قدرت کے ایک نئے حسن سے ملاقات الحمداللہ
کوہستان نمک اور وادی سون کے انتہائی مغربی جانب واقع علاقہ مہوڑیانوالہ اور امب شریف کی ثقافت ،تاریخ اور قدرت کے حسن کے چرچے گزشتہ ایک سال سے میں پڑھ اورسن رہا تھا ۔۔ ساتھ ہی اس انتہائی اہم سیاحتی مقام کو جانے والے راستوں کی ویرانی سہولیات کی کمی کے بارے میں بھی لمحہ بہ لمحہ مقامی لوگوں اور چند گنے چنے سیاح جو وہاں پہنچ پاتے ہیں ان سے سن رہا تھا ۔
کیونکہ میرا شوق ہائیکنگ ہے تو پیدل راستے کے بارے گزشتہ سال معلوم ہوا کہ دشوار گزار پہاڑی راستہ ہے لیکن نیچر کے حسن سے بھرپور ٹریک ہے اس دن سے اس اہم مقام کے تفصیلی ٹریک کی خواہش نے جنم لیا جو چند دن پہلے مکمل کرنے کا موقع اللہ کریم نے عطا فرمایا الحمداللہ۔
آٹھ اکتوبر کی صبح دس بجے میں اپنی چیتی سی ڈی ستر پر جابہ سے اوچھالی اپنے ٹریک کے سٹارٹنگ پوائنٹ کی جانب روانہ ہوا وادی سون کی تحصیل نوشہرہ سے ہوتے ہوئے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اوچھالی پہنچا یہاں میرے انتہائی قابل احترام بھائی محمد ندیم اقبال مجھ سے پہلے پہنچ چکے تھے اس بار میرے میزبان اور گائیڈ ندیم اعوان بھائی تھے جو کہ مہوڑیانوالہ کے رہائشی ہیں اور سون ویلی ٹوورز ٹیم کے رہنماؤں میں شامل ہیں ۔
بائیک کھڑی کرنے اور اپنے ہائیکنگ بیگ کندھوں پر اٹھانے کے بعد ہمارا سفر اوچھالی سے جنوب مغرب کی جانب شروع ہوا سورج سر پہ تھا اور یہ وادی سون کا ایک گرم دن تھا لیکن مسافروں کے جزبے عروج پر تھے اور بنا کسی گھبراہٹ کے ہمارا سفر اپنی منزل کی تلاش میں چلتا رہا تقریباً ایک کلومیٹر سے کچھ اوپر فاصلہ طے کرنے کے بعد ٹریک کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا چشمہ نظر آیا جو ہو بہو ڈیپ شریف کی ماند معلوم ہو رہا تھا اسکے آگے ایک بڑا اور گہرا واٹر پونڈ ہے جس میں کافی مقامی لڑکوں کی اموات بھی ہو چکی ہیں ۔
تقریباً دو کلومیٹر کا ہموار فاصلہ طے کرنے کے بعد اچانک پہاڑ کا ڈھلونی حصہ شروع ہو گیا جوں جوں ہم پہاڑ کی بلندی کی جانب جا رہے تھے تیز ہوا کے جھونکے مسافروں کے پسینے سے تر جسم کے لیئے راحت کا سبب بن رہے تھے انسان بہت کمزور ہے بہت جلد مصیبتوں میں ہمت ہار جاتا ہے جبکہ اللہ کریم ہماری طاقت سے زیادہ ہمارے اوپر بوجھ اور امتحان نہیں لاتے۔
ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے جہاں تیز ہوا چل رہی تھی اور گرمی کا نام ونشان تک نہیں تھا ٹریک کے اس مقام سے پہاڑوں کی بیچ شمال کی جانب اوچھالی جھیل اپنی آخری جھلک دکھلا کر چھپ گئی اب ہمارا سفر ہر طرف سے گھرے پہاڑوں کے بیچ تھا حد نگاہ تک پہاڑیوں کی چھوٹی بڑی چوٹیاں نمایاں نظر آ رہی تھیں۔
پانچ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمارا پہلا پڑاؤ ڈیرہ جرناح (خوبصورت مقام) تھا دو بلند پہاڑوں کے درمیان یہ ایک چھوٹی سی وادی ہے جسمیں بیشمار جنگلی زیتون (کہو ) کے درخت موجود ہیں۔
لائم سٹون سے بنا اور سفید مٹی سے لپائی (پلسر) ہوا یہ ڈیریہ آج بھی اتنا ہی پرسکون اور ثقافت کا ترجمان ہے جیسے صدیوں پہلے کوہستان نمک کی ثقافت تھی کمروں کے چھتیں جنگلی زیتون کی لکڑی سے بنائے گئی ہیں جبکہ مہمانوں کے بیٹھنے کیلئے کرسیاں بھی کہو کی لکڑی سے تیار شدہ ہیں بکریوں اور دوسرے جانوروں کیلئے ڈیرے کی دونوں جانب باڑے بنائے گئے ہیں جبکہ ہل چلانے کیلئے آج بھی بیلوں کی تازہ دم جوڑی ڈیرے پر موجود ہے۔
یہاں کے باسیوں سے ملاقات اور اپنائیت پا کر میں سفر کی ساری تھکاوٹ بھول چکا تھا اور دل چاہا کہ یہ لمحے صدیوں کاروپ دھار کر ہمیشہ کیلئے تھم جائیں اور تمام تر زندگی یہیں بتا دی جائے ۔
کچھ دیر ڈیرے پر گپ شپ ، چائے اور آرام کے بعد جب ہم نے اپنا سفر دوبارہ مہوڑیانوالہ ٹریک کی جانب شروع کرنا چاہا تو ہمارے مقامی میزبان نے کہا کہ کیا کچھ وقت ہے آپ لوگوں کے پاس ہم نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی تو انہوں نے بتایا کہ آئیں آج آپکو ایک اور خوبصورت مقام دکھاتے ہیں میں ایک پل تو چونک گیا کہ ایسا کون سا قدرتی مقام ہے جس کے بارے آج تک نہیں سنا۔
خیر اس تجسس میں ہم نے اپنا سفر ٹریک سے ہٹ کر ڈیرے سے جنوب مغرب کی جانب موجود پہاڑ کی طرف شروع کیا کچھ فاصلہ کے بعد گھنی جھاڑیاں اور پہاڑ کے اندر جاتا تنگ راستہ نظر آیا باہر سے یہ اتنا خوبصورت نہیں معلوم ہو رہا تھا لیکن کچھ ہی پل میں جب پہاڑ کے اندر داخل ہوئے تو سماں بدل چکا تھا۔
دونوں جانب سے بلند پہاڑوں نے ہمیں گھیر لیااور چشمے کا شور اور مسلسل بل کھاتا اور گرتا گہرا سبز پانی ایک عجیب سحر انگیز منظر پیش کر رہا تھا پہاڑ کی بناوٹ اور کٹ دیکھ کر میں قدرت کی تخلیق پر حیران ہو رہا تھا۔بیس میٹر کے بعد اس پہاڑ کے وسط میں موجود ایک خوبصورت سبز واٹر پونڈ پر نظر پڑی جسکی خوبصورتی اور بناوٹ کسی صورت بھی مجھے اس جہان کی نہیں معلوم ہو رہی تھی اللہ کریم نے حضرت انسان کیلئے ذمین و آسمان میں بہت کچھ چھپا کر رکھا ہے لیکن حضرت انسان ان سب نعمتوں کے باوجود ذیادہ تر ناشکرہ ہے۔یہ مقام ایڈونچر لورز اور راک کلائمنگ لورز کیلئے کسی جنت سے کم نہیں ۔
اس حسین مقام پر مجھے چائے بنانے کا شرف حاصل ہوا جبکہ ندیم اقبال بھائی نے فوٹوگرافی کی شام کے سائے ڈھلنا شروع ہو گئے اور ہمارا سفر اپنی اگلی منزل مہوڑیانوالہ کی جانب شروع ہوا اب دوبارہ ڈھلوانوں پر مشتمل راستہ تھا چاند مشرق کی جانب پہاڑ کی چوٹی سے نمودار ہو کر تھکے ہارے مسافروں کا ساتھی اور رہنما بن کر ہر سو روشنی کرنے لگا ۔
رات کے نو بجنے والے تھے اور اوچھالی سے دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد دو مسافر مہوڑیانوالہ گاؤں میں داخل ہوئے جہاں چاچا مظہر اپنی بیٹھک پر بے تابی سے ہمارے انتظار میں تھے ۔۔ (جاری ہے )
خصوصی تعاون : محمد ندیم اقبال
اے وی پڑھو
سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے||حسنین جمال
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان
ڈیرہ کی گمشدہ نیلی کوٹھی !!||رمیض حبیب