کسانوں کی فریاد، وزیراعظم اور معاشی ہائی جیکرز? جام ایم ڈی گانگا… کالم ذرا سوچئیے…ــــــــــــــــــــــــــــــ
عمران جی تم حشر برپا کر کیوں نہیں دیتے گر اختیار نہیں تو استعفی کیوں نہیں دیتے محترم قارئین کرام،، وطن عزیز کا کسان مسلسل معاشی استحصال کی زد میں میں ہے. بد نصیبی سے ہر دور حکومت میں حکمران اور بیورو کریسی.
مافیاز کے زیر اثر چلی آ رہی ہے. سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں کسانوں کو ریلیف دینے کے لیے بہتر کام بھی ہوا اور انہیں باقی ادوار کی نسبت فصلات کے بہتر ریٹس بھی ملے.
گندم اور گنے کے ریٹ ان کے دور میں ہے بڑھائے گئے. سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی کسانوں کو زرعی ٹیوب ویلز کے ٹیرف اور کھادوں کے ریٹس میں کمی کرکے مناسب ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی. لیکن افسوس صد افسوس کہ گنے گندم چاول مکئی کپاس وغیرہ کے ریٹس کو انہوں نے بھی معاشی ہائی جیکرز کا ساتھ دیئے رکھا.
ملک میں ویسے تو درجنوں قسم کے بڑے بڑے مافیاز موجود ہیں لیکن شوگر مافیا اور ٹیکسٹائل مافیا ان سب میں سرفہرست ہیں. شوگر مافیا کو اگر کنگ مافیا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا. اس وقت ملک بھر کی نمائندہ اور سب سے بڑی کسان تنظیم
پاکستان کسان اتحاد نے کسانوں کے مسائل کے حل اور فصلات کے جائز ریٹس کے حصول کے لیے احتجاج کی کال دے رکھی ہے. کسان کچ دنوں سے آگاہی و دعوتی مہم کو کسان ماتم محفل کے نام سے شروع کیے ہوئے ہیں.
20نومبر کو مختلف اضلاع میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کا پروگرام ہے. جبکہ 27نومبر کو لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے اور 28نومبر کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے میں کسان کشکول مارچ اور ماتم دھرنے دے کر بڑے احتجاج کا پروگرام ہے.
پاکستان کسان اتحاد کے ساتھ کسان بچاؤ تحریک پاکستان بھی شانہ بشانہ ہے.جس میں کئی بردار کسان تنظیمیں شامل ہیں.کسان قیادت اور عوام کو موجودہ حکمرانوں سے اچھی امیدیں وابستہ تھیں. مگر افسوس صد افسوس کہ تبدیلی کے نام پر آنے والے حکمران مافیاز کو ذرا برابر بھی تبدیل نہیں کر سکے.
ملک میں کرپشن لوٹ مار، سینہ زوری، لاقانونیت اور استحصال چپکے چپکے پہلے سے بھی زیادہ ہو گیا ہے. دیدہ اور نادیدہ طاقت وری سے اپنی بات منوا لینے والے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظام کو کیا نام دیا
جائے.میں اپنی بات کو مزید آگے بڑھانے سے قبل ضلع رحیم یار خان کے کہنہ مشق زرعی صحافت کا ایک روشن نام فاروق احمد سندھو کی رپورٹ آپ کے ساتھ من وعن شیئر کرنا چاہتا ہوں. لیکن اس سے پہلے سݨ عمران اپنی جان چھڑا ضد نہ کر گنے دا ریٹ ودھا ُ ُ عمران خان تمھاری حکومت ہے,
جس کے دور میں فی 40کلو گندم کا ریٹ مارکیٹ میں 1600روپے من ہے اور یہی گندم سستے داموں 1330روپے میں فلور ملز کو دی جا رہی ہے, فلور ملز روزانہ کی بنیاد میں سستے داموں حاصل کردہ گندم اور آٹا افغانستان سمگل کر کے کروڑوں کما رہے ہیں,
یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ ایک دو ماہ میں آٹے گندم کا بحران ملک میں پیدا ہو جائے گا, پھر اس بحران پر قابو پانے کے لیے گندم مہنگے داموں باہر سے منگوائی جائے گی,,,
مارکیٹ میں چینی کا ریٹ 70سے75روپے کلو ہے جبکہ بچھلے 6سالوں سے گنے کا ریٹ 180روپے ہے, 100کلو گنے سے 12سے 11کلو 50گرام چینی بنتی ہے ،جس کی موجودہ نرخ کے لحاظ سے پرچون مارکیٹ ویلیو تقریبا 800روپے روپے بنتی ہے ،
1000کلو گنے سے چینی کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں جس میں مڈھ 140 راب 180کلو نکلتی ہے جو بالترتیب 420 اور 2700روپے میں فروخت ہوتی ہے ،اس کے علاوہ 29فیصد بگاس ہوتی ہے جو مارکیٹ میں 3100روپے ٹن میں فروخت ہو رہی ہے ،شوگر ملز نے حکومت سے اربوں روپے سبسڈی بھی لی,
اس سب کے باوجود شوگر ملز مالکان جن کی زیادہ تعداد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھی ہے یا بااثر سیاسی شخصیات ہیں جن کا ہر حکومت میں بڑا اثر ہوتا ہے نے زرعی اجناس کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر قائم اداروں کو یرغمال بنا رکھا ہے
اور یہ ادارے پچھلی حکومتوں کی طرح اب بھی زرعی اجناس کے نرخ ملکی اور عالمی مارکیٹ میں طلب و رسد کو مدنظر رکھ کر جاری کرنے کے بجائے جی حضوری تک محدود ہیں ، جہانگیر خان ترین زرعی معشیت کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں کاشت کاروں کو معاشی بدحالی میں دھکیل رہے ہیں,
سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے دور حکومت کو زرعی معشیت کی بہتری کا دور کہا جا سکتا ہے, ان کے دور میں گنے سمیت زرعی اجناس کے بہتر نرخوں کی وجہ سے کاشت کار اور کاشت کاری سے جڑے طبقات اور انڈسٹری کو خوشحالی ملی تھی ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، یہ بہت بڑا قومی المیہ ہے کہ مسلسل ایک زرعی ملک کی زراعت اور کسانوں کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے.ان کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں. معاشی ڈکیتوں اور چوروں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے.
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، آرمی چیف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان وزیر اعلی پنجاب کے نام آج کے دن تک کسانوں نے جتنی بھی فریادیں اور اپیلیں کی ہیں کوئی شنوائی نہیں ہو سکی. کیوں?. شاید نہتے اور کمزور طبقات اور لوگوں کی بات وہاں تک پہنچ ہی نہیں پاتی.
اگر کسی نہ کسی طرح پہنچ بھی جائے تو بر وقت انصاف ملنا مشکل اور دشوار ہوتا ہے. وطن عزیز میں فوری انصاف بھی صرف اور صرف بڑے طاقت ور اور اندھی دھن دولت رکھنے والوں کو ملتا ہے. وہ قومی چور ہوں، ڈکیت ہوں ڈیفالٹر ہوں ان کھوٹے سکوں کی بات اور ضمانت چلتی ہے. مانی جاتی ہے.
کوئی پوچھے حکمرانوں سے کہ صنعت کاروں کی چینی کا ریٹ 45روپے کلو سے 75روپے کلو تک پہنچا دیا گیا ہے. کسانوں کے پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافے کے باوجود گذشتہ چھ سالوں سے گنے کے ریٹ میں اضافہ کیونکر نہیں کیا جا رہا.
ملک کی معیشت اور قومی و عوامی وسائل کو ہڑپ کرنے کرنے والی شوگر مافیا کو نتھ کیوں نہیں ڈالی جا رہی.
شوگر انڈسٹری کی بے مہار اور بے لغام اجاری داری کو ختم کرنے کے لیے ملک بھر میں شوگر انڈسٹری کے قیام اور منظوری کے عمل کو اوپن کیوں نہیں کر دیا جاتا. جس طرح ٹیکسٹائل
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر