ابتدا سے ہی انسان علم و فن اور نئی ایجادات کی ارتقائی دوڑ کامیابی سے دوڑ رہا ہے اورساتھ ساتھ کھیل اور تفریح کے میدان میں بھی بتدریج ترقی کر رہا ہے۔کیونکہ صدیوں سے ہی انسان محنت مشقت اورکام کاج کی تھکن کودور کرنے اور فرصت کے اوقات میں لطف اندوز ہونے کے لیے کھیل تماشوں کا سہارا لیتا ہے لہذااگر ماضی کے دریچوں پر نظر دہرائیں تو بہت سے لڑکوں کے روائیتی اور ثقافتی کھیل سر زمین ڈیرہ اسماعیل خان میں کھیلے جاتے رہے ہیں جو لڑکوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھےمثلا گُلی ڈنڈا، چور سپاہی، کوکلے چھپاکی، پٹھو گرم، بنٹے (چِدے)،چھپن چھپائی، اُچی جِھکی جھاہ، مار کُٹائی، مانجھے لگانا اور پتنگ اڑانا وغیرہ وغیرہ یہ کھیل کبھی ہمارے گلی کوچوں کی رونق ہوا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ کھیل ماضی کا حصہ بنتے گئے یہی وجہ ہے کہ نئی نسل تقریباًان سے نا واقف ہے۔
چند دن پہلے کسی دوست کو ملنے گیا تو اسکا بھانجا اپنے ٹیبلٹ پر کھیل رہا تھا، میں بہت حیران ہوا کہ دس بارہ سال کا بچہ نجانے کونسا ایسا کھیل کھیل رہا ہے جس میں گولیاں چلنے کی آوازیں ، چیخیں اور کراہنے کی بلند ہوتی آوازیں، بے ہنگم اور بے ڈھبی آوازوں کا نہ رکنے والا شور۔ میرے استفسار پر بچہ بولا انکل میں بلڈ وارئیر کھیل رہا ہوں ، اس کھیل میں دشمن اور اسکے ساتھیوں کو مارنا ہوتا ہے کبھی گولی کے ساتھ اور کبھی خنجرکے ساتھ اور اس میں آپ جتنے زیادہ قتل کرو گے آپ کامیاب ہو جاؤ گے۔ بچے کی یہ بات سُن کر میں سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ ہم اپنی نئی نسل کو کیا کھیل سکھا رہے ہیں ؟ گلی محلوں میں کھلونا نما پستول موجود ہیں اور بچے ان کا استعمال کر رہے ہیں ، عصر حاضر کے کھیلوں میں نہ وہ روائیتی پن رہا، نہ ہی خوبصورتی، نہ ہی بچے کو جسمانی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع اور نہ ہی ہماری پُرامن ثقافت کا پرچار۔ بلکہ بچوں کے صاف و شفاف اور مثبت زہن کو متشدد بنانے اور جارحانہ انداز اپنانے پہ مجبور کر رہے ہیں۔
جبکہ ہمارے ثقافتی اور روائیتی کھیل کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ جس میں جسمانی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ادب آداب اور بات چیت کی صلاحیت، توجہ مرکوز کرنے، شعور ، دوستی ، یکجہتی اور تعاون کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ یہ روائیتی کھیل صرف کھیل نہیں ہوتے بلکہ وہ زندگی کے اقدار کو سکھاتے ہیں۔ مان لیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے طور طریقے بدل گئے، ہم نے ضرورتوں سے خواہشات تک کا سفر بہت تیزی سے طے کیا۔ قدیم روایتی کھیلوں کی جگہ کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز نے لے لی، زندگی کے ان جھمیلوں میں کھوکرہم نے کتنی چھوٹی چھوٹی خوب صورتیوں کو نظر اندازکردیا ہے، اس لئے کہ شاید ہم کسی بہت بڑی خوشی کے انتظار میں رہتے ہیں اور لمحہ موجود کو محسوس ہی نہیں کرتے۔
ان روائتی کھیلوں کو کھیلنے کی کوئی عمر تو ہے ہی نہیں۔ بچوں سے لے کر بڑے بوڑھے جب یہ کھیل کھیلتے ہیں تو نسلوں کا فرق ختم ہو جاتاہے۔ ساتھ ہی ان سے ثقافت اور روایتوں کا پتہ چلتاہے۔ اپنے بچپن کے اس دور میں جب گیند اور بلے سے کھیلنا تو دور کی بات ٹھیک طرح سے پکڑنا بھی نہیں آتا تھا۔ ہم کچھ ایسے "آؤٹ ڈور گیمز” کھیلا کرتے تھے جو بھلائے نہیں بھولتے اور جن کو کھیلنے کی تمنا آج بھی شدت سے دل کے ایوانوں میں شور مچاتی ہے۔ ان کھیلون کا تذکرہ یقینا قارئین کے لبوں پر مسکراہٹ کا سامان مہیا کرے گا۔ بچپن کا ایک کھیل لَٹُونڑی (لَٹو) بھی زہن کے دریچوں میں بالکل لَٹُونڑی کی طرح گھومتا رہتا ہے ۔ تین انچ گولائی والی عام طور پر لَٹونڑی اور اس سے بڑی گولائی والی کو “ پَکھ“ کہا جاتا تھا۔ لَٹُونڑی یا پکھ ہلکے وزن کی لکڑی اور بہترین رنگوں سے منقش ہوتی تھی تقریبا ہرجگہ سے آسانی سے مل جاتی تھی۔ شوقین حضرات خصوصی طور پر اپنی پسند کے مطابق بھی بنواتے تھے اس پر رنگین پھول پتیاں بنوانے کے ساتھ ساتھ درمیان میں شیشہ اور کناروں پہ اپنے نام بھی کندہ کرواتے تھے۔ اندرون شہر ان لٹونڑیوں اور پکھوں کو بنانے کے ماہر استاد الطاف حسین چوڑیگر، عابد حسین چوڑیگر، ریاض حسین چوڑیگر، شوکت حسین چوڑیگر، سعید گلزمان والے اور کئی دوسرے استاد اس فن میں اپنی مثال آپ تھے۔ خصوصی طور پرلٹونڑیوں کے شوقین حضرات استاد اشرف مرحوم (پرائڈ آف پرفارمنس) کے بیٹے محمد وسیم اور اس خانوادے کے دیگر افراد سے اپنی فرمائش اور پسند سےاعلیٰ اور نایاب قسم کے نقش بنواتے تھے۔
لٹونڑی یا پکھ لکڑی کا تراشا ہوا گول قطر کا دو سے سات انچ کا ایک ٹکڑا جس کا اوپر کا حصہ چوڑا اور نیچے درمیان میں لکڑی کا چھوٹا سا گول ٹکڑا جوڑا جاتا۔ اس درمیانی چھوٹی لکڑی کے حصے کے آخر پر لوہے کی کیل نما سلاخ نکلی ہوتی تھی جس پر یہ لٹونڑی یا پکھ گھومتا۔ اصل مہارت اسی کیل کی پتلی نوک بنانے پہ ہوتی تھی اور اسی کیل کی نوک پہ زیادہ دیر گھومنے کا انحصار ہوتا تھا اور اس لٹونڑی اور پکھ کے اوپر اور نیچے تک کے حصے کے درمیان میں جو گول چھوٹی لکڑی کا ٹکڑا جڑا ہوتا تھا اس پر انتہاہی فنکارانہ اندازمیں ایک باریک ڈوری لپیٹنے کی جگہ تراشی گئی ہوتی تھی جس پر ڈوری لپیٹ کر کھیل کا آغاز کیا جاتا۔ جس پر ڈوری لپیٹ کر کھیل کا آغاز کیا جاتا اور لٹونڑی چلانے کا مقابلہ شروع ہوجاتا اور عموما اس مقابلے میں ایک ہی وقت میں کئی لٹونڑیاں اور پکھ زمین پر خوبصورت رنگوں سے گھومتے اور دیکھنے والے جھومتے، تالیاں، ایک دوسرے کو ہرانے اور جیتنے کا شور اور نعرے عجیب محبتوں کا سماں باندھتے۔ اگر لٹونڑی چلانے کے بعد وہ صحیح گولائی میں نہ گھوم رہی ہوتی تو اسکو انگھوٹے کے ناخن کی دھمک سے سیدھا کیا جاتا، ماہرشوقین تو اس انداز اور قوت سے پھنکتے کہ لٹونڑی عجیب چال سے گھومتی، پھینکتے ہی یوں محسوس ہوتا کہ لٹونڑی جیسے تھم سی گئی ہو، دکھائی ہی نہیں دیتی تھی کہ گھوم بھی رہی ہے یا نہیں، ایسا لگتا تھا کہ جیسے زمین سے لٹونڑی چمٹی ہوئی ہو۔ کئی منچلے اس دوران زمین پہ چلتی ہوئی لٹونڑی اور پکھ کوبڑی مہارت اور انگھوٹے کے ناخن کے جھٹکے سے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر اس طرح اٹھا لیتے کہ وہ مسلسل گھومتی ہی رہتی۔ مقابلے کے آخری لمحوں میں لٹونڑیوں کی چال ایسے ہوتی کہ لوگ انگلیوں کے اشارے کر کے زور زور سے کہتے، ابھی گری ابھی گری، مگر گھومتی ہوئی لٹونڑی ہچکوے کھاتے اور گرتے گرتے بھی وقت لے جاتی۔ مقابلے میں سب سے آخر پہ جس کی لٹونڑی گرتی وہ فاتح ہوتا اور یار دوست اس کو کاندھوں پر اٹھاتے ، ہلا گلا، شور شرابا اور ہر زبان پہ ہوتا “ یار اوندی لٹونڑی دی کیا ہی بات ہئی، ساکوں سٹیندے ہی پتہ لگ گیا ہئی کہ مارے ہی مارے۔
ماضی میں اس کھیل کی طرح اورکئی طرح کے کھیل ہوتے تھے، صرف کرکٹ کو ہی کھیل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ ماضی کے کھیلوں میں ایک تعمیری مقصد ہوتا تھا کہ بچوں کی جسمانی تریبت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشو ونما بھی ہواور ساتھ ہی ساتھ وہ جذباتی طور پر خود کو اتنا مضبوط بنا لیں کہ دنیا کی کسی مشکل کا ہمت سے سامنا کر سکیں لیکن افسوس یہ کہ اب ایسا نہیں، نہ وہ لٹونڑیاں رہیں اور نہ اس لٹونڑی کی مانگ۔ اب ایک مقصد ہے ،صرف اور صرف زندگی کو ایک غیر سنجیدہ چیز کے طور پر لینا ۔
آج ضرورت ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں اور محلوں کے نوجوان گروپ آگے آکر ان دم توڑتے روائتی کھیلوں کو فروغ دیں۔ یہی نوجوان بزرگوں اور عوام کے تعاون سے اپنے روائتی کھیلوں کا بڑا مجموعہ تیار کر سکتے ہیں۔ ان کھیلوں کے ویڈیو بنائے جاسکتے ہیں جن میں کھیلوں کے اصول، کھیلنے کے طریقہ کے بارے میں دکھایا جاسکتاہے۔ اب بھی وقت ہے کہ انکو بچا لیں، کہیں ہمارے یہ روائتی کھیل کھو نہ جائیں اور اگر ایسا ہوا توصرف کھیل ہی نہیں کھو جائیں گے بلکہ بچپن ہی کھو جائے گا اور پھر آپ بھی سدرش فاقر کی نمناک آنکھوں سے یہ غزل سنتے رہیں گے، یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی، مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر