کوہ سلیمان کے دامن میں واقع قلعہ ہڑند دن بدن خستہ حالی کی طرف گامزن ہے۔
صدیوں پرانے اس قلعے نے یونانی، ایرانی اور عرب فوجوں کی یلغار دیکھی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور کے مغرب میں تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر قلعہ ہڑند واقع ہے۔ صدیوں پرانے اس قلعے نے یونانی، ایرانی اور عرب فوجوں کی یلغار دیکھی ہے۔
اس قلعے کا اصل نام ہری نند تھا لیکن اب اس کو لوگ ہڑند کے نام سے پکارتے ہیں۔
200 سال قبل سکھ دور میں اس قلعے کے بیرونی حصے میں اینٹیں لگانے کا کام شروع کیا گیا۔ لیکن یہ کام گورچانی قبیلے کی مزحمت پر روکنا پڑا۔
گورچانی قبیلہ سکھ حکمرانوں کے خلاف تھا اور قبیلے نے دو بار اس قلعے پر دھاوا بولا۔ تاہم قلعے کے بیرونی حصے پر اینٹیں لگائے جانے کا کام مکمل کر لیا گیا۔
1848-49 کی جنگ میں انگریزوں نے یہ قلعہ فتح کیا۔ 97-1893 کے گیزیٹیئر کے مطابق کیفٹیننٹ ینگ نے اس قلعے کو گورچانی قبیلے کی مدد سے فتح کیا۔
موجودہ دور میں یہ قلعہ بارڈر ملٹری پولیس راجن پور کے زیر استعمال ہے اور جمعدار بارڈر ملٹری پولیس کا ہیڈ کوارٹر بھی اسی قلعے میں ہے۔
اس قلعے کی مخدوش حالت کو دیکھتے ہوئے ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ کی عمارت کی طرز پر غیر ملکی سفارتخانوں سے اس کو محفوظ کرنے کے لیے مدد لی جا سکتی ہے۔
مشہور فارسی کتاب ’سکندر نامہ‘ میں درج ہے کہ جب اس قلعے پر سکندرِ اعظم نے حملہ کیا تو اس وقت اس پر ایرانیوں کے قبضے میں تھا۔
کتاب کے مطابق اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد سکندرِ اعظم نے دارا یوش کی بیٹی سے اسی قلعے میں شادی کی۔تاہم اس حقیقت کو زیادہ تر تاریخ دان متنازع قرار دیتے ہیں۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ