نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صلاح الدین کے والد کا وکیل کیس سے دستبردار

بشارت ہندل ایڈووکیٹ نے کہاہے کہ مظلوم سمجھ کر وکیل بنا مگر صلاح الدین کے ورثاء کیس کو سیاسی رنگ دینے اور بے گناہ افراد کو صلاح الدین کے مقدمہ قتل میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

رحیم یارخان: اے ٹی ایم مشینوں سے کارڈی کی چوری کے معاملے پر پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے صلاح الدین تشدد کیس  میں اہم پیش رفت ہوئی ہےمقتول  کے والد محمد افضال کے وکیل بشارت ہندل ایڈووکیٹ کیس سے دستبردار ہو گئے ہیں۔

بشارت ہندل ایڈووکیٹ نے علاقہ مجسٹریٹ ملک محمد رفیق کی عدالت میں پیش ہو کر اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا ہے۔ 

بشارت ہندل ایڈووکیٹ نے کہاہے کہ مظلوم سمجھ کر وکیل بنا مگر صلاح الدین کے ورثاء کیس کو سیاسی رنگ دینے اور بے گناہ افراد کو صلاح الدین کے مقدمہ قتل میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ صلاح الدین کیس کی اعلیٰ سطی انکوائری کے باوجود صلاح الدین کے ورثاء عدم اطمینان کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیس کا رخ کسی اور جانب موڑنا چاہتے ہیں اس لئے اپنا وکالت نامہ واپس کیا۔ 

بشارت ہندل ایڈووکیٹ نے کہا کہ صلاح الدین کے والد محمد افضال کیس کی پیروی کیلئے کوئی اور وکیل مقرر کرنے کا قانونی حق رکھتے ہیں ،صلاح الدین کیس میں تفتیشی سے لیکر ڈی پی او تک معطل ہوچکے ہیں ۔

وکیل نے الزام عائد کیا کہ صلاح الدین کے ورثاء کی طرف سے قائم مقام ڈی پی او حبیب اللہ خان کو ملوث کرنے کی کوشش نا انصافی اور بے گناہ آفیسر پر جھوٹا الزام ہے۔ قائم مقام ڈی پی او حبیب اللہ خان صلاح الدین کے وقوعہ کے روز سرکاری کام پر ضلع سے باہر تھے۔ 

واضح رہے کہ صلاح الدین کے والد محمد افضال نے سات ستمبر کو وزیراعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار سے ملاقات بھی کی تھی۔

اس موقع پر محمد افضال کا کہنا تھا  کہ محکمہ پولیس میں اصلاحات ناگزیر ہیں وہ صلاح الدین جیسے تمام معصوم اور بے گناہوں کو بچانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اعلی پنجاب سے مطالبہ کیا کہ صلاح الدین کی قبرکشائی کی جائے تاکہ دوبارہ پوسٹ مارٹم کرکے حقائق سامنے لائے جاسکیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے بیٹے کے قتل میں ملوث ایس پی حبیب کو معطل کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

وزیر اعلی پنجاب نے صلاح الدین کے والد کو شفاف عدالتی تحقیقات کروانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

واضح رہے کہ پولیس نے صلاح الدین کو اے ٹی ایم توڑنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جو 31 اگست کی شب پولیس حراست میں دم توڑ گیا۔ صلاح الدین کے جسم پر تشدد ثابت ہونے کے بعد ایس ایچ او، تفتیشی افسر اور اے ایس آئی سمیت دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔

ڈی پی او رحیم یار خان نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں ٹیم بھی تشکیل دی تھی۔

ابتدا میں پولیس صلاح الدین پر تشدد کے الزام کو مسترد کرتی رہی بعد ازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد آر پی او بہاولپور نے بیان دیا کہ مقتول کے جسم پر تشدد کے کچھ نشانات پائے گئے ہیں۔

About The Author