مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیویاں

جب ہم جواں ہونگے۔۔۔۔۔

گلزار احمد 


آج صبح میں نے ایک واٹس ایپ گروپ پر ثنا خان کی طرف سے بھیجی گئی تصویر دیکھی جس میں ہماری روائتی سویاں بناتی دکھائی گئیں ہیں۔

سچی بات یہ ہے جب میں ایسی تصویریں دیکھتا ہوں تو مجھے ایک پرانے گانے کے اشعار یاد آتے ہیں۔ وہ اشعار کچھ یوں ہیں ؎ جب ہم جواں ہونگے۔۔۔جانے کہاں ہو نگے۔۔ لیکن جہاں ہونگے تجھے یاد کرینگے فریاد کرینگے۔

۔بات یہ ہے کہ عید کے دن سویاں کا پکوان ہمارے بچپن کے زمانے میں ایک لازمی جز تھا۔صبح سویرے عید نماز پڑھ کے آتے تو سویاں ایک بڑے پتیلے میں پک کے ہمارا انٹظار کر رہی ہوتیں۔

پہلے ماں ابلی سویوں میں دودھ اور پکے چھوارے ۔گری کے ٹکڑے اور پستہ بادام ڈال کر ہمیں کھلاتی ۔اس کے بعد لکڑی کے بنے ٹرے جسے پتنوس بولتےتھے اس میں محلےداروں کے لیے حصے بنتے اور ہم خوشی خوشی ہر گھر جا کر دے آتے۔

پتنوس میں سویوں کے حصے ایک چھوٹی ڈھیری کی شکل میں ہوتے اور کبھی کبھی کسی گھر اس ڈھیری کے اوپر کرنسی نوٹ بھی رکھے جاتے۔

خیر سویاں اس وقت بازار سے کم خریدی جاتی تھیں۔اب مجھے اس کا پتہ نہیں کہ بازار میں کچھ دام زیادہ ہونگے شاید اس وجہ سے گھر بنائی جاتیں یا پھر خاص آٹے کے ذائقے وغیرہ کی کوئی وجہ تھی۔

سویاں بنانے کی ایک چھوٹی مشین ایک چارپائی کے پاے سے فٹ کر دی جاتی اور اس میں آٹا ڈال کر ہاتھ سے گھمایا جاتا بس آجکل جیسے قصائی کی دکان پر آپ قیمہ نکالنے والی مشین دیکھتے ہیں اسی قسم کی مشین تھی مگر خود گھمانے پر زور بہت لگتا۔

ادھر سویاں تیار بھی رمضان شریف کے مہینے ہوتیں اور لوگ روزے سے ہوتے تھے۔عام طور پر سویاں ہمارے گاوں کی عورتیں مل کر ایک گھر جمع ہوتیں اور مشین جسے گھوڑی بھی کہتے چلاتی تھیں۔

بعض دفعہ آٹے میں قسم قسم کے رنگ ملا کر رنگدار سویاں تیار کی جاتیں۔ سویاں پکانے کی بھی علیحدہ علیحدہ طریقے یا ریسیپی تھی۔جو ہم تقسیم کرتے اس کو سویوں کا زردہ کہتے کیونکہ یہ سویاں گھی شکر میں بھون کر تیار ہوتیں۔

ابلی سویوں پر اوپر سے شکر اور خشک میوہ جات ڈالے جاتے۔خیر ایک چیز جو دیہات میں دیکھی وہ یہ تھی کہ جب سویاں بنانے والی مشین نہیں آئی تھی وہ سویاں بنانے کا طریقہ بڑا دلچسپ تھا۔

خواتین ایک مٹوری یا گھڑے کو الٹا رکھ دیتیں اور آٹے کے پیڑے کو گول کرتی اور اس پر گھماتیں اس طرح ایک لمبی رسی کی طرح موٹی موٹی سویاں بنائی جاتیں اور پھر لچھے بنا کر سکھانے کے لیے رکھ دیتے۔

میں نے وہ موٹی موٹی سویاں بھی کھائی ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے گاوں کے ایک غریب خاندان کا لڑکا مودی فوج میں سپاہی بھرتی ہو گیا اور کافی عرصے بعد چھٹی پر گھر آیا۔

اب باہر فوج کے ماحول اور شھر سے اس کا تھوڑا دماغ خراب کر دیا اور اردو بھی ٹوٹی پھوٹی بولنے لگا ۔

اس کی غریب ماں نے وہ موٹی سویاں پکا کر اس کو دیں تو اس نے ماں کو کہاں۔۔اماں ہم یہ للہوریاں ملہوریاں نہیں کھاتا ہے۔

اس کی ماں کو غصہ آیا اور جوتی سے مودی کی خوب مرمت کی اور کہا یہ لہلوریاں ملہوریاں ہیں یا سویاں ہیں تمھاردماغ باہر جا کر خراب ہو گیا ہے۔ چنانچہ ماں کے جوتوں کے صدقے اس کو ہوش آیا اور پھر مزے سے سویاں کھائیں اور پھر یہ ضرب المثل بن گئی کہ مودی لہلہوریاں ملہوریاں نہیں کھاتا۔

بہر حال پھر گاوں میں دوسری مشینیں آ گیئں اور پرانی موٹی سویاں ناپید ہوگئیں۔ان سویوں کا ایک بڑا فاعدہ یہ تھا کہ خواتین مل بیٹھتیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتیں۔

گاؤں میں تنور پانی بھرنے کا پنگھٹ یہ سب ہماری خواتین کے کیمیوٹی ہال تھے اب نئی ایجادات ہمیں دور سے دور کرتی جا رہی ہیں ۔

%d bloggers like this: