فیض میلہ لاھور میں ایک نوجوان انقلابی لڑکی کے انقلابی نعروں کی گونج پر سیخ پا ہونے اور لرزہ بر اندام ہونے والوں کی کپکپی اور پروپیگنڈے کا تحریری جواب ۔۔۔۔۔۔
کامریڈ عاطف جاوید کے قلم سے
برگر بچوں کا انقلاب
اگر آپ کمزور دل لبرل ہیں تو اس پوسٹ سے دور رہیں….
بھائ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ ایک میلے میں جا کر کسی قسم کی نظریاتی بات کر سکیں یا ایسا کوئ نعرہ لگا سکیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ میلہ صرف ایک میلہ نہیں بلکہ کسی تعمیری سرگرمی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے…
ایویں اٹھ کر سوشلزم. سوشلزم. ایشیا ایشیا سرخ سرخ کی رٹ لگادی..
بھئ یہ جو لڑکی ہے بہت ہی پیاری ہے… یارا نعرے چھوڑو بچی چیک کرو…. کیا برگر ماحول ہے یار… جناب بے فکر رہیے یہ چند برگروں کا تماشہ ہے اور ادبی میلے کے نام پر دماغی مشت زنی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں…. بھلا فیض اور اینگلز جیسے رئیس اپنے اے سی کمروں میں بیٹھ کر کونسے انقلاب کی بات کر رہے تھے. بے فکر رہیں ان کے نعروں اور شور سے کونسا ایشیا سرخ ہونے والا ہے.۔۔۔۔؟
یہ وہ جملے اور باتیں ہیں جو میں پچھلے دو دن سے پڑھ اور سُن رہا ہوں اور مجھے اس پر کوئ حیرت نہیں ہوتی کہ یہ جملے ایسے لوگوں کی طرف سے کسے گئے ہیں جو خود کو پراگریسوو، لبرل، آزاد خیال اور ترقی پسند سیاست کا علمبردار سمجھتے ہیں یا خود کو دانشور کہتے ہیں.۔۔۔۔۔
مذہبیوں پر دن رات اس بات پر تنقید کرنے والے کہ” ایک ان دیکھی ہستی پر کیسے ایمان لے آتے ہو” کا اپنا ایمان اس نظام پر اور اس کی ابدیت پر خدا سے بھی زیادہ ہے. الحاد اور لبرل ازم کو ایک مذہب بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور وہ مذہب ہے سرمایہ داری. دن رات سائنس، کائنات آزادی، انسانی نفسیات کا الاپ کرنے والے یہ چند لوگ تبدل و تغیر جیسی عالمگیر حقیقت پر ایک پرسنٹ بھی یقین نہیں رکھتے اور جمود کو اس نظام کا پیغمبر مان کر اس کے ہاتھ پر بعیت کر چکے ہیں….
اور اب تنقید کا معیار کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برگر بچے؟
یہ بلوچستان کے اندھیروں سے آئے ہوئے، یہ سندھ کے جوہڑ جیسے گوٹھوں سے نکلے ہوئے، یہ وانا وزیرستان کے قبرستانوں سے اٹھے ہوئے برگر بچے برگر نہیں ہیں.
برگر بچے گلا نہیں پھاڑ سکتے چیخ نہیں سکتے چِلا نہیں سکتے… وہ تو اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کاکیاں گھماتے ہیں. وہ چالیس لاکھ کی گاڑی میں دو لاکھ کا ووفر لگا کر فیض کو نہیں سنتے بلکہ ہنی سنگھ کے ہیجان انگیز گانے سنتے ہیں….. وہ ایسی جگہ آ کر بھی سیلفیاں لیتے ہیں اور شام کو فیس بک پر واہ واہ لوٹتے ہیں…. برگر بچے دیکھنے ہیں تو میرے ساتھ DHA چلیے کینٹ چلیے….. برگر بچے ہر لڑکی کو بر گر سمجھ کر کھاتے ہیں یا پھر بر گر بچیاں ہر بچے کو شوارما سمجھ کر صفا چٹ کرنا چاہتی ہیں…..
اور یہ بھی وہی برگری سوچ ہے جو ہمارے ان لبرل پراگریسوو لوگوں میں کینسر کی طرح جنم لے چکی ہے. صرف اپنی ذات کی تسکین ،اپنی ذات کی تشفی، میرا گھر، میری جنت ،میری گاڑی ،میرا بنگلہ، میرا بینک بیلنس، میرا آئ فون جیسی عامیانہ سوچ کو سپورٹ کرنے والے، مقابلے کی منڈی میں خود کو اور دوسروں کو جنس بنا کر پیش کرنے جیسی سوچ کی ترویج کرنے والے، انفرادیت کے اس قدر قائل ہو چکے ہیں کہ اجتماعیت کا ہلکا سا نعرہ بھی ان کے کان کے پردے پھاڑ دیتا ہے…
ذرا ان کے سامنے ان برگرز کا ذکر کر لیتے ہیں جنہوں نے اپنے اے سی کمروں میں بیٹھ کر انقلاب جیسی عیاشی کی….
کارل مارکس کس برگر فیملی کا برگر بچہ تھا کہ جس نے اپنی پوری زندگی صعوبتوں میں گزار کر ایک نظریے کے لیے کام کیا اس کا بینک بیلنس کیا تھا؟ اس کی جائداد کا شمار بتا دیجیے.
فریڈرک اینگلز جیسا سرمایہ دار کس سوچ کے تحت مارکس جیسے سرمائے کے دشمن کو سپورٹ کرتا رہا اس کے سیاسی کام کی پوری مالی معاونت کرتا رہا.؟
ٹراٹسکی کی کتاب میری زندگی پڑھنی چاہیے آپ دوستوں کو اور اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے ایک اچھے بھلے زمیندار کا بیٹا کیوں سائبیریا کے جنگلوں میں بیوی بچوں سمیت قید کاٹتا رہا. کیوں چار سال تک مسلسل ٹرین میں رہ کر انقلاب کے دفاع کے لیے ریڈ آرمی تشکیل دیتا رہا.؟
کیوں لینن جیسا دانشور اپنے نظریات کو بیچ کر زار کا کاسہ لیس نہی بن گیا کیوں انقلاب کے آنے کے وقت تک اپنی زندگی کی آنکھ مچولی کھیلتا رہا؟ . کیوں جلا وطنی کاٹتا رہا.؟
چے گویرا کیوں اپنی ڈاکٹری کا کیرئیر چھوڑ کر ہزاروں یوروز کی آمدنی چھوڑ کر کیوبا کے جنگلوں میں لڑتا رہا.؟
بھگت سنگھ کیوں اپنے باپ کی جائداد اور زمین کو تیاگ کر آزادی اور انقلاب کا متوالا بن کر جدو جہد کرتا رہا اور جس عمر میں "برگر بچے” پپیاں جھپیاں کرتے ہیں اس عمر میں پھانسی پر جھول گیا.؟
فیض کیوں اپنی جاگیر و دولت کے بل بوتے پر کسی وزیر یا مشیر کے عہدے پر فائز نہی ہوا…؟
حبیب جالب نے کیوں اپنا قلم بیچ کر سر کا خطاب نہی لیا اقتدار کے ایوانوں سے….؟
کیوں جھرنا جیسا عام سا ورکر اپنے کان اور ناک پھڑوا کر بھی اور جسم کی کھال ادھڑوا کر بھی انقلاب انقلاب کا نعرہ لگاتا رہا.؟
پاکستان کی جیلوں میں ضیا الحق کے دور میں ایسی داستان روز لکھی جاتی تھی….
کیوں الحمرا کے گراونڈ میں ایک لڑکی اپنے آپ سے باہر ہو کر اپنی جسامت سے بھی زیادہ بڑی آواز میں سرفروشی کے نعرے لگاتی ہے؟
کیوں ہوتا ہے ایسا کہ دنیا کے ارتقا میں کل سے لے کر آج تک انسانوں کا ایک گروہ روایت کے دھارے کے الٹ چلتا ہے.؟
ایسا تب ہوتا ہے جب انسان اپنی ذات کی تسکین سے زیادہ ایک عالمگیر سوچ کے تحت اپنے آپ کو مسلسل انقلابی ارتقا کا حصہ سمجھتا ہے.
جب وہ اپنی ذاتی زندگی کی تسکین سے زیادہ اس بات کا قائل ہوتا ہے کہ ایک کا دکھ سب کا دکھ ہوتا ہے…. جب وہ اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ اس کا یہ عمل اس کی اپنی زندگی کی آسودگی کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ اپنی روشنی کو آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ کر جا رہا ہوتا ہے…..
یہ سوچ انفرادیت پسندوں کے پاس نہیں ہے.. تبدیلی اور انقلاب کے بیج ان بنجر دماغوں پر نہیں گرا کرتے جن کے نزدیک زندگی کی حقیقت اپنی آنکھ کا کھلا رہنا ہوتا ہے….
میں اگر آج مر بھی جاوں تو زندگی گلی محلے سڑک یہاں تک کے میرے اپنے آنگن میں بھی ویسے ہی رواں دواں ہوگی جہاں میرا لاشہ پڑا ہوگا….. فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں سے اس زندگی کو کتنا حصہ دیا ہے جو میرے بعد زندہ رہنے والی ہے…..
آپ لاکھ تنقید کر لیں آپ لاکھ اپنی انفرادیت کا فلسفہ لوگوں پر مسلط کر لیں…. آپ لاکھ مایوسی جیسی عیاشی سے لطف اندوز ہوں آپ لاکھ کچھ نہیں ہو سکتا کچھ نہیں ہو سکتا جیسی عقیدت مندانہ سوچ پر یقین رکھیں… مگر جب تک سرمایہ داری ہے سوشلزم کا نعرہ گونجے گا اور پورے زور سے گونجے گا.
جب تک انفرادیت جیسا ناسور دنیا میں تب تک اجتماعیت کا نعرہ لگے گا… آپ کی جو مرضی اور جو چاہیں کرلیں.۔۔۔۔
تاریخ کے کچرادان تک میں بھی ایسی سوچ کو کبھی کوئی جگہ نہیں ملے گی جو انفرادیت کی قائل. ہو. تاریخ مجھ کو بھولے گی، تاریخ آپ کو بھولے گی، تاریخ برگر بچوں کو بھولے گی اور بھولے گی تو تاریخ اس انفرادیت کو بھولے گی.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پر تاریخ اجتماعیت کے نعرے لگانے والوں، اس کے لیے لڑنے والوں کو کبھی نہیں بھولے گی.. چاہے وہ پھر مارکس جیسا سرمایہ داروں کا نا پسندیدہ انسان ہو یا پھر اس لڑکی جیسی خوبرو اور بظاہر برگر سی دکھنے والی کمزور سی ہستی ہو.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر