ہ
لاہور:پنجاب کی بھاری بھرکم کابینہ نے سادگی اور تبدیلی کے دعوؤں کا پول کھول دیا ہے، صوبے میں وزراء کی تعداد چھتیس ہو گئی ہے۔ ایک برس کے دوران کابینہ میں پانچ بار توسیع اور ردوبدل کیا گیا۔ دس مشیر اور معاون خصوصی بھی بزدار سرکار کا حصہ ہیں۔
کابینہ کم اور کام زیادہ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس نعرے کے ساتھ تھی مگر رفتہ رفتہ وزراء کا کاررواں طویل ہوتا گیا۔ اس وقت پنجاب میں چھتیس وزیر، پانچ مشیر اور پانچ ہی معاونین خصوصی حکومتی امور چلانے میں مصروف ہیں۔ اٹھائیس اگست دو ہزار اٹھارہ کو پہلی کابینہ نے حلف اٹھایا تو وزراء کی تعداد انیس تھی۔
کابینہ کی ویرانی دل کو نہ بھائی تو وزیراعلی نے مزید وزراء کو شامل کرنے کی ٹھانی، یوں بارہ ستمبر کو پہلی توسیع ہوئی،اس بار اسپیشل ایجوکییشن، اوقاف ، ویمن ڈویلپمنٹ اور کوآپریٹو سمیت گیارہ وزارتوں کے قلمدان وزراء کو سونپے گئے۔
قاف لیگ کے آنکھیں دکھانے پر پھر نو فروری کو کابینہ میں توسیع ہوئی۔ محمد رضوان باؤ کو وزیر تحفظ ماحولیات بنا کر اتحادی جماعت کو رام کیا گیا۔
چھ فروری کو علیم خان نے استعفی دیا، پانچ مارچ کو فیاض الحسن چوہان کی چھٹی کرا کر وزارت اطلاعات صمصام بخاری کو سونپ دی گئی، پندرہ جون کو کرپشن کیس میں گرفتار وزیر جنگلات سبطین خان نے استعفی دیا۔
فیاض الحسن چوہان نے چھ جولائی کو بطور وزیر کالونیز دوبارہ انٹری دی، انیس جولائی کو پھر کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کی گئی، صمصام بخاری سے اطلاعات کی وزارت واپس لے کر محکمہ مال کا شعبہ اشتمال اراضی دے دیا گیا۔
اس بار اطلاعات اور کلچر کی وزارت اسلم اقبال کے حصے میں آئی اور وزیر ہائر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا اضافی قلمدان بھی سونپا گیا۔
وزیر قانون راجہ بشارت سے محکمہ بلدیات کا اضافی چارج واپس لے لیا گیا، انہیں سوشل ویلفیئر اور بیت المال کے محکمے دیے گئے،واضح رہے کہ وزارت بلدیات گزشتہ روز اسد کھوکھر کے سپرد کی گئی ہے۔
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
نیشنل پریس کلب کے انتخابات، جرنلسٹ پینل نے میدان مارلیا، اظہر جتوئی صدر منتخب
ملتان یونین آف جرنلسٹس کے سالانہ انتخابات میں "پروفیشنل جرنلسٹس گروپ” نے میدان مار لیا،