محترم قارئین کرام،،ہر شعبہ زندگی میں تخت لاہور کی سرائیکی وسیب کے ساتھ زیادتیاں،استحصال اور نا انصافیاں کوئی نئی بات نہیں ہے. مختلف حربے، ہتھکنڈے اور طریقہ ہائے واردات کے ذریعے یہاں کے ارباب اختیار اور بیورو کریسی گاہے بگاہے ایسی کاروائیاں ڈالتے رہتے ہیں. جن سے سرائیکی وسیب کے لوگوں کو تخت لاہور کے محکوم اور زیر ہونے کا احساس ہوتا رہتا ہے.سرائیکی وسیب کے بچے اور بچیوں کا اعلی تعلیمی اداروں اور مقابلہ جات کے امتحانات میں تیزی سے آگے آنا تخت لاہور کو سخت ناگوار گزرتا ہے.انٹری ٹیسٹ کی ایجاد اور اجراء بھی میاں شہباز شریف اور پنجاب سرکار نے میڈیکل کالجوں، انجینئرنگ یونیورسٹیوں وغیرہ میں سرائیکی وسیب کے طالب علموں کا راستہ روکنے کے لیے ہی کیا تھا. جب ملتان بہاول پور ڈیرہ غازی خان بورڈز کے طلبہ و طالبات ماضی کی نسبت لاہور کے اداروں میں میرٹ پر زیادہ داخل ہونے لگے تھے. تب یہ انٹری ٹیسٹ مسلط کرکے چھانا لگایا گیا تھا.قانون وہاں بنتا ہے وہاں کے لوگ بناتے ہیں. عمل درآمد کرنے والے بھی وہی ہوتے ہیں.
محترم قارئین کرام،،سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے ساتھ تخت لاہور کے بہت بڑے تعلیمی ادارے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اپنے ایک آرڈر کے ذریعے ایک تازہ ترین زیادتی اور نا انصافی کی ہے.طلبہ و طالبات کی جانب سے بتایا جانے والا احوال کچھ یوں ہے.
وائس چانسلر نے سرائیکی خطے کے طلباء و طالبات کا مستقبل داؤ پر لگا دیاہے۔ وائس چانسلر نے رواں سال ایم-اے/ای۔ایس۔سی کی کلاسوں کے اجراء کے ایک مہینے بعد ان تمام طلباء و طالبات کا داخلہ منسوخ کر دیا ہے. جن کی گریجوایشن (بی۔اے/بی۔ایس۔سی) بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے تھی۔ تخت لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے جو اپنے تئیں میرٹ میرٹ کا راگ الاپتے رہتے ہیں، طلباء و طالبات سے کالج اور ہاسٹل کی بھاری بھرکم فیسیں لینے کے ساتھ ساتھ سابقہ یونیورسٹییوں سے این۔او۔سی/مائیگریشن سرٹیفیکیٹ بھی منگوائے تھے۔ فیسیں اور تمام ڈاکومنٹس متعلقہ تاریخ تک جمع کرانے کے باوجود وائس چانسلر نے ان کے داخلے منسوخ کر دیے۔ کیوں?. وائس چانسلر نے ایسا کیوں کیا?. ایسا فیصلہ اور آرڈرز پاس کرتے ہوئے موصوف نے لمحہ بھر کے لیے بھی نہ سوچا کہ اس وقت جب دیگر تمام یونیورسٹیوں کے داخلے بند ہو چکے ہیں اور یونیورسٹی کے اس فیصلے سے متاثرہ طلباء و طالبات کا پورا تعلیمی سال ضائع ہو جائے گا. پھر اگلے سال بھی وہ اس وجہ سے داخل ہونے سے محروم ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ فریش نہیں ہوں گے.
یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے صرف اس بات کو ایشو بنایا ہےکہ جب آن لائن اپلائی کی آخری تاریخ (26 اگست 2019) تھی تو بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا گریجویشن کا آفیشل رزلٹ نہیں آیا تھا۔ طلباء نے آن لائن فارم پر متوقع نمبر درج کیے تھے اور انہوں نے اپنے ڈاکومنٹس کی نقول 30 اگست 2019 کو جمع کروائیں جب ان کا آفیشل رزلٹ ڈکلئیر ہوا تھا۔ (دستاویزات کی ہارڈ کاپی یونیورسٹی میں جمع کرانے کی آخری تاریخ 30 اگست 2019 تھی۔)
یاد رہے کہ طلباء و طالبات نے اپنے ڈاکومنٹس کی ہارڈ کاپی یونیورسٹی میں جمع کرانے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔پھر انہیں کس بات اور جرم کی سزا دی جا رہی ہے.
یہاں پر پہلا سوال یہ ہے کہ اگر متاثرین طلبہ و طالبات داخلے کی شرائط پر پورا نہیں اترتے تھے تو ان کے فارم قبول کیوں کیے گئے تھے. قبول کرنے کے بعد یقینا کاغذات کی چھان بین اور پڑتال ہوتی ہے.پھر میرٹ لسٹ بنتی ہے. اگر ایسی ویسی کوئی بات تھی تو پھر متاثرین کے نام میرٹ لسٹ میں کیوں شامل کیے گئے تھے؟؟؟
میرٹ لسٹ میں نام شامل کر کے یونیورسٹی میں داخلہ دینا اور ایک مہینے تک کلاسیں لینے کے بعد داخلے منسوخ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟؟؟؟
میرٹ لسٹیں 02 ستمبر 2019 سے آویزاں ہونا شروع ہوئیں۔ ان میں جن طلباء و طالبات کا نام شامل تھا انہوں نے مقررہ دنوں میں یونیورسٹی کے بینک میں فیس چالان جمع کروایا اور اپنا داخلہ یقینی بنایا۔
23 ستمبر 2019 سے کلاسوں کا باقاعدہ اجراء ہوا اور ایک مہینہ مکمل ہونے کے بعد 23 اکتوبر 2019 کو یونیورسٹی کے سبھی شعبوں کے نوٹس بورڈ پر شعبہ جات کے صدور کی جانب سے رجسٹرار کے نام ایک نوٹس آویزاں کیا گیا جس میں واضح طور پر یہ لکھا ہوا تھا کہ
"بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے طلباء و طالبات کے داخلے منسوخ کرنے کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے فلاں فلاں طالب علموں کا داخلہ منسوخ کر دیا گیا ہے”
محترم قارئین کرام،، کیا یہ متاثرین طالب علموں کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے کی کوئی مشق کی جا رہی ہے یا انہیں خودکشی کرنے کی جانب دھکیلنے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے. جن طالب علموں کے داخلے مذکورہ بالا سٹیج پر آکر منسوخ کیے جا رہے ہیں. ان کے مستقبل کا کیا بنے گا. کیا چانسلر گورنر پنجاب اس فیصلے کا نوٹس لے کر اسے منسوخ کر سکتا ہے یا نہیں. اگر کر سکتا ہے تو متاثرین کو فورا اپنی تحریری درخواست کے ساتھ انہیں ملنا چاہئیے.اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ متاثرین فوری طور پر لاہور ہائی سے رجوع کریں.
کیا ہم وائس چانسلر صاحب بہادر سے پوچھ سکتے ہیں کہ متاثرین کے یہ داخلے کیسے، کس نے اور کس بنیاد پر کیے. یونیورسٹی کا سٹاف، متعلقہ ذمہ داران اور آفیسران میں سے کوئی جواب دہ نہیں ہے. کیا یہ ان سب کی لاپرواہی اور نااہلی نہیں ہے. کس نے سب کو گمراہ رکھا. کس نے اختیارات کا نا جائز استعمال کیا. نا اہلی اور نا لائقی کے مرتکب ذمہ داران میں سے کس کس کے خلاف کیا کیا کاروائی ہوئی ہے.بتایا جائے. نہیں ہوئی تو کیوں?. صرف طلبہ و طالبات کے مستقبل سے کھیلنا یہ کیسا انصاف ہے. طالب علموں کا مستقبل برباد کرنے والا وائس چانسلر اتنی بڑی انتظامی سیٹ پر بیٹھ کر کیا کرتا رہا ہے. یونیورسٹی کے اندر ہونے والی مذکورہ بالا اور دیگر بد نظمیوں کا جواب دے. حکومت اور عدلیہ از خود نوٹس لے لیکر میرٹ پر پورا اترنے والے متاثرین طالب علموں کو تحفظ فراہم کریں. 30اگست کو جمع کرائی گئی ڈاکومنٹس کی ہارڈ کاپیز میں اگر کوئی ہیر پھیر، فراڈ اور بوگس پن ہے تو ضرور ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیئے. وائس چانسلر اور دیگر ذمہ داران اپنی اپنی نا اہلی اور یونیورسٹی کی انتظامی بد نظمی کی سزا صرف طالب علموں کو نہ دیں.
محترم قارئین کرام،، متاثرہ طلباء و طالبات اور ان کے ساتھیوں نے وائس چانسلر کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کا اعلان کیا ہے.پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے.متاثرین اور ان کے ساتھیوں نے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے 28 اکتوبر 2019 بروز سوموار صبح 10 بجے ایڈمن بلاک کے سامنے جمع ہوکر پرامن احتجاج بھی کر چکے ہیں.
سوشل میڈیا بتا رہا ہے کہ ملتان سمیت پورے سرائیکی وسیب میں طالب علموں کے داخلے منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف خاصا غم و غصہ محسوس کیا جا رہا ہے. طالب علموں کے ساتھ اگر انصاف سے کام نہ لیا گیا تو احتجاج کا یہ سلسلہ طالب علموں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی میں بھی شروع ہو جائے گا. سرائیکی خطے کے لوگ پہلے ہی تخت لاہور کی زیادتیوں سے نالاں ہیں. وزیر اعلی پنجاب سردار محمد عثمان خان بزدار اور ملتان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی اور سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے دیگر صوبائی و وفاقی وزراء اور عوامی نمائندگان اس مسئلے کو حل کروانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں.یونیورسٹی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی صورت میں اسمبلی میں آواز اٹھائیں. آخر میں میرا متاثرین طالب علموں کو مشورہ ہے کہ وہ ایک دن ضائع کیے بغیر فوری طور پر عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ