حسن مرتضی
عام انتخابات 2018 میں جہاں بڑی اکثریت کی جانب سے نتائج پر انگلیاں اٹھیں وہاں ایک بات پر سب کا اتفاق رائے ہے کہ مضبوط سوشل میڈیا، کئی سالوں کی محنت اور چٹکی میں مسائل کے حل کا اعلان کرنے والی سیاسی جماعت تحریک انصاف نے طلبا اور نوجوان طبقے کو متاثر کیا۔
وجوہات چاہے طلبا سیاست پر پابندی سے شعور کا نا ہونا یا مسلسل امیج بلڈنگ ہو. اس بات سے انکار ممکن نہیں.
عمران خان جو کہ اکثر تعلیم پر زور دیا کرتے تھے اور سابقہ حکومتوں کی تعلیمی اصلاحات اور کم بجٹ پر دھاڑ کر تقریریں کیا کرتے تھے حکومت میں آنے کے بعد اس بات پر بھی یوٹرن لے گئے.
بجٹ پیش ہوا اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ پر ڈاکہ مارا گیا یوں پہلے سے کم بجٹ مزید کم ہوا تو HEC نے یونیورسٹیز کو ہدایت جاری کی کہ اب اپنا بجٹ خود پیدا کیا جائے.
فیسوں میں اضافہ ہوا. پاکستان کے چند بڑی سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹیز میں شامل یونیورسٹی آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی لاہور نے بھی فیسیں دگنی کردیں. ریاست نے ضیاالحق نے کالے دور میں طلبا یونین پر پابندی عائد کی تھی جو اب کے جمہوری دور میں بھی جاری ہے سو بے ہنگم قوم کی طرح بے ہنگم طلبا بھی کچھ نا بول سکے چند ایک نے آواز اٹھائی تو دبا دی گئی.
ابھی یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹیز میں سیلف فنانس پر 500 سیٹیں رکھی جائیں گی. جس سے یقینی طور پر میرٹ پر آنے والے غریب طالب علم کا حق غصب ہوگا.
سرائیکی بحیثیت قوم اس ظلم سے زیادہ متاثر ہوگی. جن کے علاقوں میں ابھی تک اعلیٰ تعلیم کے در نہیں کھلے. غربت اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے طلبا کی ایک بڑی تعداد میٹرک اور ایف ایس ای کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتی ہے.
سرائیکی وسیب جس پر تخت لاہور کا ناجائز قبضہ ہے. وہاں آج تک ایک مربوط اور منظم انجینئرنگ یونیورسٹی نہیں بنائی گئی. بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی میں انجینئرنگ فیکلٹی موجود ہے جو سرائکی خطے کےلیے ناکافی ہے، رحیم یار خان میں چند سال پہلے ایک انجینئرنگ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا جو پروگرامز آفر تو کررہی ہے مگر ابھی اس کو اپنا وجود منوانے میں کافی وقت لگے گا. پرائیویٹ انجینئرنگ کالجر جن میں بیشتر جعلی ہیں وہاں ایک غریب سرائیکی داخلے کا سوچ بھی نہیں سکتا.
یوں سرائیکی خطے کے ذہین دماغوں کے پاس انجینئرنگ کےلیے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور ٹیکسلا رہ جاتی ہے.
سیلف فنانس پر تعلیم، فیسوں میں اضافہ اور سکالرشپس میں کمی کا سب سے زیادہ نقصان سرائیکی وسیب کے ہونہار طلبا کو ہوگا. جن کی اکثریت پہلے ہی انٹری ٹیسٹ کے ڈرامے اور پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے مقابلے کی بنا پر یہاں تک نہیں پہنچ سکتے.
مقام حیرت ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک 8 کروڑ سرائیکیوں کو سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹی کا کوئی کیمپس نہیں دیا گیا. بلکہ ان اداروں کے کیمپس بھی لاہور کے مضافات، کالا شاہ کاکو، فیصل آباد، نارووال میں بنائے گئے.
تمام سرائیکی قوم پرست جماعتیں فیسوں کے ہوشربا اضافے اور میرٹ کے قتل عام پر آواز اٹھائیں. اپوزیشن کی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ جہاں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں وہاں طلبا یونین کی بحالی کے لیے بھی آواز اٹھائی جائے تاکہ حقیقی سیاست اور جمہوریت فروغ پا سکے طلبا کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکے . ورنہ جو چند ایک سرائیکی ان اداروں میں داخلہ لینے کے اہل ہیں وہ بھی شاید آنے والے وقت میں کہیں کلرک، چپراسی اور چوکیدار بنے نظرآئیں گے.
ساڈے وسیب دے ڈھیر سارے قابل تے ذہین طلبہ تعلیمی استحصال دی وجہ کولو اپڑا سفر روکنڑ تے مجبور تھی ویندن ۔۔۔ داخلے دا مرحلہ ہر حوالے نال ساڈے واسطے بہوں مشکل بنڑایا ویندے ۔۔۔کرائٹیریا اینجھے انداز نال سیٹ کیتا ویندے جو وسوں دے طلبہ داخلہ گھن ای نہ سگن ۔۔۔
افسوس دی گال اے سرائیکی سیاسی رہنما ایں انتہائی اہم مسلے بارے سوچ وچار بہوں گھٹ کریندن ۔۔۔۔ بیا کجھ نہ منظم تھی کے اپڑے ایہے مطالبات تاں منواون اپڑے بالیں وسطے اپڑے وسیب وسطے
Given report missed one campus of UET ie. Rachna Campus Gujranwala . Punjab Unicersity also offers a number of engineering programmes. GC lhr . , Lahore college for women , gc faisal abad and many other also are offering engineering progrmaames where as in saraiki belt we dont see so .
سرائیکی وسیب کے نوجوانوں کے مسائل کے حوالے سے حسن مرتضی کی زبردست تحریر ہے
قوم پرستوں سے تکیہ لگانا نوجوانوں کی سب سے بڑی بھول ہے, خطے کے پڑھے لکھے نوجوان خود کو مین سٹریم پر لائیں اور وسیب سے جڑے بیانئیے اور مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کرائیں اور کروڑوں سرائیکیوں کی آواز بنیں