مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اورسرائیکی وسیب۔۔۔ظہور دھریجہ

پاکپتن شریف میں بابا فرید گنج شکر یونیورسٹی قائم ہونی چاہئے تھی کہ بابا فرید بابا گرو نانک کے بھی مرشد ہیں ۔
مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ سندھ سے رات گئے ملتان پہنچا۔ ملتان میں آزادی مارچ کا پڑاؤ فاطمہ جناح کالونی فیز 2 میں تھا۔ جمعیت العلمائے اسلام کی مقامی قیادت نے قیام و طعام کا انتظام کیا تھا ۔
قاری حنیف جالندھری کے حوالے سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان اخبارات میں آیا ہے کہ ایک لاکھ آدمیوں کے ناشتے کا ملتان میں انتظام کیا گیا ہے ۔
آزادی مارچ کا قافلہ سکھر سے روانہ ہوا تو انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سڑکوں پر نظر آیا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے آزادی مارچ کا ساتھ دینے کا حق ادا کرنے کے ساتھ اپنی عوامی طاقت بھی شو کرا دی ۔
آزادی مارچ کا قافلہ سندھ اور سرائیکی وسیب کی سرحد پر پہنچا تو مولانا فضل الرحمن نے قافلے سے خطاب کرتے ہوئے سرائیکی شعر پڑھا ’’ لفظیں دے شہر والو چپ دی وبا کوں روکو، نہ تاں اے ڈینْ ہک ڈٖینہ وستیاں اُجاڑ ڈٖیسی ‘‘ ۔
شعر کا مفہوم یہ ہے کہ خاموشی موت ہے ، خاموشی کو ختم کرو ورنہ یہ ’’بلا ‘‘ہستی بستی آبادیوں کو کھا جائے گی ۔ مولانا فضل الرحمن نے اس موقع پر شعوری طور پر جنوبی پنجاب کا نام لینے کی بجائے یہ کہا کہ ’’ میرے وسیب کے بھائیو ، السلام علیکم‘‘۔
سندھ میں انسانوں کا جو سمندر نظر آیا یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کی بھرپور شرکت کے بغیر ممکن نہ تھا ۔ تاہم جمعیت العلمائے اسلام سندھ کے مولانا راشد محمود سومرو کی بھرپور کاوش بھی شامل حال ہے کہ مولانا راشد محمود وسیع حلقہ نیابت رکھتے ہیں اور وہ صرف ایک فرقے نہیں بلکہ سندھ کے دیگر طبقات میں بھی مقبول ہیں ۔
پچھلے دنوں سندھ میں ایک مندر گرانے کا واقعہ ہوا تو مولانا راشد محمود خود مندر کے اندر گئے اور سندھ کی غیر مسلم اقلیت سے اظہار ہمدردی کیا ،اس بناء پر وہ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں ۔
ایک دن پہلے تک خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ بلاول بھٹو سکھر سے قافلے میں شریک ہونگے مگر وہ نہیں آئے ۔ ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ سندھ پنجاب پر پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود یا ان کے بیٹوں میں سے کسی نے قافلے کا استقبال نہیں کیا ۔
ملتان میں معروف سیاسی شخصیت مخدوم جاوید ہاشمی نے آزادی مارچ قافلے کا استقبال کیا ۔ مگر ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی کہہ رہے تھے کہ میں نے استقبال کیا ہے لیکن اس بات کا فیصلہ کرنا باقی ہے کہ ہم نے آزادی مارچ کی حمایت کرنی ہے یا نہیں ۔
جب یہ سطور چھپ رہی ہونگی تو آزادی مارچ لاہور میں ہوگا تب جا کے پتہ چلے گا کہ آزادی مارچ کا ن لیگ کس قدر ساتھ دیتی ہے ؟
آیا ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف قافلے کے ساتھ چلتے ہیں یا نہیں ؟ جہاں تک مخدوم جاوید ہاشمی کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ وہ ن لیگ کے اندر ہیں یا باہر ۔ البتہ وہ ن لیگ کا ساتھ ن لیگیوں سے بھی زیادہ دیتے نظر آتے ہیں ۔
دوسری طرف پورے ملک میں تاجر برادری کی ہڑتال بھی چل رہی ہے ۔آج صبح سے ملتان میں شٹر ڈاؤن دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ ہڑتال بھی حکومت کے حق میں کسی بھی لحاظ سود مند نہیں ۔
لانگ مارچ میں ترانے چل رہے ہیں اور مقررین کا لب و لہجہ بہت تلخ ہے ۔ لانگ مارچ کے شرکاء کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈز اور بینرز ہیں ان پر بھی عمران خان کے بارے میں صحافتی زبان استعمال نہیں کی گئی ۔
لیکن اس بارے جس سے بھی بات کریں ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد مولانا کے بارے میں جو انداز تکلم اختیار کیا یہ اسی کا ردِ عمل ہے سرائیکی زبان میں ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ ’’ نہ کر سس برائیاں ، متاں لہنی اپنیاں جائیاں ‘‘ ۔
میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں مسلسل تشویشناک خبریں آ رہی ہیں ۔یہ ہمدردیاں بھی قدرتی طور پر آزادی مارچ والوں کو مل رہی ہیں ۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے مولانا فضل الرحمن کو فون کر کے کامیاب آزادی مارچ کی مبارکباد دی ہے ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن لاہور میں میاں نواز شریف کی عیادت کریں گے اور ان سے ملاقات کر کے آزادی مارچ کے لئے بھرپور حمایت لینے کی کوشش کریں گے ۔ د
وسری طرف گزشتہ روز لاہور میں ننکانہ صاحب یونیورسٹی کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ جب تک میں زندہ ہوں این آر او نہیں دوں گا ۔ ‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ لانگ مارچ حکومت کی ناکامی پر نہیں بلکہ کامیابیوں سے گھبراہٹ کا نتیجہ ہے ۔ ‘‘
جہاں تک این آر او کی بات ہے وہ تو وزیراعظم کی صوابدید پر ہے کہ مگر اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن سے آج تک صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ملکی مسائل کے حل کیلئے مصالحت سے کام لیا جائے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ کرپٹ لوگوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے مگر یہ سب کچھ یکطرفہ یا سیاسی انتقام کی صورت میں نہیں ہونا چاہئے ۔ ناقدین کا یہ کہنا غلط نہیں کہ ن لیگ و پیپلز پارٹی والے کرپٹ ہیں تو تحریک انصاف میں بھی سارے فرشتے نہیں ۔
اگر احتساب کرنا ہے تو بلا تخصیص ہونا چاہئے ۔ افسوس کہ حکومت ابھی تک بلا امتیاز احتساب کا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے، اسی بناء پر اس پر یہ بھی الزام آ رہا ہے کہ وہ محض شو بوائے اور کٹھ پتلی ہیں ۔ عمران خان نے ننکانہ صاحب یونیورسٹی کے افتتاح کے موقع پر جو سب سے اچھی اور خوبصورت بات کی وہ یہ تھی کہ سب سے زیادہ کرپشن اوقاف کی زمینوں پر کی جاتی ہے ۔
اوقاف کی زمینوں پر یونیورسٹیاں اور ہسپتال بنائے جائیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ صوفیاء کرام نے انسانوں کی بھلائی اور علم کے فروغ کیلئے کام کیا ۔ عمران خان کو یہ بات مطالبے کی صورت میں نہیں کرنی چاہئے تھی بلکہ وہ ملک کے سربراہ ہیں ۔ فوری طور پر ایک آرڈر کے ذریعے فوری طور پر اوقاف کی زمینوں پر یونیورسٹیوں کا عمل میں لائیں ۔
ہم عمران خان کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ آپ نے ننکانہ صاحب میں بابا گرو نانک یونیورسٹی کا افتتاح کیا ہے جب کہ اس سے پہلے پاکپتن شریف میں بابا فرید گنج شکر یونیورسٹی قائم ہونی چاہئے تھی کہ بابا فرید بابا گرو نانک کے بھی مرشد ہیں ۔
اسی طرح کوٹ مٹھن میں خواجہ فرید یونیورسٹی ، ملتان میں شاہ شمس تبریز یونیورسٹی ، ڈی جی خان میں سخی سرور یونیورسٹی ، تونسہ شریف میں شاہ سلیمان یونیورسٹی اور ملک کے دیگر علاقوں میں صوفیاء کرام کے نام سے یونیورسٹیاں قائم ہونی چاہئیں ۔
اس سے جہاں اوقاف کی زمینوں کا صحیح مصرف عمل میں آئے گا وہاں انسان دوستی کے جذبات کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔

%d bloggers like this: