اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رفعت عباس،لوک داستانوں کی ڈی کنسٹرکشن۔۔۔علی آکاش

سرائیکی زبان کے مقبول شاعر رفعت عباس سندھ آئے تو جامعہ سندھ جامشورو کے سندھی شعبہ کے چیئرمین اسحاق سمیجو نے ان کے ایک لیکچر کا اہتمام کیا۔ شرکاء میں اکثریت طلبہ اور طالبات کی تھی۔ اپنے اس لیکچر میں رفعت عباس نے سرائیکی وسیب کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ راجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں سرائیکی وسیب کو فتح کر کے سکھ پنجابی ملوکیت کا حصہ بنا دیا گیا، اس سے قبل ہزاروں برس سے یہ خطہ اپنی تاریخی تہذیبی اور جغرافیائی شناخت کا حامل تھا ۔ انگریزوں نے سرائیکی وسیب پر 1849ع میں قبضہ کیا اور اسے رنجیت سنگھ کے تسلسل میں لاہور کے رحم وکرم پر ہی چھوڑ دیا ۔ 1947ع میں مشترکہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سرائیکیوں کو امید تھی کہ ان کی اس چھینی ہوئی تاریخی حیثیت کو بھی بحال کیا جائے گا لیکن نئے حکمرانوں نے بھی انگریزوں کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے سرائیکی وسیب کا پنجاب سے الحاق برقرار رکھا۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں سے سرائیکی وسیب کی تنہائی شدید تر ہوئی اور لوگوں کے دلوں میں اپنی شناخت کی بحالی کا جذبہ بیدار ہوا۔ رفعت عباس نے اپنی ماں بولی سرائیکی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے سرائیکی لوگ اس ملک میں ایک جداگانہ اکائی کی شناخت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں اپنی شناخت اور سیاسی حقوق کا شعور پورے وسیب میں عام ہو چکا ہے ‘ شاعر، دانشور اور سیاسی کارکن اپنی دھرتی کی خودمختار حیثیت کی بحالی کے لئے ہراول دستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرائیکی ادب میں نئی ثقافتی اور تہذیبی لہر ستر کی دہائی میں اُبھری – اس سے قبل بیشتر سرائیکی شاعری، کہانی اور تنقید اپنے ادبی اور تہذیبی تسلسل سے کٹی ہوئی تھی – ہیئت و مواد کافی حد تک مقامی روایت سے بیگانہ تھے، جن میں اپنی زمین کی خوشبو نہ تھی اور نہ ہی یہ تخلیقی عمل اپنے زمینی ماحول اور سماجی اقدار سے مربوط تھا ۔ نئے شعور کے تحت ابھرنے والی تہذیبی اور سیاسی شناخت نے تخلیقی روش کو اپنی جڑوں سے جوڑ دیا ہے –

جدید سرائیکی شاعری کے سفر کے سلسلے میں انھوں نے ستر کی دہائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ سرائیکی میں اپنی تہذیبی بازیافت کا زمانہ تھا۔ عاشق بزدار کی آواز بلند ہوئی:
ساڈے ہتھ، کڑیاں وچ بند
اساں قیدی تخت لہور دے

اسی طرح اشو لال کا رزمیہ "سندھ ساگر نال ہمیشہ” سامنے آیا جو سندھ وادی کی عظمت و بازیافت کا بیانیہ ہے ۔ اسی زمانے میں ارشاد تونسوی، اسلم جاوید، نصر اللہ خان ناصر، ممتاز حیدر ڈاہر، عزیز شاہد، جہانگیر مخلص ،شمیم عارف قریشی، صوفی تاج گوپانگ اور کئی دیگر شعرا نے سرائیکی شاعری کو نئی راہوں پہ ڈال دیا ۔ یہ زمانہ روایتی شاعری سے بغاوت اور اپنی ثقافت اور دھرتی کی ہر چیز کو اپنانے کا تھا۔ دھرتی کی شناخت اور سیاسی آزادی شاعری کا محور بنی ۔ اس زمانے میں سرائیکی خطے کا تاریخی مقدمہ شاعروں کے ذریعے عام ہوا۔ سرائیکی زبان کی اس تاریخی تخلیقی کایاپلٹ میں صرف مواد کی تبدیلی شامل نہ تھی بلکہ ہیئتی سطح پر بھی کام ہوا اور لوک اور کلاسیکی اصناف سخن نے نئی صورت دھاری ۔ فارسی و عربی اصناف سخن کے مقابلے میں مقامی اصناف کافی، بیت، دوہڑا، سرائیکو (ہائیکو) اور جدید شاعری میں سے آزاد اور نثری نظم کو ترجیحی طور پر لکھا گیا۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ خود انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا اردو شاعری سے کی اور مشہور اردو رسالے "فنون” میں ان کی ابتدائی غزلیں چھپتی رہیں تھیں لیکن وہ جلد ہی اپنے مقامی اسلوب و انداز کی طرف لوٹ آئے۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب سرائیکی شاعروں نے اپنی شاعری کا ناتہ علم عروض سے توڑ کر دھرتی کے مقامی ردھم سے جوڑا۔ رفعت عباس کا کہنا تھا کہ علم عروض میں اس کی دھرتی کی حقیقی لَے اور جذبات کو جذب کرنے کی قوت نہیں ہے۔ اس دھرتی کا اصلی ردھم ہی حقیقت میں تخلیق کو بلندی اور قبولیت فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کافی سرائیکی وسیب اور سندھو سبھیتا کی ایک تاریخی صنف ہے، جس کا ایک وسیع اور عریض ثقافتی پس منظر ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ بطور مجموعی ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فارسی، عربی اور اردو تراکیب، اصناف اور ردھم سے سرائیکی شعر و ادب نے اپنا پلو آزاد کر کے اپنی زبان، ثقافت، زمین اور مقامی زمان و مکان سے باندھ لیا ہے۔

اپنے اس لیکچر میں رفعت عباس نے اساطیری روایت کے "اسٹیٹس کو” کو توڑنے اور لوک داستانوں کو ڈی کنسٹرکٹ کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ لوک داستانیں حقیقتاً اس طرح نہیں جس طرح ان کو پیش کیا گیا ہے۔ بیشتر لوک داستانوں پر ایک رومانویت کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔ عہد جدید کا شاعر اگر اپنے کلاسیکی ورثے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اس کو اساطیری ادب کی گہرائیوں میں پڑے حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔ وہ اس روایت کو نہیں مانتے کہ ہیر رانجھا کی لوک داستان میں کیدو نے ہیر کو زہر کا لڈو کھلا کر مارا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہیر کو غیرت کے نام پر دریا چناب کے کنارے قتل کیا گیا تھا ۔ وحدت الوجود نے ہیر کو رانجھے میں مدغم کر دیا اور یوں ہیر کا قتل چُھپ گیا۔ ہماری شاعری، ناٹک اور فلم نے اس قتل پر رومانس کا پردہ ڈال دیا- عام لوگ اس لوک داستان کو اسی داستان گو کی آنکھ اور نظریے کی رو سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر آج کا شاعر بھی اسی داستان گو کے بیانیے کی تقلید کرے گا تو اس سماج میں عورت کے قتل کو نہیں روکا جا سکتا۔ مقامیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہیر رانجھا کی داستان کو داستان گو کی رومانویت سے جدا کر کے دیکھا جائے ۔ اس قصے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رانجھے کو جوگی ہونے کی وجہ سے تحفظ حاصل تھا اور وہ قتل ہونے سے بچ گیا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ہیر اور رانجھا دونوں قتل ہوئے اور دھوئیں کی صورت میں آسمان کی طرف پرواز کر گئے اور عشق میں امر ہو گئے۔ یہی رومانویت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اس دھویں کو ہٹانا ہی تخلیقی کام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہیر رانجھا کی داستان رادھا اور کرشن کے لیجنڈ سے براہ راست متاثر ہے۔

اساطیری مغالطوں پر مزید بات کرتے ہوئے رفعت عباس نے کہا کہ سوہنی اور مہنیوال کی لوک داستان کی پرتیں خود بتاتی ہیں کہ سوہنی غیرت کے نام پر قتل ہوئی اور اسے قتل کر کے دریا میں پھینکا گیا۔ اس روایت کو پرکھا جا سکتا ہے کہ کیا وہ کچے گھڑے پر دریا میں اترنے کی وجہ سے ڈوب کر مری تھی۔ اس نئے تجزیے کی بنیاد یہ ہے کہ کس طرح ایک کمہار کی بیٹی کچے اور پکے گھڑے میں فرق نہ کر سکی۔ مہنیوال، سوہنی کے عشق میں اپنا سب کُچھ لُٹا کر سوہنی کے باپ عبداللہ کمہار کے ہاں چرواہے کے طور پر کام کرنے لگا۔ جب دونوں کے عشق کے چرچے عام ہونے لگے تو بدنامی سے بچنے کے لئے خاندان نے سوہنی کی شادی دریا پار کر دی، لیکن سوہنی نے مہنیوال سے اپنے عشق کا سلسلہ جاری رکھا، جب اس کے خاندان کو یہ معلوم ہوا تو اس کو قتل کردیا گیا اور یہ بات عام کردی گئی کہ وہ کچے گھڑے پر تیرنے کے سبب دریا میں ڈوب کر مری ہے۔

لوک داستانوں میں عورت دشمنی کا عنصر موجود ہے، جس پر رومانویت کا غلاف ڈالا گیا ہے۔ رفعت عباس کا کہنا تھا کہ لوک داستانیں صنفی تفریق اور اور پدرشاہی معاشرے کی نفسیات اور مزاج کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ آج کے زمانے میں کلاسیکی داستانوں کا رواجی بیانیہ نہیں چل سکتا، جو کہ نہ صرف مقامیت کے منافی ہے بلکہ جدید عالمی اقدار کی رو سے بھی غیر واسطہ دار ہے۔

اپنی اس فکر انگیز گفتگو میں رفعت عباس نے مقامیت (Nativity)کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آج مقامی آدمی وہ ہے جو اس دھرتی کو اپناتا ہے جس میں وہ رہتا اور اٹھتا بیٹھتا ہے، وہ آدمی اس علاقے کی زمیں، زبان، ثقافت اور مزاج سے خود کو ہم آہنگ کرتا ہے۔ ایک مقامی آدمی کبھی بھی حکمرانوں، غاصبوں، لٹیروں، حملہ آوروں کا طرفدار نہیں ہوتا، اس کا تعلق کسی استعماری اقلیتی اشرافیہ سے نہیں ہوتا، بلکہ وہ مظلوم اکثریتی آبادی یعنی عام آدمیوں سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے۔ رفعت عباس نے آبادی کے تاریخی عمل سے اپنی واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقامیت کوئی قبائلی تصور نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایک جامد مظہر ہے۔ دنیا کے ہر ایک خطے میں، مختلف علاقوں سے آ کر لوگ آباد ہوتے رہتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ مقامیت میں جذب ہو جاتے ہیں، لیکن وہ پناہ گیر جو کسی آبادی میں آ کر مطلق العنان اور ظالم حکمرانوں کا ساتھ دیتے ہیں وہ کبھی بھی مقامی بن نہیں پاتے۔ سرائیکی وسیب میں مقامیت کا مسئلہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوا جب ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مہاجرین سرائیکی وسیب میں آ کر آباد ہوئے۔ انھوں نے سرائیکیوں سے رشتہ جوڑنے کے بجائے ان قوتوں سے قرب استوار کیا جو کہ سرائیکیوں کی تاریخی شناخت کے مطالبے کو نظرانداز کرتی اور بعض اوقات اس کو بے بنیاد قرار دیتی آ رہی تھیں۔

رفعت عباس کا کہنا تھا کہ مقامیت کوئی خاص اور طویل نسب نامہ نہیں ہے، یہ ذہنی آمادگی کی ایک کیفیت ہے جو کہ کسی علاقے میں رہنے والا آدمی اپنے آپ میں پیدا کر کے ہر اس چیز کو اپنا سمجھتا ہے جو اس علاقے کی تاریخ و تہذیب اور اقدار و روایات سے تعلق دار ہوتی ہے۔ وہ ایسی کیفیت کی موجودگی کو مقامیت کا نام دیتے ہیں۔ عدم مقامیت کے عمل کو بڑھاوا دینے والے عناصر کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ مقامی سطح پر مخصوص ریاستی نیریٹو کو فروغ دے کر ادارتی، سیاسی اور سماجی سطح پر بااثر اور مراعت یافتہ بن جاتے ہیں، ان کا کام عدم مقامیت کے عمل کو تیز کرنا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے ہی عناصر سرائیکی زبان کو پنجابی زبان کا ایک لہجہ قرار دیتے ہیں اور اس کی جداگانہ تاریخی شناخت سے انکار کا ماحول تیار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عدم مقامیت ہمیشہ حملہ آوروں، لٹیروں، بیرونی حکمرانوں، فاتحوں اور قبضہ گیروں کی معرفت معاشروں میں داخل ہوتی رہی ہے۔ ایک مقامی آدمی کا واحد مورچہ اپنی شناخت سے وابستہ چیزوں کو سنبھالنا ہوتا ہے، جیسے زبان، ثقافت، رہن سہن، مشترکہ روایات و اقدار، کلاسیکی ورثہ وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کہ مقامیت کی روح کو زندہ رکھتی ہیں اور اسے کبھی بھی مرنے نہیں دیتیں۔ اگر مقامی آدمی ان چیزوں کی مالکی کرتا رہتا ہے تو ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب معروضی سطح پر حالات تبدیل ہو جاتے ہیں اور اس کی مقامیت آفاقیت بن کر ابھرتی ہے ۔ عدم مقامیت کی قوتیں ہمیشہ مقامیت کی روح پر حملہ آور ہوتیں ہیں اور ایک غیرمقامی زبان، اجنبی ثقافت، ایک خودساختہ تاریخ اور بیرونی ہیروز کو مقامیت پر مسلط کرنے کی تگ و دو میں رہتی ہیں۔ ایک تاریخی اکائی کا زوال اس دن سے شروع ہوتا ہے جب مقامی آدمی اپنی ماں بولی چھوڑ کر کسی غیرمقامی زبان کو اپنی زبان کی جگہ رائج کرتا ہے۔ مقامیت کو تاریخی شعور سے طاقت ملتی ہے، جس کے ذریعے مقامی آدمی کو ادراک ہوتا ہے کہ تاریخ کے مختلف مرحلوں پر کون سی چیزیں کن کن حکمرانوں نے اس کی مقامیت میں داخل کی تھیں، یوں وہ ایک خود احتسابی پر مبنی تجزیاتی عمل سے گزر کر اپنی مقامی شناخت کی خالص اصلیت کو پہنچتا ہے۔

اپنے اس لیکچر میں رفعت عباس نے وحدت الوجودی فکر پر بھی گہرے سوالات اٹھائے۔ انھوں کہا کہ وہ صوفیاء کرام کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں، بلاشبہ انھوں نے انسانی رواداری، محبت اور امن کا پیغام عام کیا اور انسانی زندگی کو متوازن بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، لیکن سب چیزیں وحدت کے نام پر سمیٹی نہیں کی جا سکتیں۔ فرق کرنا ضروری ہے، وحدت ٹھیک ہے، لیکن دوئی بھی ضروری ہے۔ اگر ایک ہے تو دوسرا بھی ہے – ایک آدمی وہ ہے جو گھوڑے پر سوار ہے، ایک آدمی وہ ہے جو گھوڑے کے پیروں تلے روندا گیا ہے، ایک فاتح ہے اور دوسرا مفتوح ہے، ایک ظالم ہوتا ہے اور دوسرا مظلوم ہوتا ہے۔ اگر دونوں وحدت الوجود کی رو سے ایک ہیں تو بات رُک جاتی ہے ۔ لہٰذا وحدت الوجود کی فکر بھی ایک طرح سے مقامی آدمی کے مؤقف کے بجائے حکمرانوں اور فاتحوں کے مفادات کے قریب تر فکری ضابطہ ہے۔ قاتل اور مقتول میں فرق کرنا لازم ہے۔

%d bloggers like this: