صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کی ۔
سماعت کے آغاز پر سینئیر وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے التواء کہ درخواست دائر کی تھی،درخواستیں تین بار کونسل کی طرف سے ہیں، اسی لیے وکلاء پیش نہیں ہوں گے کیونکہ آمد و رفت کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں۔ پشاور اور کراچی سے وکلاء نہیں آسکے،اگلے ہفتے تک سماعت ملتوی کی جائے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ میں التوا کی مخالفت کرتا ہوں مقدمے کے لیے کراچی سے آیا ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارا بھی یہ ہی موقف ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہم منیر اے ملک کو سننا چاہیں گے۔
حامد خان نے پھر استدعا کی کہ 4 نومبر سے سماعت شروع کریں۔
بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس کو سننے کے لیے ہر بار دس ججز اکھٹے ہوتے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر التواء سے ادارے جا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک آئنی ادارہ ہے اس نے اپنا کام کرنا ہے،منیر ملک یہاں موجود ہیں اور دلائل دینا چاہتے ہیں، ہمارے ایک معزز جج دو ہفتے چھٹی پر جارہے ہیں۔ اس کیس کی حساسیت کے پیش نظر وہ بھی ہفتے میں تین دن آئیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ عام کیس نہیں ہے، یہ ہمارے ایک معزز جج کا کیس ہے،ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا ٹرائل کیوں ہورہا ہے؟ منیر اے ملک نے صحیح کہا کہ یہ ٹرائل سپریم کورٹ کا ٹرائل ہے۔
لارجر بنچ نے حامد خان کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی ۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سٹس میاں خیل کے غم میں شریک ہیں،15 اکتوبر کو ایک سوال رکھا گیا کہ کیا کوئی تحفہ دیا گیا تھا،2017 تک میرے موکل نے اپنی فیملی کو کوئی تحفہ نہیں دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار نے کوئٹہ میں جائیداد فروخت کی، داماد نے قصور میں جائیداد خریدی، ایسٹ ریکوری یونٹ کے قواعد آگست 2019 کی ترمیم ہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کب تشکیل ہوا؟
منیر اے ملک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 2018 میں ازخود لیا گیا جو بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد سے متعلق تھا،اس میں اٹارنی جنرل نے ایک درخواست دی، 10 مئی 2019 کا دن میری نظر میں طویل دن تھا ایک فلم کی طرح، اس دن ایک خط لکھا گیا اسسٹنٹ کمشنر ضیاء احمد بٹ کو،یہ خط درخواست گزار کی ٹیکس تفصیلات سے متعلق تھا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ خط کمشنر کو 10 مئی کو ملا اور اسی دن آگے بھیج دیا گیا،10 مئی کو انٹرنیشنل کمشنر ٹیکس نے شہزاد اکبر کو خط لکھا۔ شکایت کنندہ کی شکایت وزیراعظم کے پاس جانے سے پہلے ہی تفتیش شروع کی گئی۔
قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز کے 7 مارچ کے فیصلے کے بعد حکومتی اتحادیوں کے اعتراضات آنا شروع ہوگئے تھے، وحید ڈوگر نے 10 اپریل کو ایسٹ ریکوری یونٹ میں درخواست دی جو نامکمل تھی، چیرمین ایسٹ ریکوری یونٹ نے شکایت کنندہ سے ملاقات کی۔ وحید ڈوگر نے کچھ دستاویزات دیں جن کا بعد میں پوچھا نہیں گیا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ وحید ڈوگر نے نہیں بتایا کہ دستاویزات کہاں سے حاصل کیں؟ شہزاد اکبر نے وحید ڈوگر سے ملاقات کے بعد وزیر قانون کو تحقیقات کا کہا، فروغ نسیم نے کبھی نہیں بتایا کہ وحید ڈوگر نے دستاویزات کی تحقیق کیسے کی؟
جسٹس قاضی فائز کے وکیل نے کہا کہ چیرمین ایسٹ ریکوری یونٹ نے خط کے ذریعے ایف بی آر سے درخواستگزار کی فیملی کی تفصیلات مانگیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تک یہ نہیں پتا لگا سکے کہ شکایت کنندہ نے کیسے پتا لگایا، دوسرا یہ کہ جو جائیداد بتائی گئی ہے وہ درخواست گزار کی جانب سے تسلیم کی گئی ہے۔
جسٹس منیب اختر نےسوال کیا کہ جائیداد کی چھان بین کے دوران کیا درخواست گزار یا ان کی فیملی نے برطانیہ کا دورہ کیا تھا ؟
منیر اے ملک نے بتایا کہ درخواست گزار کی فیملی لندن میں رہائش پذیر ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ موبائل فون ایک ایسا آلا ہے جس سے لوکیشن بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا آپ کہتے ہیں کہ درخواست گزار کے خلاف تحقیقات وزیراعظم کے دفتر سے شروع ہوئیں؟
منیر اے ملک نے جواب دیا جی بلکل ایسا ہی ہے۔ اس معاملے میں ایسٹ ریکوری یونٹ اور ایف آئی اے نے جج کے خلاف انکوائری پہلے کی اور وزیر اعظم کو بعد میں بتایا گیا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کوئی بھی جج کے خلاف انکوائری نہیں کر سکتا،شکایت آنے کے بعد صدر نے اپنی رائے کے ساتھ معاملہ کونسل کو بھیجنا ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آج کل جاسوسی کے طریقے بہت جدید ہو گئے ہیں، آپ کہنا چاہتے ہیں جاسوسی کے بغیر جائیدادوں کا پتا نہیں لگایا جا سکتا تھا،اس عرصے کے دوران کیا قاضی فیملی نے کیا اندرون و بیرون ملک سفر کیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا موقف یہ ہے کہ دهرنا کیس اور نظر ثانی کی درخواستوں کے دوران آپ کے موکل کی جاسوسی کی گئی؟
منیر اے ملک نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔
جسٹس منیب نے کہا لیکن جاسوسی سے متعلق کچھ کنکریٹ نہیں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آج کے دور میں تو موبائل بھی جاسوسی کا ذریعہ ہیں۔
منیر اے ملک نے کہا کہ وزارت قانون کی طرف سے ریفرنس تیار کر کے صدر پاکستان کو بھجوایا گیا،23 مئی کو سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجا گیا۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر صدر پاکستان نے ریفرنس بھیجوایا۔
جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کیا وزیر اعظم صدر کو جج کے خلاف کارروائی کی ہدایت دے سکتے ہیں؟
منیر اے ملک نے جواب دیا کہ وزیر اعظم صدر کو براہ راست ہدایت نہیں دے سکتے،مصطفی ایمپکس کیس میں وزیر اعظم کے بجائے کابینہ ہی ہدایت دیتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کوئی شہری اعلی عدلیہ کے جج کے خلاف شکایت کرے تو وہ کہاں جائے گا؟
منیر اے ملک نے کہا کہ اس کے لیے صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی واحد فورم ہے،صدراتی ریفرنس میں الزام نہیں لگایا گیا کہ جائیداد براہ راست یا بے نامی درخواست گزار کی ہے۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہیں کی۔
جسٹس فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ ریفرنس میں یہ شامل نہیں کیا گیا کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت ہیں، اس حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ ریفرنس میں کرپشن اور بد دیانتی کا الزام نہیں لگایا گیا،صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت نے وزیراعظم کے مشورے پر انحصار کیا ہے۔
منیر اے ملک کی جانب سے نیب آرڈیننس کا ذکربھی کیا گیا۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ایف بی آر کی جانب سے اہلیہ اور بچوں کو نوٹس بھیجے گئے؟
منیر اے ملک نے جواب دیا کہ جی ایف بی آر نے فیملی کو نوٹس بھیجے۔ ایف بی آر کی جانب سے درخواست گزار کو کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ایف آئی اے نے مکمل تحقیق نہیں کی بلکہ فرض کر لیا کہ جائیداد جسٹس فائز عیسیٰ کی ہے۔
عدالتی وقت ختم ہونے پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ