ذوالفقار علی لُنڈ
پاکستان میں دن بدن بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔خاص کر مڈل کلاس لوئر مڈل کلاس اور مزدور پیشہ لوگ زندگی کی بنیادی ترین ضرورتوں سے بھی محروم ہوئے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی معیشت کی شرح نمو بہت کم ہے جس کی وجہ سے بالخصوص سماج کی نچلی پرتیں پریشان حال ہیں۔
اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔جس کا واضح اثر لوگوں کے پژمردہ چہروں پر کنداں ہے۔ یہ صورتحال کشمیر اور کراچی کے کچرے سے زیادہ اہمیت اور توجہ کی طلبگار ہےمگر اس طرف بالا دست طبقے کا دھیان ہی نہیں ہے۔شاید وہ بے کار بیانیوں اور فرسودہ ایشوز کو اچھال کر اپنے مفادات ہر قیمت پر محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر انہیں یہ نہیں پتا کہ مٹی اور دھرتی سے میل نہ کھانے والے بیانئے اور معروضی حالات کی پرکھ پرچول کے بغیر بنائی گئی ریاستی پالیسیاں ایک نہ ایک دن ریاست کے گلے کا پھندہ بن جاتی ہیں۔
اگر وقت رہتے ریاست اپنی روش نہیں بدلتی تو پھر بطور سیاست کے طالب علم کے مجھے یہ ملک شدید انارکی اور افراتفری کی طرف جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بے تحاشا پڑھے لکھے بے روزگار نو جوان نظر آئیں گے جو پانچ دس ہزار کی نوکری کی خاطر دھکے کھا رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ حکومت کو کوستے نظر آتے ہیں۔
کل میں ایسے ہی کچھ نوجوانوں کی محفل میں بیٹھا ہوا تھا تو غصے سے بھرے ایک نوجوان نے کہا کہ یہ کیسی ریاست ہے مجھے تو اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔میں نے اس کی آنکھوں میں بے بسی اور چہرے کے بدلتے رنگوں سے اندازہ لگاتے ہوئے اس کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کی مگر وہ پھٹ پڑا، کہنے لگا اس ملک کے اندر نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کسی بھی ملک کیلئے اس کا نوجوان طبقہ سب سے اہم ہوتا ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔
میں نے کہا وہ کیسے، اس نے گہری سانس لی اور مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو ” زلفی توں وی” ۔!!! تھوڑے سے توقف کے بعد اپنی آواز کو دباتے ہوئے موٹی موٹی گالیاں دینے لگا۔ کہنے لگا پہلے تو اس ملک میں نئی نوکریاں ہیں نہیں اگر کہیں کوئی نوکری نکل بھی آتی ہے تو اس پر ریٹائر فوجی، ریٹائر بیوروکریٹ اور پہلے سے نوکری زدہ لوگ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہوئے ان پر قابض ہو جاتے ہیں۔
جس ادارے میں دیکھو یہی ریٹائر ٹولہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ ایک اور موٹی گالی دے کر کہنے لگا ایک تو ان۔۔۔۔۔کو آتا جاتا کچھ نہیں اور اوپر سے روز ایک نیا بیانیہ اور جھوٹ گھڑ کر ہمارے ذہنوں کو پراگندہ کئے جا رہے ہیں۔
ان کو رتی بھر پرواہ نہیں کہ ہم بےروزگار گزیدہ نوجوانوں کے گھروں میں کتنے خواب مرے پڑے ہیں، کتنی امیدوں کی لاشیں بوڑھے ماں باپ کے کندھوں پر پڑی ہیں، کتنی بہنیں اپنے بھائیوں کی طرف آس لگائے بیٹھی ہیں ۔۔۔یہ کہتے کہتے وہ اچانک چپ ہو گیا اور پھر آنسو پونچھ کر کہنے لگا یہ جو اب آیا ہے اس نے تو سب کچھ ختم کر ڈالا۔
اس کے بعد جتنے نوجوان بیٹھے تھے سب کافی دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ایک نو جوان نے ہمت کر کے میری طرف دیکھا اور التجائیہ نظروں سے کہا ایک سگریٹ مل سکتی ہے۔
اے وی پڑھو
اچھوت: دھرتی کے حقیقی سورما||خلیل کنبھار
حسن درس: سندھڑی کا امر بیٹا||خلیل کنبھار
کالاشی کہتے ہیں ”جنت جانے کا کوئی اور راستہ ڈھونڈیں“||خلیل کنبھار