر حضرت حمید الدین حاکم ؒ انٹرچینج کے نزدیک ترین واقع ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ جاتی ہے. یہ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اور ان کے بڑے بھائی وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ مخدوم خسرو بختیار کا حلقہ انتخاب بھی ہے.

ان صاحبان کے لیے یہاں پر مخدوم رکن عالم پارک منظور کروانا آسان ترین کام ہے. مئو مبارک شریف پر توجہ بھی انہی مخادیم کا اول حق بنتا ہے. مئومبارک ان کی بنیاد اور شناخت ہے مگر افسوس صد افسوس کہ یہ صاحبان ادھر کوئی میت لے کر آنے والے دن ہی آتے ہیں. جو تھوڑا بہت وقت وہاں بیٹھتے ہیں یہ کریں گے وہ کریں گے پتہ نہیں کیا کیا کریں گے کہتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں.

خوشامدی خلفاء اور ڈونکے توڑ منشی موشدی ایسی ویسی باتیں صاحبان کو یاد نہیں کرواتے شاید یہاں یہ رواج نہیں ہے. خیر چھوڑیں مئو جانے اور مخدوم جانیں.

محترم قارئین کرام،، یہ بھی حقیقت ہے کہ وائلڈ لائف پارک میں آنے والے جو تھوڑے بہت فنڈز آتے ہیں. جانوروں کی دیکھ بھال اور خوراک وغیرہ کے فنڈز ہوتے ہیں وہ حیوانات پر کم خرچ ہوتے ہیں. اس لیے جانوروں کی حالت خاصی پتلی پتلی سی ہے.

اس پارک کو نہری پانی فراہم نہ کرنا یا متبادل پانی کا انتظام نہ کرنا یقینا وائلڈ لائف کی بے حسی اور نااہلی ہے. حکمرانوں کی عدم پلاننگ اور عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے. محکمہ انہار رحیم یار خان وائلڈ لائف پارک، خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی اور محکمہ زراعت پلانٹنگ اینڈ ریسرچ سنٹر کے نہری پانی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرکے انہیں پانی فراہم کرے.

%d bloggers like this: