اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹروں کی ڈیوٹی کے طویل دورانیہ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی ۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے صدر ڈاکٹر فضل ربی وغیرہ کی طرف سے راجہ صائم الحق ستی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ پیش ہوئے جنہوں نے موقف اختیار کیا کہ ان غیر انسانی، غیر آئینی اور خلاف قانون روایت کی وجہ سے ملک بھر میں ڈاکٹروں سے ہفتہ میں 102 گھنٹے سے زیادہ زبردستی کام کرایا جاتا ہے ۔
درخواست گزار کے مطابق اس سے نہ صرف ڈاکٹروں کی ذہنی،جسمانی،سماجی اور معاشرتی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ مریضوں کو بھی معیاری علاج معالجہ کی سہولیات دینا بھی انسانی طور پر ناممکن ہوجاتا ہے ۔
ینگ ڈاکٹرز کے وکیل نے کہا کہ یوں اس غیر انسانی طویل دورانیہ کی ڈیوٹیاں ایک طرف ڈاکٹرز کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں بلکہ اکثر زنانہ ڈاکٹرز ایم بی بی ایس کے بعد میڈیکل کے شعبہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔
وکیل نے کہا کہ حال یہ ہے کہ ملک میں پہلے ہی سے ڈاکٹروں کی کمی ہے خصوصاً زنانہ ڈاکٹروں کی ۔طویل دورانیہ کی ڈیوٹیاں سرانجام دینے کے بعد آئے روز ڈاکٹرز حادثات کا شکار ہوکر موت کی منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن حکومت وقت اس انسانی المیے پہ ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حال ہی میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ایک تقریب میں وفاقی سیکرٹری صحت ڈاکٹر اللہ بخش ملک صاحب نے ینگ ڈاکٹرز کے اس مطالبے کا کہ” ٹرینیز اور ہاؤس آفیسرز ڈاکٹرز بھی زیادہ سے زیادہ ہفتے میں 48 گھنٹے ڈیوٹی انجام دیں گے” ، کو جائز قرار دے کر حمایت کا وعدہ کیا تھا۔
فاضل عدالت اپنے ریمارکس میں ڈاکٹروں کے طویل دورانیہ کے ڈیوٹی کو غیر مساوی سلوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلاح عامہ کے اس کیس کو جلد فیصلہ کریں گے تاکہ ڈاکٹروں اور مریضوں کی زندگیوں کیساتھ کھیلے گئے اس کھیل کا جلد خاتمہ ہو ۔
مزید سماعت کیلیے کیس کو آئندہ ہفتے تک ملتوی کردیا گیا۔
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
صحت عامہ سے متعلقہ کمانڈ، کنٹرول، اور کمیونیکیشن کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے قومی ادارہ صحت میں ورکشاپ
نیشنل پریس کلب کے انتخابات، جرنلسٹ پینل نے میدان مارلیا، اظہر جتوئی صدر منتخب