رفعت عباس
پورے محل میں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی۔ باندیاں اپنی جگہ لرزاں اور نوکر چاکر غلام گردشوں میں بھاگتے تھے۔ رانی سورٹھ کی آنکھوں کے آگے اندھیر اور راجے کی ماں اس انہونی کے آگے عجیب ہونی کو دیکھ رہی تھی کہ موسیقار بیجل نے اپنا ساز ”کھماچ“ سنانے کے بدلے میں گرنار کے راجہ ”رائے ڈیاچ“ کا سر مانگ لیا تھا۔
سُر کے بدلے سَر کا یہ انوکھا بیانیہ سندھی لوگ داستان ”سورٹھ رائے ڈیاچ“ کا وہ کلائمکس ہے جسے شاہ لطیف نے اپنے سُروں میں امر کردیا ہے، دھرتی کے خیمر کا حصہ بنا دیا ہے اور وہاں! رائے ڈیاچ نے سُر کے بدلے سَر کا قول نبھایا اور خود ہی اپنا سرکاٹ ہتھیلی پہ دھر بیجل کے سامنے پیش کردیا۔ رائے ڈیاچ کی ماں پکار اٹھی کہ بیجل سر قبول کر ورنہ بیٹا میرا یونہی کھڑا رہے گا۔
کل کے رائے ڈیاچ کا قلعہ ”ایک ایسے پہاڑ پر تھا جس کی بلندی پانچ کوس اور قلعے کے چار سو برج اور ہر برج پر فوجی دستہ متعین تھا“۔ گرنار کا وہ بادشاہ ایک ”کھماچ نواز“ کو اپنا سر دے کر سرخرو ہوگیا۔ آج کے ”رائے ڈیاچ“ کا قلعہ آسمان برابر اور ہر گوٹھ میں اس کی چوکی اور ہر چوکی کی برجی میں اس کی مشین گن نصب ہے۔ لیکن گرنار کا یہ رائے ڈیاچ قول سے پھرا اور وصل سے بیگانہ ہوگیا۔ سو قارئین! یہ آج کے ”رائے ڈیاچ“ کی کہانی ہے۔ دوسری طرف ماضی اور حال کا بیجل نہیں بدلا۔
پورے محل میں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی۔ باندیاں اپنی جگہ لرزاں اور نوکر چاکر غلام گردشوں میں بھاگتے تھے۔ رانی سورٹھ کی آنکھوں کے آگے اندھیر اور راجے کی ماں اس انہونی کے آگے عجیب ہونی کو دیکھ رہی تھی کہ موسیقار بیجل نے اپنا ساز ”کھماچ“ سنانے کے بدلے میں گرنار کے راجہ ”رائے ڈیاچ“ کا سر مانگ لیا تھا۔
سُر کے بدلے سَر کا یہ انوکھا بیانیہ سندھی لوگ داستان ”سورٹھ رائے ڈیاچ“ کا وہ کلائمکس ہے جسے شاہ لطیف نے اپنے سُروں میں امر کردیا ہے، دھرتی کے خیمر کا حصہ بنا دیا ہے اور وہاں! رائے ڈیاچ نے سُر کے بدلے سَر کا قول نبھایا اور خود ہی اپنا سرکاٹ ہتھیلی پہ دھر بیجل کے سامنے پیش کردیا۔ رائے ڈیاچ کی ماں پکار اٹھی کہ بیجل سر قبول کر ورنہ بیٹا میرا یونہی کھڑا رہے گا۔
کل کے رائے ڈیاچ کا قلعہ ”ایک ایسے پہاڑ پر تھا جس کی بلندی پانچ کوس اور قلعے کے چار سو برج اور ہر برج پر فوجی دستہ متعین تھا“۔ گرنار کا وہ بادشاہ ایک ”کھماچ نواز“ کو اپنا سر دے کر سرخرو ہوگیا۔ آج کے ”رائے ڈیاچ“ کا قلعہ آسمان برابر اور ہر گوٹھ میں اس کی چوکی اور ہر چوکی کی برجی میں اس کی مشین گن نصب ہے۔ لیکن گرنار کا یہ رائے ڈیاچ قول سے پھرا اور وصل سے بیگانہ ہوگیا۔ سو قارئین! یہ آج کے ”رائے ڈیاچ“ کی کہانی ہے۔ دوسری طرف ماضی اور حال کا بیجل نہیں بدلا۔اسے آج بھی اپنے ساز کی طاقت پر ناز ہے۔ اپنے ”کھماچ“ کو اس نے کبھی بے سرا نہیں ہونے دیا۔ اس نے اپنے کاندھے سے یہ کیزو نہیں اتارا۔ صدیاں بیت گئیں وہ اپنا سُر آزماتا اور بادشاہوں کا سَر ان کے ایوانوں میں کاٹتا ہے۔ اب وہ صرف ایک چہرے والا بیجل نہیں بلکہ کروڑ ہا چہروں اور ان سے دگنی آنکھوں اور ان سے دگنے ہاتھ پاؤں والا بیجل ہے۔ وہ ہجوم بن کر بیک وقت آگے بڑھتا اور پیچھے ہٹتا ہے۔ وہ بیک وقت سیڑھیاں چڑھتا اور اترتا ہے۔ وہ کسی گوٹھ سے کسی بھی وقت روانہ ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی شہر کی کسی بھی گلی سے برآمد ہوسکتا ہے۔ وہ رنگ پہنتا ہے کہ یہ اس کا پوسٹرز ہیں۔ وہ ہونٹوں پر سرخی لگاتا ہے کہ یہ اس کے بینرز ہیں۔ وہ گندم اُگاتا، کپاس چنتا اور نارنگی سے ٹوکری بھرتا ہے۔ وہ جوار یا مکئی کو پکا کر چاند بنا سکتا ہے۔ یہ بیجل گاڑی میں سوار بیجل کو ہاتھ ہلاتا اور اگلے اسٹیشن پر اس کا استقبال کرتا ہے۔
آج سوموار ہے: وہ اپنے ساز کو نئے پھمن لگاتا اور رنگین جھالر باندھتا ہے۔ رب رحمان کا تکیہ کر گھر سے نکل گلی میں آتا ہے۔ سڑک کے بڑھتے ہوئے شور کر کھرج مان کر دل ہی دل میں سُر قائم کرتا اور بکھرتی ہوئی آوازوں کو مراقبے میں سمیٹتا ہے۔ وہ آگے بڑھتا ہے۔ آگے تنور اور چائے خانے ہیں۔ آگے گھڑیال اور کتب خانے ہیں۔ وہ چڑھائی کے دروازے پر کبوتروں کو دانہ ڈالتا ہے۔ آگے بہاول حق کا دربار ہے۔ دم بہاول حق۔ آگے سہون ہے۔ جھولے لال قلندر، وہ رنگین ٹکڑوں والی ٹوپی پہن کر تھوڑی دیر کے لئے وہیں بیٹھ جاتا ہے۔
آج منگل ہے: اس نے صبح سویرے ہی اپنی وحدت کی تار تیکھی کی۔ وہ چمک اٹھی۔ درانتی لوہار کو اور ترازو ترکھان کو بھجوائی۔دونوں اپنی دھار میں آ گئیں۔ اپنی سائیکل کے پہیے میں ہوا بھری۔ اس کی رفتار بڑھ گئی۔ درختوں اور پرندوں کو محبت سے دیکھا۔ وہ ساتھ چل پڑے۔ پانی کو اپنی جگہ پہ رہنے دیا کہ پیچھے ایک پیاسا آرہا ہے۔ مچھلیوں کو چمکنے اور گھنٹیوں کو بجنے دیا، دیکھا کہ سب کچھ اپنی لے میں ہے۔ پورے دن کو جگہ جگہ سے رگڑ رگڑ کر چمکایا۔
آج اتوار ہے: سرکاری چھٹی لیکن بیجل چھٹی نہیں مناتا۔ رائے ڈیاچ اسے ایک دن کیلئے ٹالنا چاہتا ہے لیکن وہ نہیں ٹلتا۔ رائے ڈیاچ اسے ایک دن اپنے ریاض سے بیگانہ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ نہیں ہوتا۔ وہ شیو بناتا اور اپنے جوتے پالش کرتا ہے۔ وہ ہر گوٹھ میں سبزی کے تھیلے کے ساتھ نکلتا ہے۔ وہ سرخ ٹماٹر، پیلے لیموں اور ہری مرچ کے تیکھے پن کو گھر لے آتا ہے۔ وہ سبزی کی چھری کو رگڑتا اور زہریلی بھنڈی کو دھو کر توجہ سے کاٹتا ہے۔ روزمرہ لکڑی کی گرہیں گنتا اور رندے کا نیا بلیڈ خریدتا ہے۔ وہ اسے ڈھونڈنے کیلئے شام کو لالٹین کی چمنی بدلتا ہے۔
بیجل پوری تیار کے ساتھ رائے ڈیاچ کی تلاش میں ہے مگر وہ بیجل کو اپنی موجودگی کی غلط خبر پہنچاتا ہے۔ وہ ایک جیسی تین گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔ وہ ایک جیسے چار جہازوں میں اڑتا ہے۔ وہ ایک جیسے پانچ محلات میں رہتا ہے۔ اس کی گاڑی، جہاز اور محلات پر دبیز پردے ہیں۔ پردوں سے باہر محافظ ہیں۔ محافظوں سے آگے ناکے اور خار دار تاریں ہیں۔ وہ بیجل کیلئے ناقص سڑک بنواتا ہے۔ کمزور پل بندھواتا ہے۔ اس کی بس پنکچر اور ریل گاڑی کو لیٹ کرتا ہے۔ اس نے بیجل کیلئے پاگل خانہ اور جیل خانہ بنا رکھا ہے۔ وہ بیجل کی بار بار تصویر کھینچتا اور اس کی انگلیوں کے نشان حاصل کرتا ہے۔ اسے پڑتال، بھرتی اور راشن بندی کی لمبی قطار میں الجھاتا ہے مگر جہاں رائے ڈیاچ حکمران ہو وہاں قطار نہیں بندھتی کیونکہ بیجل وقت ضائع کئے بغیر اس کی تلاش میں نکلنا چاہتا ہے۔
ناظم حکمت گواہ ہے کہ ترکی میں بیجل آگے بڑھا۔ لور کا شاہد ہے کہ اسپین کی آمریت اور خانہ جنگی بھی بیجل کو نہ پچھاڑ سکی۔ پبلو نرودا یاد دلاتا ہے کہ کسی بھی ”چلی“ میں کوئی بھی ”پنوشے“ تادیر نہیں چھپ سکتا کہ بیجل جلاوطنی میں بھی اپنے وطن سے مربوط رہتا ہے۔
”میں کسی کپڑے کے بغیر، کسی کاغذ کے بغیر ہوں کہ لفظ لکھ سکوں جو میری زندگی ہیں، کسی چیز کے بغیر، سوائے ایک چھوٹے سے تھیلے کے، میں نے دو کتابیں اپنے ہمراہ لی ہیں۔ کتابیں: ایک جغرافیے کی اور ایک چلی کے پرندوں کی“۔
فیض تائید کرتا ہے کہ ہم اور تم بالآخر رائے ڈیاچ کے راج سنگھاسن تک پہنچ جاتے ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود بیجل کو قدم قدم پر روکا جاتا ہے۔ رائے ڈیاچ آگے بڑھتی ہوئی سڑک کو پھر پیچھے لے جاکر کسی دوسری طرف موڑ دیتا ہے۔ وہ ٹریفک سگنلز اور نشانات کے ذریعے کچھ اور نشاندہی کرتا ہے۔ وہ موٹر وے بنواتا اور شہروں کو بائی پاس کرتا ہے۔ وہ اپنے قریب سے کوئی لاری یا ریل گاڑی نہیں گزرنے دیتا۔ ایک بوڑھے ریلوے انجن ”آئرلینڈ فلائنگ مین“ نے اس کے محل کو دور سے دیکھ لیا تھا، اسے بند کردیا گیا۔ ہر سال ہر چیز کا ماڈل بدلا جاتا ہے۔ بیجل دسمبر تک پہنچتا ہے تو رائے ڈیاچ پھر جنوری کر دیتا ہے۔ ایجنسیاں اسے بتاتی ہیں کہ بیجل روانہ ہے لیکن وہ ایجنسی بدل دیتا ہے۔
رائے ڈیاچ کا خیال ہے کہ بیجل کہیں نہ کہیں تھکاوٹ سے مارا جائے گا۔ اگر ایسا نہ بھی ہوا تو مایوس ہوکر مر جائے گا۔ بصورت دیگر وہ اسے اپنی کرنسی اور اسکول کے نصاب سے مار دے گا یا پھر اسے مابولی، تاریخ اور جغرافیہ چھین کر مارا جاسکتا ہے۔ لیکن قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ بجیل مسلسل اپنے سُر مستحکم کررہا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
مقامی دانش اور تخلیقی جہات||رفعت عباس سے مکالمہ