گزشتہ روز پورے ملک میں مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی برسی منائی گئی اور ان کی جمہوری خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ 5 جولائی 1977 ء کو جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو جیل سے بھٹو نے پارٹی کے وائس چیئرمین شیخ رشید کو قائم مقام چیئرمین بنایا مگر شیخ صاحب نے یہ ذمہ داری محترمہ نصرت بھٹو کے سپرد کر دی ۔
شیخ رشید نظریاتی سیاستدان تھے ، ان کو بابائے سوشل ازم بھی کہا جاتا تھا ۔ ان کا ایک تعلق میرے شہر خانپور سے بھی تھا کہ ان کے سسرال وہاں تھے ۔ گو کہ وہ خانپور کو زیادہ وقت نہ دے سکے مگر اہل خانپور کے ساتھ یادیں اور باتیں اب بھی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ قائم مقام چیئرمین کے عہدے سے ان کی معذرت دباؤ کا نتیجہ تھی۔ تاہم بیگم نصرت بھٹو نے اس فرض کو جرأت مندی کے ساتھ نبھایا ۔
ضیاء الحق اور انکی حکومت ان سے اس قدر خوف زدہ ہوئی کہ بیگم نصرت بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے جبر اور تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا اور قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ان کی آمد پر پولیس نے لاٹھی چارج سے ان کا سر پھاڑ دیا ۔ سر سے خون بہہ رہا تھا مگر وہ مارشل لاء کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں نعرے بلند کر رہی تھیں ۔ محترمہ نصرت بھٹو 23 مارچ 1929 ء کو ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو سے 1951ء میں شادی ہوئی ۔ شادی کے سات سال بعد بھٹو وزیر اور بعد میں وزیر خارجہ ہو گئے ۔ اس دوران بیرون ممالک کے دوروں پر نصرت بھٹو ان کے ساتھ رہیں ۔ 1967ء میں بھٹو نے پی پی کی بنیاد رکھی تو نصرت بھٹو شعبہ خواتین کی صدر بنائی گئیں ۔
اس دوران انہوں نے خواتین کی سیاسی بیداری کیلئے بہت کام کیا ۔ ایوب خان نے بھٹو کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا تو نصرت بھٹو نے پارٹی قیادت سنبھالی اور پارٹی کو منظم کیا۔ 1971ء میں پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی تو نصرت بھٹو خاتون اول ٹھہریں۔ ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو بر سر اقتدار آئیں تو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ذاتی دوست شمالی کوریا کے صدر کم آل سنگ سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی والدہ کا بھرپور ساتھ دیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی یاداشت میں لکھتی ہیں کہ 3اپریل 1979ء کو ایک تیز رفتار جیپ میں ہمیں سہالہ سے راولپنڈی جیل پہنچا دیا گیا۔ جیل کی میٹرن نے میری والدہ اور میری تلاشی لی۔ ایک مرتبہ جب ہم سہالہ کے قید خانہ سے روانہ ہوئیں اور دوسری مرتبہ جب ہم راولپنڈی جیل پہنچیں۔ ’’ آج تم دونوں اکٹھی کیوں آئی ہو؟‘‘ میرے والد نے کال کوٹھڑی کے دوزخ سے آواز دی۔ میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ ’’ کیا یہ آخری ملاقات ہے ؟‘‘ انہوںنے پوچھا۔ اس وقت میری والدہ جواب دینے کی سکت نہ رکھتی تھیں۔ ’’ میرا خیال ہے ایساہی ہے۔ ‘‘
میں نے جواب دیا۔وہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو اشارہ کرتے ہیں جو پاس ہی کھڑا تھا ، یہ لوگ ہمیں پاپا کے ساتھ تنہا چھوڑنے پر کبھی تیار نہیں ہوئے ۔ ’’ کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ میرے والد پوچھتے ہیں۔ ‘‘جواب میں جیلر کہتا ہے ’’ہاں‘‘ ۔ میرے والد نے پوچھا ’’ کیا تاریخ کا تعین ہو گیا ہے ؟‘‘۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا ’’کل صبح ‘‘۔محترمہ لکھتی ہیں کہ میرے والد اسے نظر بھر کے دیکھتے ہیںاور پوچھا ’’اپنے اہل و عیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے ؟‘‘۔ جیلر نے جواب دیا ’’نصف گھنٹہ‘‘۔محترمہ بے نظیر بھٹو ان واقعات کو قلم بند کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں سوال جواب کر رہی ہوں مگر میری ماں زندہ لاش بنی ہوئی ہیں ۔
میں اپنے پاپا کو جی بھر کر دیکھنا چاہتی ہوں مگر جیل والے ہمیں زیادہ وقت دینے کیلئے تیار نہیں ۔ پاپا کو علم ہے کہ یہ لوگ مجھے کل تختہ دار پر لٹکا دیں گے مگر وہ میرے ساتھ مسلسل باتیں کر رہے ہیں ، ہدایات دے رہے ہیں، اور وہ بات بات پر میری والدہ کو بھی مخاطب کرتے ہیں مگر میری ماں کوئی جواب نہیں دے پاتیں ۔ 4 اپریل 1979 ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ، نصرت بھٹو کے لئے یہ صدمہ کوئی کم نہ تھا ۔
مگر انہوں نے ہمت کی اور مارشل لاء کے خاتمے کیلئے 1981 ء میں ایم آر ڈی تحریک کی بنیاد ڈالی اور جمہوریت کیلئے طویل جدوجہد کی۔ اس دوران جمہوری جدوجہد کرنے والے سیاسی رہنماؤں ، کارکنوں اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا ۔ ان میں بہت سے صحافی بھی شامل تھے جنہیں قید و بند کے ساتھ ساتھ کوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ اس دوران محترمہ نصرت بھٹو نے ایک ماں کا کردار ادا کیا۔ وہ مختلف شہروں اور مختلف علاقوںمیں تشدد کا شکار ہونے والے کارکنوں کے گھر جاتیں اور ان کو حوصلہ اور سہارا دیتیں ۔
ان کی شخصیت میں اتنی کشش تھی کہ وہ جس کارکن کے گھر بھی گئیں وہ اپنے پچھلے سارے غم بھلا کر ایک بار پھر جمہوری جدوجہد میں شریک ہو جاتا ۔ اس دوران محترمہ نصرت بھٹو کو 27 جولائی 1987 ء کو شاہنواز بھٹو کی موت کا صدمہ بھی سہنا پڑا ، جس کے باعث صدمے کا زخم گہرا ہو گیا ۔
20 ستمبر 1996ء کو بیگم نصرت بھٹو کے لخت جگر میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا تو نصرت بھٹو ذہنی توازن کھو بیٹھیں، کچھ عرصہ بعد قومے میں چلی گئیں ، وہ الزائمر کے مرض میں مبتلا رہیں اور قریباً 15 سال دبئی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہیں اور 23 اکتوبر 2011ء کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔
قومے کے دوران انہیں کچھ علم نہ تھا کہ دنیا میں کیا ہو رہاہے۔ ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو جلا وطنی کے ایام کس حالت میں گزار رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ 27 دسمبر 2007 ء کو ان کی لخت جگر محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ زندگی موت کی امانت ہے ، سرائیکی کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ جیونْ کوڑ اے ، مرنْ سچ اے ‘‘ ۔ مگر رمز والے ایک جیالے کی بات میں بھی وزن ہے کہ موت کا دن معین ہے ، نصرت بھٹو نے بھی اپنے وقت پر مرنا تھا مگر خدا وند کریم نے ان کو بے ہوشی کی حالت میں اس لئے رکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو، شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد بے نظیر کی لاش اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ پائیں کہ بے نظیر کے قتل پر ان کے مخالفین بھی صدمہ برداشت نہ کر سکے وہ تو بے نظیر کی ماں تھیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ