ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، اس کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ نئی بات، فکر انگیز جملہ سننے، پڑھنے کو نہیں ملتا۔ فکری سطح پر ایسا خوفناک قسم کا جمود طاری ہے کہ اب تو اسے توڑنا بھی محال لگنے لگا۔ تازہ ہوا کا جھونکا تک نہیں آتا۔ایسے میں اگر کہیں پر فکرافروز گفتگو پڑھنے کو ملے تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی خرابیاں بہت سی، مگر اس سے چند ایک ویب سائٹس ایسی پھوٹیں جنہوں نے بہت سے نئے لکھنے والوں کو پلیٹ فارم دیا، ان کی تربیت، تہذیب کی جبکہ کئی پرانے لکھنے والوں کو بھی کھل کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ دیا۔”ہم سب“،” دلیل ڈاٹ پی کے“،” مکالمہ“، ”دانش ڈاٹ پی کے“،” اک روزن“ وغیرہ ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں سینکڑوں لوگوں کی تحریریں شائع ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیامتبادل میڈیا ہے یا نہیں، یہ ویب سائٹس ایک خاص سطح پر الٹرنیٹو میڈیا(Alternative Media)کا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس نے اپنے پڑھنے والوں کے لئے اہم علمی، صحافتی، سیاسی شخصیات کے انٹرویوز بھی شائع کئے۔ دلیل نے جناب ہارون الرشید، اوریامقبول جان ، حامدمیر وغیرہ کے انٹرویوز شائع کئے۔اسی طرح دیگر ویب سائٹس بھی مختلف انٹرویوز اور پروگرام کرتی رہی ہیں۔ مکالمہ کے ایڈیٹر محبی انعام رانا نے لاہور، کراچی میں سوشل میڈیا کانفرنسیں کرائیں۔
ویب سائٹ دانش ڈاٹ پی کے میں گزشتہ دنوں ہمارے عہد کے ممتاز ترین دانشور، شاعر اور صوفی احمد جاوید کا ایک تفصیلی انٹرویوشائع ہوا۔دانش کے ایڈیٹر شاہد اعوان کتاب دوست اور علم دوست شخص ہیں۔ خود بھی اچھا لکھتے ہیں اور دلکش کتابیں چھاپنے والے ادارے ایمل کے ناشر بھی ہیں۔ انٹرویومعروف لکھاری خرم سہیل نے کیا۔ خرم سہیل فلم، ٹی وی اورکلچر کے مختلف پہلوﺅں پر لکھنے والے بڑے عمدہ لکھاری ہیں، انہوں نے انٹرویو لینے کا حق ادا کر دیا۔جناب احمدجاویداس سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے ہیں جس کے سربراہ پروفیسر حسن عسکری تھے،عسکری صاحب کے جلیل القدر شاگرد سلیم احمد خود اپنی ذات میں استاد بلکہ استاد الاساتذہ ہیں۔احمد جاوید عسکری صاحب کو اپنے دادا استاد اور سلیم احمد کو استاد قرار دیتے ہیں، اگرچہ جاوید صاحب مولانا ایوب دہلوی کے بھی بڑے قائل اور ان کے علم الکلام سے متاثر ہیں۔ سلیم احمدعلم وادب کی دیو قامت شخصیت تھے، ان سے استفادہ کرنے والوں میںجناب سجاد میر، سراج منیر، احمد جاویدجیسے لوگ شامل رہے۔احمد جاویدصاحب اقبال اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی رہے، ان کا ٹی وی پروگرام حمزہ نامہ ایک زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا۔احمد جاوید نے بہت سے موضوعات پہ تفصیل سے گفتگو کی۔ جن میں اردو ناول، فکشن، منٹو کا فن، فلم، ڈرامہ، سینما، میڈیا کا سراب، گلوبلائزیشن، سماجیات کے بدلتے پہلووں سے لے کر نظام تعلیم، دائیں بائیں کی تقسیم اور عوام، اقبال احمد، سلیم احمد، شاعری، میر اور غالب تک شامل ہیں
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسی دانشورانہ گفتگو پر سماج کی مختلف سطحو ں میں بحث مباحثے ہوں، ٹی وی پروگرام کئے جائیں، کالم لکھے جائیں،مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر یہ زیر بحث آئے اور یوں پاکستانی سماج پر طاری جمود ٹوٹے۔ قوم میں زندگی کی لہر دوڑے ۔ اتفاق ، اختلاف سے قطع نظر کسی بھی نئی بات پر گفتگو کا سلسلہ بہت سے نئے نکات سامنے لاتا ہے۔ معاشرے کے فعال طبقات اگر اس بحث میں شامل ہوں تو بہت کچھ تبدیل بھی ہوجاتا ہے۔ بحث اگر چل نکلے تو اس کے اثرات قانون سازوں پر پڑتے ہیں، قوانین میں تبدیلیاں، حکومتی سطح پر نئی پالیسیاں بنتی ہیں۔ ہمارے ہاںافسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایسی فکری لہریں ساحل پر پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہیں۔ اس انٹرویو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ محترم ہارون الرشید صاحب نے البتہ تین دن قبل اپنے کالم میں اس انٹرویو کے میڈیا سے متعلق حصے کو شائع کیا۔کاش میڈیا میں ان نکات پر بحث ہو ا۔ ہارون الرشید صاحب نے انٹرویو کا متن تو شائع کیا، ظاہر ہے وہ اس سے متفق ہیں، تب ہی اسے جگہ دی، مگر وہ اپنے خیالات اور تفصیلی رائے بھی لکھیں تو بہت سوں کے لئے مفید ہوگی ۔ سیاست نے ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری کالموں پر ایسا تسلط جمایا ہے کہ کسی اور طرف دیکھنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ اس کے باوجود کوشش ہوگی کہ اس انٹرویو کے اہم حصوں پر اگلی دو تین نشستوں میں بات ہو۔ اللہ تعالیٰ میاں نواز شریف صاحب کو اپنی امان میں رکھیں ۔دھرنے میں ابھی ایک ہفتہ رہتا ہے، اسی دوران وقت کے کیلنڈر سے کچھ لمحات چرا کر کے فکر کی یہ شمعیں جلاتے ہیں۔
ادب، فلم،میڈیا، منٹو، میر وغالب کی باتیں اگلی کسی نشست کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ آج تو تعلیم کے حوالے سے احمد جاوید کی رائے دیکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ احمد جاوید کے بنیادی نکات میں سے ایک بہت اہم یہ ہے کہ اسلام کا ایک تصور علم، تصور اخلاق، تصور تعلیم، تصورمعاشرت، تصور معیشت ہے۔یعنی علم، اخلاق ، تعلیم، تربیت، معاشرت، معیشت، غیر مسلموں سے تعلق وغیرہ کے لئے اسلام کا ایک بنیادی تصور موجود ہے۔اگرچہ اس تصورکو ڈیفائن کرنے اور ایک پورا فریم ورک بنانے میں ہمارے ہاں سکالرز نے زیادہ کام نہیں کیا، مگر بہرحال یہ پورا تصور موجود ہے اور ثابت بھی کیا جا سکتا ہے ۔تو آگے بڑھنے، کسی بھی حوالے سے کوئی نظام یا اس کا جز تخلیق کرنے کے لئے اس بنیادی تصور کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
انٹرویو میں احمد جاوید صاحب سے نظام تعلیم کے بارے میں پوچھا گیا ۔ سوال تھا کہ ہم پاکستان کے مختلف نظامِ تعلیم کی بات کریں تو وہ کئی قسم کے ہیں، جن میں کیمبرج سسٹم، پاکستانی تعلیمی نظام اور پھر مدرسوں کا نظامِ تعلیم اور دیگر شامل ہیں۔ تو کیا یہ بٹا ہوا نظامِ تعلیم معاشرے کو اچھے اذہان فراہم کر سکے گا؟
احمد جاوید: ہمارے یہاں تعلیم کے نظام نصاب وغیرہ کا موضوع بس ہوا میں تیر چلانے کی دعوت دیتا ہے۔ اظہارِ خیال کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں، بس اپنی اپنی اپج اور مفکرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر دو، ہماری ذمہ داری پوری ہو جائے گی۔ پڑھنے والے تعلیم کا کوئی تصور رکھتے ہیں نہ پڑھانے والے اور نہ ہی تعلیمی نظام بنانے والے۔ اگر ٹوٹا پھوٹا تصور رکھتے بھی ہیں تو اس کے لیے حساس نہیں ہیں۔ ہم لوگ ہر مسئلے پر اور ہر بحران سے نکلنے کے لیے بس فرمائشوں کی ایک فہرست تیار کرکے اسے عریضہ بنا کر نیٹی جیٹی(کراچی کے ایک مشہور پل) پر کھڑے ہو کر گدلے سمندر میں گرا ڈالتے ہیں اور فارغ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں خود یقین ہوتا ہے کہ یہ سب قابلِ عمل نہیں ہے کیوںکہ عمل کروانے والا ہی غائب ہے۔ اور صرف عمل کروانے والا ہی غَیبت میں نہیں ہے بلکہ فرمائش کرنے والے بھی بس دکھاوا ہی کر رہے ہیں۔
”میرا خیال ہے کہ آئیڈیلزم اور پروفیسری بگھارنے کو سرِ دست ایک طرف رکھ کر ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ تعلیم کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ان جنرل مقاصد میں ہماری صورتِ حال اور ضروریات سے مطابقت رکھنے والے مقاصد کون سے ہیں؟ ان مقاصد کے حصول میں جن وسائل کی ضرورت ہے ان میں کتنے ہمارے پاس ہیں اور کتنے ہمیں منصوبہ بنا کر حاصل یا پیدا کرنے ہیں؟ ہم جو علوم اپنے لوگوں کو پڑھائیں گے ان کی بالعموم دنیا کے لیے اور بالخصوص ہمارے لیے افادیت کیا ہے، اور ان کی مارکیٹ ویلیو کیا ہے یا کیا بنائی جا سکتی ہے؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ استاد کہاں سے آئیں گے اور کیسے تیار ہوں گے؟ یہ بنیادیں تیار ہو جائیں تو اب خصوصی تعلیم یعنی specialized education کے مختلف اسٹرکچر کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔ مدرسے، یونیورسٹی، خانقاہیں، اصحابِ علم و فن کی بیٹھکیں وغیرہ۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ تعلیم کا نظام، نصاب، نتیجہ وغیرہ کسی بھی پہلو سے ہمارے تصورِ علم سے متصادم نہ ہو۔ مطلب، اس تصورِ علم سے جو ہم نے بنایا نہیں ہے، ایک متواتر یقین کے ساتھ مانا ہے۔ یہ بات اعتماد اور اصرار سے کہنی چاہیے کہ ہمارا پرنسپل تناظر ایمانی ہے اور ہماری ہر علمی ذہنی اخلاقی سرگرمی اسی تناظر میں ہو گی۔
”ہماری روایت یہ ہے کہ علم یعنی دنیا کا علم، انسان کا پیدا کردہ علم بھلے سے غلط ہو مگر خدا کی معرفت اور اس کی کیفیت میں اضافہ کرتا ہے۔ یعنی علمِ صورت میں غلطی بھی علمِ حقیقت کا کوئی نہ کوئی روزن کھول دیتی ہے۔ اب اس کے بعد نصابِ تعلیم ایک ہو یا دس، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس تعلیمی نظام کو طبقاتی نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی یہ نہیں ہونا چائیے کہ امیر کے لیے ایک نظام اور غریب کے لئے دوسرا۔
”تو واضح ہے ناں کہ تعلیم کا سارا نظام پیدا ہوتا ہے اپنی ضرورتِ علم سے، اپنے تصورِ علم سے، اپنے مقصودِ علم سے اور اپنے پرسپیکٹو سے۔ ورنہ تو علم اپنا اپنا گمان ہے، انارکی ہے، ‘توہم کا کارخانہ’ ہے۔ یہ قیدیں نہ لگائی جایں تو ہر علم صحیح ہے اور ہر علم غلط ہے۔ تو بھائی، علم پوزیشننگ ہے ورنہ تو تعلیم کا وہی حال ہو گا جو ہمارے جدید تعلیمی اداروں پر مسلط ہے، جہاں سے بس ناچ گانا ہی سیکھا جا سکتا ہے، اور وہ بھی بے ڈھنگے پن کے ساتھ۔ ان بچاروں کو تو سلیقے سے محبت نامہ ہی نہیں لکھنا آتا۔ اب آپ ہی بتائیں جو محبت نامہ نہیں لکھ سکتا، اس کی تعلیم کیا آدمیت بھی نا قابلِ اعتبار ہے.
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ