ایک دن دبئی کے نمبر سے کال آئی۔ ایک خاتون نے اردو میں پوچھا، ’’کیا آپ مبشر زیدی ہیں؟‘‘ میں نے اعتراف کیا، ’’جی ہاں۔‘‘ انھوں نے کہا، ’’میرا تعلق ڈان میڈیا گروپ سے ہے۔ ہم ٹی وی چینل قائم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘
یہ 2006 کی کسی شام کا ذکر ہے۔ میں ان دنوں جیو کے دبئی اسٹیشن میں تعینات تھا۔ بیوی بچوں کے ساتھ شارجہ میں رہائش تھی۔
میں نے ان خاتون سے کہا، ’’کسی مناسب آدمی سے بات کریں۔ میں حقیر فقیر اور جیو کا معمولی ملازم ہوں۔‘‘ خاتون نے سوال کیا، ’’کیا آپ ترقی نہیں کرنا چاہتے؟ بہتر عہدہ حاصل نہیں کرنا چاہتے؟ زیادہ پیسے نہیں کمانا چاہتے؟‘‘ میں نے سپاٹ لہجے میں کہا، ’’جی نہیں۔‘‘
وہ کچھ دیر سناٹے میں رہیں۔ پھر بولیں، ’’ایک ملاقات کرنے میں کیا ہرج ہے؟ میں پاکستان سے یہاں اسی کام کے لیے آئی ہوں۔ جیو کے دوسرے لوگوں سے بھی مل رہی ہوں۔‘‘ میں نے ہامی بھرلی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اگلے دن جمیرا روڈ پر واقع مرکاٹو مال کی لابی میں ملیں گی۔
میرے پاس گاڑی نہیں تھی۔ اگلے روز دفتر سے ٹیکسی لے کر مرکاٹو مال پہنچا۔ انھیں فون کیا۔ چند منٹ بعد وہ نمودار ہوئیں۔ خوش شکل، خوش لباس اور باوقار خاتون۔
ہم ایک میز پر بیٹھ گئے۔ انھوں نے چائے منگوائی۔ پھر بتایا کہ ڈان انگریزی زبان کا چینل قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ میں ہنس پڑا۔
انھوں نے کہا، ’’آپ کیوں ہنسے؟‘‘ میں نے کہا، ’’دو وجوہ سے۔ ایک یہ کہ مجھے انگریزی نہیں آتی۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کی اکثریت کو بھی نہیں آتی۔ انگریزی کا چینل چلے گا ہی نہیں۔‘‘
یہ بات سچ ہے کہ مجھے نہ تب انگریزی آتی تھی، نہ اب آتی ہے۔ خبریں ترجمہ کرنے سے انگریزی نہیں آتی۔ بے شک کچھ کہانیاں ترجمہ کی ہیں لیکن وہ ڈکشنری دیکھ دیکھ کر کی تھیں۔ دی نیوز اور دی کرکٹر میں بھی چند مضامین میرے نام سے چھپے لیکن وہ میں نے الٹی سیدھی انگریزی میں لکھ کر گل حمید بھٹی صاحب کو دیے تھے اور قابل اشاعت انھوں نے ہی بنایا۔
خاتون نے کہا، ’’انگریزی لکھنے والے اور بولنے والے ہمیں بہت مل جائیں گے۔ ہمیں آپ کی صورت میں تجربہ کار ٹی وی پروڈیوسر چاہیے۔‘‘ بات اچھی تھی۔ دل کو لگی۔
میں نے انھیں بتایا کہ جیو مجھے ماہانہ بارہ ہزار درہم دیتا ہے۔ ’’کیا ڈان اس سے زیادہ تنخواہ دے سکے گا؟‘‘انھوں نے کہا، ’’نہیں۔ لیکن پاکستان کے حساب سے کافی معقول پیسے ہوں گے۔‘‘
پھر ان خاتون نے ایک عجیب بات بتاکر مجھے حیران کردیا۔ انھوں نے کہا، ’’ہم نے ایک سروے کروایا ہے۔ اس سے پتا چلا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جو چینل دیکھا جاتا ہے، وہ ایک انگریزی چینل ہے۔‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا، ’’کون سا چینل؟ بی بی سی یا سی این این؟‘‘ انھوں نے بتایا، ’’نیشنل جیوگرافک۔‘‘
میں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ چائے کا آخری گھونٹ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا، ’’بی بی! وہ چینل انگریزی وائس اوور کی وجہ سے نہیں، جانوروں کی ویڈیوز کی وجہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انگریزی نیوز چینل کوئی نہیں دیکھے گا۔‘‘
ان خاتون نے یقینی طور پر دوسرے لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں کیونکہ دفتر میں کئی لوگوں کا رویہ بدلتا ہوا نظر آیا۔ میری عادت ہے کہ جب تک کوئی بات طے نہ ہوجائے، کسی سے ذکر نہیں کرتا۔ اس کے برعکس کچھ لوگ تنخواہ بڑھوانے کے لیے افواہ اڑانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
میں اس وقت تک ان خاتون کو نہیں جانتا تھا۔ انھوں نے نام ضرور بتایا تھا۔ امبر ہارون سہگل۔ آج میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ وہ ڈان میڈیا گروپ کی چیئرپرسن، محمود ہارون کی بیٹی اور سہگل خاندان کی بہو ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔
(ہمارے دوست صہیب علوی نے تصحیح کی ہے کہ امبر صاحبہ کی بیٹی ناز آفرین سہگل انٹرویوز کے لیے آئی تھیں۔ شاید مجھے غلط نام یاد ہے)
بعد میں جیو کے بہت سے کارکنوں نے ڈان جوائن کیا۔ ان میں سب سے بڑا نام جیو کے ڈائریکٹر نیوز اظہر عباس صاحب کا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ڈیلی ڈان نے صفحہ آخر پر ان کی تصویر کے ساتھ خبر شائع کی تھی۔
انگریزی نیوز چینل نہیں چلنا تھا، نہیں چلا۔ اظہر صاحب اور کئی دوست کچھ عرصے بعد جیو واپس آگئے۔ ڈان والوں کو بھی سمجھ آگئی اور انھیں اپنے چینل کو زندہ رکھنے کے لیے انگریزی سے اردو میں تبدیل کرنا پڑا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ