اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نامعلوم جانور .. تحریر ذوالفقار علی

نامعلوم جانور .. اپنے شکار کو ڈرانے کیلئے خوب پھنکارتے ہیں ، لمبی لمبی " سانسیں" چھوڑتے ہیں اور کسی اندھیرے کونے میں چھپ کر اپنی زہر کو بےضرر "گنگداموں" پر انڈیلتے رہتے ہیں۔

وہ جب منظر سے غائب رہتے ہیں تب پس منظر میں ” کنڈلی” دیتے ہیں تاکہ بچے پیدا کر سکیں۔
ان کے اکثر بچے عقل سے عاری اور سطحی سوچ کے مالک ہوتے ہیں مگر فطرت میں ویسے جیسے ان کے ” ابو”.
اپنے شکار کو ڈرانے کیلئے خوب پھنکارتے ہیں ، لمبی لمبی ” سانسیں” چھوڑتے ہیں اور کسی اندھیرے کونے میں چھپ کر اپنی زہر کو بےضرر "گنگداموں” پر انڈیلتے رہتے ہیں۔
ان کا قبضہ وسیع و عریض علاقے پر ہوتا ہے اور یہ اپنے علاقے میں کسی کو گھسنے نہیں دیتے ہاں اگر کوئی نیولا ان پر حملہ بول دے تو پھر یہ تعداد میں چاہے جتنے بھی ہوں ” ہتھیار” پھینک کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔
نیولے کے ساتھ ان کی بالکل نہیں بنتی یہ ان سے پراکسی وار کے ذریعے بدلہ لینے کیلئے اکثر بے تاب پائے گئے ہیں اور کبھی کبھار یہ بدلہ لے بھی لیتے ہیں کیونکہ جب یہ کنڈلی مار کر بیٹھ جائیں تو پھر بہت خطرناک ہوتے ہیں۔
اپنے بچوں کی سالہا سال یہ پرورش کرتے ہیں اور ان کو پال پوس کر اپنے اپنے علاقے کا لیڈر بنا دیتے ہیں ۔ جو بچے زیادہ ہونہار اور چلاک ہوتے ہیں وہ در پردہ رہنے کی بجائے منظر پر رہنا پسند کرتے ہیں اور اپنے ” علاقے” کی خوب رکشا کرتے ہیں۔ان پر نظر رکھنے والے سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ جب پس منظر میں ہوں تو زیادہ خطرناک اور خونخوار ہوتے ہیں جیسے آجکل ۔
ان پر تحقیق کرنے والےایک جوگی کا کہنا ہے کہ ان سے یاری اچھی ہے نہ ہی دشمنی۔ان کو جتنا دودھ پلاؤ یہ موقع ملتے ہی اسی پر وار کرتے ہیں۔ وہ ایک مشہور واقعہ بتا رہے تھے کہا ایک بار بڑی بڑی کنڈلیوں والے اور ایک آنکھ سے کانے جانور نے تو حد ہی کر دی تھی اپنے ہی محسن کو ایسا ڈسا کہ وہ پھر جاں بر نہ ہو سکا۔وہ کہہ رہا تھا ان کی آنکھوں میں ان کو چیلنج کرنے والے دشمن کی شبہیہ بن جاتی ہے جس کو وہ اپنی اگلی نسل میں منتقل کر دیتے ہیں اور پھر جس جس کو بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی زہر اس نسل میں انڈیلتا رہتا ہے۔جب ان کی بھوک کی اشتہا بڑھ جاتی ہے تو یہ اپنے ہی بچوں کو کھا جاتے ہیں۔
ان کی زندگی پر ریسرچ کرنے والے ایک اور شخص نے بتایا کہ ان کی شکلوں پر نہ جانا یہ کیموفلاج کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔یہ اکثر دوست بن کر آتے ہیں اور جب ان کا مطلب نکل جائے تو فورا منہ پھیر لیتے ہیں۔
جس علاقے پر ان کا قبضہ ہوتا ہے وہاں پر رہنے والے دوسرے جی جنتوؤں کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔اگرچہ دوسرے جاندار ان کے مفتوحہ علاقے کے وسائل کو تھوڑا بہت اپنی بقا کیلئے اگر استعمال کر بھی لیں تو یہ ایسا واویلہ کرتے ہیں کہ الامان ، گمان یہ ہوتا ہے جیسے علاقے کے سارے وسائل برباد کر دئے گئے ہوں۔
یہ جانور اپنی بلوں میں رہتے ہیں اور ان کی بلیں بہت مضبوط اور بھر پور ہوتی ہیں۔علاقے کے وسائل کا زیادہ تر حصہ ان کی بلوں کی سیکیورٹی اور دیکھ بھال پر لگتا ہے۔
ایک شخص بہت ہی بوڑھا شخص بتا رہا تھا کہ ان سے بچنا کیسے ہے۔وہ بتا رہا تھا کہ جہاں رہ رہے ہو جس حال میں رہ رہے ہو ان کی تعریف کرو ان پر بچھے جاؤ تو جان بچ سکتی ہے ورنہ یہ دوسرے جانداروں کو غائب کر دیتے ہیں ،مار دیتے ہیں یا عمر بھر قید کر کے رکھتے ہیں۔
آجکل یہ اپنے بغل بچے کے ذریعے پس پردہ رہ کر کام کر رہے ہیں اور ان کا بغل بچہ بالکل اناڑی ہے ان سے ان کا کام نہیں چل رہا جس کی وجہ سے ان کی پورے جنگل میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ بچہ ان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے جو نہ نگلا جا رہا ہے اور نہ ہی اگلا جا رہا ہے۔

%d bloggers like this: