میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو بابا نے کہا کہ اب ٹائپنگ سیکھ لو۔ یہ بہت بڑا ہنر ہے۔ ہر دفتر میں ٹائپسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہیں ملازمت نہ ملے تو لوگ ٹائپ رائٹر لے کر سڑک کنارے بیٹھ جاتے ہیں۔ چار درخواستیں ٹائپ کرنے سے دہاڑی لگ جاتی ہے۔
بابا ٹھیک کہتے تھے۔ میں نے برنس روڈ پر بہت سے لوگوں کو ٹائپ رائٹر کے ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔ بہرحال ان میں بیشتر ٹائپسٹ ہی ہوتے تھے۔ درخواست لکھنا ایک الگ کام ہے۔ بابا ہی کہتے تھے کہ آج کل کے ایم اے پاس لونڈوں کو بھی درخواست لکھنا نہیں آتی۔
میں نے دوسرے لوگوں کو بھی یہ جملہ بولتے سنا ہے لیکن بابا کی بات اور تھی۔ انھوں نے اپنے لڑکپن میں عرضی نویسی کا باقاعدہ کورس کیا تھا۔ ہمارے دادا اور ان کے بعد تایا بھی خانیوال کچہری میں عرضی نویسی کرتے رہے۔ مقدمے بازی کرنے والے بہت سے دیہاتی ان پڑھ ہوتے تھے۔ وکیل انھیں کہتا کہ عرضی لکھوا کے لاؤ۔ وہ عرضی نویس کے پاس آتے اور اپنا مسئلہ بیان کرتے۔
بابا بتاتے تھے کہ عرضی نویسی کے کورس میں پنجابی زبان کا ٹیسٹ بھی ہوتا تھا۔ ممتحن جاننا چاہتے تھے کہ جو شخص ان پڑھ دیہاتیوں کی عرضیاں لکھے گا، وہ ان سے کمیونی کیٹ کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ بابا کو بہت سے پنجابیوں سے اچھی پنجابی آتی تھی۔ کئی طرح کے لہجوں اور ان میں مستعمل الفاظ سے واقفیت کے علاوہ سرائیکی اور سندھی میں بھی شد بدھ تھی۔
میٹرک کے پرچے اپریل کے پہلے ہفتے میں ہوئے اور نتیجہ اگست میں آیا۔ اس دوران میں نے یوسف پلازا میں ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ دکھانے کے ایک مرکز میں داخلہ لے لیا۔ مجھے فیس یاد نہیں۔ پچاس یا سو روپے ہوگی۔ یہ 1989 کی بات ہے۔ تربیت دینے والا کوئی نہیں تھا۔ ایک گھنٹے کے لیے ٹائپ رائٹر آپ کے حوالے کردیتے تھے۔ خود ٹامک ٹائیاں ماریں اور خوش ہوکر گھر جائیں۔
اسی مرکز میں میرے ماموں زاد بھائی عارف بھی ٹائپنگ سیکھنے آتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ درمیان کے حروف سے مشق شروع کرو۔ بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اے ایس ڈی ایف جی۔ دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سیمی کولن، ایل کے جے ایچ۔ انگوٹھے سے اسپیس۔
میٹرک کا نتیجہ آیا تو میں نے ٹائپنگ کی مشق چھوڑ دی۔ انٹر کا امتحان دینے کے بعد پھر کئی ماہ کا وقفہ آیا تو گلشن اقبال میں آئی سی ٹی میں داخلہ لے لیا۔ آئی سی ٹی یعنی انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر ٹیکنالوجی۔ اس وقت ہر دوسرا لڑکا پیٹرومین میں داخلہ لیتا تھا۔ آئی سی ٹی کی فیس کچھ کم تھی۔
چھ ماہ کے کورس میں ورڈ، لوٹس اور لینگویج بیسک سکھائی گئی۔ کچھ عرصے بعد ورڈ کو مائیکروسافٹ ورڈ اور لوٹس کو ایکسل کھاگیا۔ بیسک کی جگہ وژوول بیسک آگئی۔ لیکن بنیادی کونسیٹ اس دور میں سمجھ آگئے تھے جو آج تک کام آرہے ہیں۔
میں اپنے بچوں کو اس دور کے کمپیوٹر کے بارے میں بتاتا ہوں تو حیران ہوکر سنتے ہیں جیسے پتھر کے زمانے کا ذکر کررہا ہوں۔ ٹو ایٹ سکس کمپیوٹر ہوتا تھا اور بلیک اینڈ وائٹ مانیٹر۔ ہارڈ ڈسک نہیں ہوتی تھی۔ اب تو ڈیسک ٹاپ میں بھی فلاپی ڈسک کی پورٹ نہیں ہوتی۔ پہلے بڑے سائز کی فلاپی ہوتی تھی جس میں چھوٹی فلاپی سے نصف جگہ ہوتی تھی۔ ایک پروگرام انسٹال کرنے کے لیے بیس بیس فلاپیاں لگانا پڑتی تھیں۔ درمیان میں کوئی ایک کرپٹ ہوجائے تو سب کچھ الٹا ہوجاتا تھا۔
میں نے 1997 میں اپنا کمپیوٹر لے لیا۔ پینٹیم ٹو، رنگین مانیٹر اور سوپرنیٹ کا چالیس روپے گھنٹے والا پیکج، جس کے ساتھ ایک ای میل ایڈرس مفت ملتا تھا۔ ویب ہاٹ میل کا ہر شخص کو علم نہیں تھا۔ جسے علم تھا، اسے اعتبار نہیں تھا۔ مجھے انٹرنیٹ پر سب سے اہم ویب سائٹ کرک انفو کی لگی۔ اس سے پہلے میں کرکٹ کے اعدادوشمار رجسٹروں میں لکھتا تھا اور کرکٹ ریکارڈز کی ایک کتاب مرتب کرچکا تھا۔ کرک انفو دیکھنے کے بعد سارے رجسٹر پھاڑ ڈالے۔
ایک سال بعد کراچی میں روزنامہ ایکسپریس کے لیے بھرتی شروع ہوئی تو مجھے بھی ملازمت مل گئی۔ سلطان لاکھانی صاحب نے بتایا کہ پورا اخبار کمپیوٹر پر لکھا جائے گا، اسی پر پیسٹنگ ہوگی اور وہیں سے پرنٹ نکلے گا۔ دوسرے اخباروں میں کاتبوں اور خطاطوں کے ساتھ زندگی بھر کام کرکے آئے ہوئے بزرگوں کو یہ باتیں عجیب لگتی تھیں۔
لاکھانی صاحب کا خاندان سائبرنیٹ کا بھی مالک تھا۔ انھوں نے نیوزروم اسٹاف کو ایک ایک ہفتے کے لیے سائبرنیٹ بھیجا تاکہ کمپیوٹر سے واقفیت پیدا ہوسکے۔ ’’کمپیوٹر ماہرین‘‘ اپنے لیکچرز میں ٹیکنالوجی کی الف بے بتاتے رہتے۔ سینئر صحافی جانکاری حاصل کرتے رہتے۔ میں بیٹھا وڈیو گیم کھیلتا رہتا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن کسی لیکچر کے دوران میں نے بتایا کہ مجھے ایک ای میل میں تصویر موصول ہوئی ہے۔ لیکچر دینے والے کو یقین نہیں آیا۔ اس وقت تک ای میلز کے ساتھ اٹیچمنٹ عام نہیں ہوتی تھی۔
کمپیوٹر کی ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ حاصل کرنے کے بعد سینئر صحافی واپس آئے تو لاکھانی صاحب نے ہدایت کی کہ اب سب کو اردو ٹائپنگ سیکھنا ہوگی۔ ایک ہال میں بہت سے کمپیوٹر رکھ دیے گئے۔ ہر شخص کے لیے لازم تھا کہ دفتر آنے کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹا وہاں ٹائپنگ کرے گا۔ میں نے خود کو اس سے مستثنا قرار دے دیا۔
ایک دن سارا عملہ ٹائپنگ کی مشق کررہا تھا اور میں مستقبل کے نیوزروم میں تنہا بیٹھا کراس ورڈ حل کررہا تھا کہ اتفاق سے لاکھانی صاحب آگئے۔ انھوں نے مجھے تو کچھ نہ کہا لیکن میرے باس صوفی صاحب سے شکایت کی کہ آپ کا شاگرد ٹائپنگ کیوں نہیں سیکھ رہا۔ اخبار چھپنا شروع ہوگا تو یہ نالائق کیسے کام کرے گا؟
صوفی صاحب نے حکم دیا کہ اگلے دن دفتر آنے کے بعد مجھے بھی ایک گھنٹا ٹائپنگ کرنا ہوگی۔ میں نے سر تسلیم خم کیا۔ اگلی شام کمپیوٹر کھول کر پانچ منٹ ہی کی بورڈ چلایا تھا کہ لاکھانی صاحب ادھر آنکلے۔ وہ میری رفتار دیکھ کر حیران رہ گئے۔ سیدھے صوفی صاحب کے پاس گئے اور کہا، ’’اپنے نالائق شاگرد سے کہیں، نیوزروم میں جاکر گیم کھیلے۔ اسے ٹائپنگ آتی ہے تو کمپیوٹر پر قبضہ کرکے کسی مستحق کو مشق کرنے سے کیوں روک رہا ہے؟‘‘
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر