جاوید اختر بھٹی
ارشاد تونسوی سرائیکی ادب کی ایک نامور شخصیت ہیں۔ وہ ان ابتدائی لوگوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے اس وقت سرائیکی زبان میں لکھنا شروع کیا جب اس زبان کی زیادہ پذیرائی نہیں تھی۔
وہ نظم کے خوبصورت شاعر ہیں۔’’ندی ناں سنجوک‘‘ کے نام سے انکا شعری مجموعہ شائع ہوچکاہےجس پر اکادمی ادبیات نے انہیں خواجہ فرید ایوارڈ بھی دیااور اب ان کا نیا نثری مجموعہ ’’عشق اساڈا دین‘‘ شائع ہوا ہے ۔ اس میں پینتس مضامین اور ایک انٹرویو شامل ہے۔
’’کی جاناں میں کون‘‘ میں ارشاد تونسوی لکھتے ہیں:
’’آدمی کو کسی حوالے سے پرکھیں وہ ہمیشہ آپ پر پورے طور پر نہیں کھلے گا۔ زندگی جسے ہم بچانے کی بے انتہا کوشش کرتے ہیں۔ اسے تو محض ایک جو کی روٹی اور ایک دودھ کے پیالے سے بھی بچایا جاسکتاہے۔ بس سوال اتنا ہے کہ اسے مطمئن کیسے رکھا جاسکتاہے ۔
ساری گرہیں یہیں سے شروع ہوتی ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ گرہیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ زندہ رہنا مرنے سے مشکل ہوجاتاہے۔ ‘‘
ارشاد تونسوی کی دانش اور فلسفہ عام لوگوں کیلئے ہے اور انسانی رشتوں سے اسکا گہرا تعلق ہے۔ وہ عام آدمیوں کے درمیان رہ کر سوچتا ہے۔ زندگی کے رویے اس کے نزدیک محلات میں پرورش نہیں پاتے ۔ارشاد تونسوی سرائیکی کا رسول حمزہ توف ہے۔
وہ رسول حمزہ توف کی طرح لوگوں میں زندگی بسرکرتا اور ان کے دکھ سکھ کا مشاہدہ کرتاہے۔
ارشاد تونسوی ایک منفرد نثر نگا رہے۔ اگر اس کا اردو یا کسی بھی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو یہ وہاں بھی اپنی جگہ بنالے گی۔ کیونکہ ان کی فکر میں ایک طرح کی کشش ہے ۔ جذب کی ایک کیفیت ہے جو بہت کم لکھنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔ ایسی کتاب سرائیکی ادب میں اس سے پہلے موجود نہیں ہے ۔ شاید ایسی نثر اب لکھی جائے اور نہ نثر ’’نثر ارشاد ‘‘کے طور پر زندہ رہے گی۔
ارشاد تونسوی کی چند تحاریر سے اقتباسات پیش کرتاہوں:
’’کسی شہر کے ساتھ واقفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس شہر کے کتنے لوگ آپ سے واقف ہیں بلکہ اس شہر کے بازار، کوچے ، گلیاں ، محلے، دروازے آپ کے کتنے واقف ہیں۔ کتنی یادیں آپ کی اس شہر سے وابستہ ہیں۔ اس کی گلیوں سے کتنی یاری ہے؟ کتنی جاگتی راتیں آپ نے اسکی سڑکوں ، اسکے ہوٹلوں میں گزارے ہیں۔’’ (شہر آشوب)
’شاعری کیا ہے ؟ اس کا آدمی کے حقیقی مسائل سے کتنا تعلق ہے؟ کیا شاعری صرف لفظوں کا کھیل ہے؟ ایسے بہت سے سوال ہیں جو آدمی کے ذہن میں آتے ہیں۔ جس وقت وہ شاعری یا آرٹ کے بارے میں سوچتا ہے کیونکہ جو بظاہر جیون کا جو عام رویہ ہے آدمی کے جو عام سکھ ہیں ، ان کی جو خوشیاں ہیں۔ جو چیزیں انہیں آرام دیتی ہیں یا تصادم پیدا کرتی ہیں۔ ان کا تو کوئی تعلق شاعری کے ساتھ نہیں ہے۔ ‘‘(کچھ گالھیں شاعری دے دفاع وچ)
آخر میں ارشاد تونسوی کا ایک انٹرویو شامل ہے جو صابر چشتی المعروف وسمل پنوار مرحوم نے کیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ارشاد تونسوی نے کہا :
’’ہم جس وسیب میں رہتے ہیں یہاں جو بات کہنے کی روایت، ڈھنگ اور طریقہ ہے وہ اجتماعی زندگی کا رویہ ہے اور کسی بھی شعری ہئیت میں سارا جہاں ظاہر ہوتاہے۔ فارم پورے سماجی تناظر کے ساتھ وضع ہوتی ہے اور وہ سماج کی اجتماعی سوچ اور بات کہنے کے ڈھنگ کو ظاہر کرتی ہے۔ موضوع یا مواد ہی متعین کرتاہے کہ کسی لکھاری نے اسے کس طرح لکھنا یا کس صنف میں ڈھالنا ہے ۔ تمام شعری اصناف جو یہاں اب تک رہی ہیں ان میں سے نہ تو سب کو ختم کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس طرح زندہ رکھا جاسکتاہے۔ ‘‘
ارشاد تونسوی سرائیکی وسیب کے بڑے شاعر اور دانشور ہیں۔ اس لئے اس کتاب کو پذیرائی حاصل ہوگی اور پڑھنے والے نثر کے ایک منفرد ذائقے سے روشناس ہونگے۔
ارشاد تونسوی کی کتاب ’’عشق اساڈا دین پڑھنے کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کریں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ