مضمون نگار: محسن علی
ڈیرہ اسماعیل خان
ملارمے نے لکھا ہے شاعری خیالات سے نہیں الفاظ سے جنم لیتی ہے۔ یعنی شاعری لفظوں کے بغیر نہیں لکھی جاسکتی ۔ جذبہ اور فکر الفاظ کا حسین لبادہ اوڑھ کر شعر کا روپ دھار لیتے ہیں اور شعر انسان کو لطف اور Wisdom دیتا ہے۔ شاعر خیال کو بنیاد بنا کے شعر لکھتا ہے، دنیا کے ادب میں شاعری کی عمارت خیال کی اینٹ سے تعمیر گئی ہے، لیکن اگر خیال کو عظیم اور مقدس بنا کر پیش کیا جائے تو خیال عقیدہ بن جاتا ہے اس لیے الفاظ اور خیال کے علاوہ شاعری کے لیے ایک ضروری عنصر مقامیت یا فطرت کا ہے ۔ خیال انسان کا رشتہ ایک منٹ میں آسمانوں، ستاروں، سیاروں اور ماورائے دنیا سے جوڑ دیتا ہے جبکہ مقامیت انسان کو اپنی زمین ، دھرتی اور فطرت کے قریب کرتی ہے۔ مقامی شاعری اپنی وسوں، اپنے وسیب اور اپنی دھرتی کی عظمت کا احساس دلاتی ہے۔ جو قوم مقامیت سے جڑی ہوتی ہے وہ مقامی Wisdom سے آگاہ ہونے کے بعد ترقی اور خوشحالی کے لیے دوسری تہذیبوں کی چمک دمک کی طرف نگاہِ حسرت سے نہیں دیکھتی۔
مقامی زبان میں شاعری کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ڈاکٹر اشو لال کا نام مقامی زبان میں شاعری لکھنے کے حوالے سے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ڈاکٹر اشو لال مقامی سرائیکی زبان کے وہ شاعر ہیں جن کی شاعری میں الفاظ اور مواد دونوں مقامیت سے مستعار لیے گئے ہیں۔
زیرِ نظر مضمون میں ڈاکٹر اشو لال صاحب کی شاعری کا جائزہ ان کی کتاب "وسمارا” کے حوالے سے کیا جائے گا۔ وسمارا ڈاکٹر اشو لال کا چھٹا شعری مجموعہ ہے جو اگست 2023 میں عکس پبلیکیشن لاہور کی جانب سے شائع ہوا۔ ڈاکٹر اشو لال صاحب کی کتاب وسمارا مقامی سرائیکی زبان میں شاعری کی منفرد کتاب ہے ۔ اس کتاب میں شعری ہئیت اور موضوعات کے حوالے سے دلچسپ تجربات کیے گئے ہیں۔
شاعر شاعری لکھتے ہوئے موضوعات کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر اشو لال صاحب نے اپنی کتاب وسمارا میں اپنی شاعری کے موضوعات سرائیکی شاعری کے روایتی موضوعات سے ہٹ کر پیش کیے ہیں۔ دوہڑے ماھیے اور گیت وغیرہ سرائیکی شاعری کی مقبول اصناف رہی ہیں جن میں عشق و محبت کے روایتی موضوعات بیان کیے گئے۔ ڈاکٹر اشو لال صاحب موضوعات کے ضمن میں روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنی شاعری کے موضوعات کی سطح بلند رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شاعری کو مقامی دانشور اور مقامیت سے محبت رکھنے والے اہل علم تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ذیل میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب "وسمارا” کے انوکھے اور دلچسپ موضوعات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
مقامی روایتی شاعری کے موضوعات سے ہٹ کر جو نئے موضوعات ڈاکٹر اشو لال صاحب کے شعری مجموعے "وسمارا” میں پیش کیے گئے ہیں اُن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1) جنگ کی مذمّت اور جنگی جنون پر طنز
آدم خور آدم ہتھوں
لکھاں آدم مارے ڳئے
کوئی نئیں کُسکیا
آدم خور شیر ہتھوں
ہک آدم مارا ڳیا
لکھاں بے قصور شیر مارے ڳئے
کوئی نئیں پُچھدا
آدم خور کوݨ اے
( آدم خور: وسمارا ، ص 21)
اپنی نظم آدم خور میں ڈاکٹر اشو لال صاحب جہاں ایک طرف جنگ کی مذمت کرتے ہیں اور جنگی جنون پر طنز کرتے ہیں وہیں دوسری طرف ماحول کے بارے میں انسان کے شدت پسند روئیے پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح ماحول سے متعلق Theological approach کے ضمن میں بھی ڈاکٹر اشو لال یہ پیغام دیتے ہیں کہ بلاشبہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان فطرت کو تسخیر تو کر سکتا ہے لیکن فطرت کا ضیاع نہیں کر سکتا۔ دریا، پہاڑ، جنگل ،اور جنگلی حیات کو تباہ کرنا یا ان کو نقصان پہنچانے کا حق انسان کو کسی نے نہیں دیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی نظم آدم خور میں بین السطور یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اِس عہد کا انسان اتنا ظالم ہو چکا ہے کہ نہ انسان اس سے محفوظ ہیں اور نہ حیوان ۔ آج کے بے رحم انسان سے کوئی اسکے ظلم کا حساب لینے والا نہیں ۔ ایک کہاوت ہے کہ "محبت اور جنگ میں سب جائز ہے” لیکن ڈاکٹر صاحب کی شاعری اس بات کی نفی کرتی ہے ۔ ڈاکٹر اشو لال صاحب جنگ کو ہر صورت میں انسان کی بقا کے لیے ایک مہلت خطرہ سمجھتے ہیں پھر چاہے وہ جنگ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہی کیوں نہ ہو یا کسی بھی نکتہِ نظر کے لیے کیوں نہ لڑی جائے جنگ سے ہمیشہ معصوم انسانوں کی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔
2) خوشی کا تصور
ہر ویلے خوش راہونڑ سکھوں
دل نال دل لاونڑ سکھوں
نچن سکھوں ، گاونڑ سکھوں
پپل تلے ترنجن اگوں
چرغہ ولا کتن سکھوں
مٹھ باجھری چڑیاں اگوں
لالیاں اگوں پاونڑ سکھوں
(لاہوتی۔۔۔ 20: وسمارا، ص 143)
جدید سائنسی دور میں زندگی کی سہولیات اور آسائشیں تو بہت زیادہ ہو گئی ہیں لیکن جدید ٹیکنالوجی کے باوجود انسان حقیقی خوشی کو حاصل کرنے اور ذہنی سکون کے حصول میں ناکام ہو گیا ہے۔ جدید دور کی چکا چوند روشنی میں انسان حقیقی خوشی کے لیے ترستا ہے، گلوبلائزیشن اور جدید آئی ٹی ٹیکنالوجی نے انسان کو تنہا کر دیا ہے۔ خوشی دراصل انسان کی اندرونی کیفیت کا نام ہے ڈاکٹر اشو لال لکھتے ہیں کہ خوشی کے حصول کا واحد ذریعہ فطرت سے محبت ہے اپنی ثقافت تہذیب اور مقامیت ہی انسان کو حقیقی خوشی دے سکتی ہے یعنی فطرت ہی حقیقی خوشی کے حصول کا واحد راستہ ہے۔ ڈاکٹر اشو لال صاحب کا ماننا ہے کہ آپ فطرت سے محبت کریں بدلے میں فطرت بھی آپ سے محبت کرے گی۔ رقص، موسیقی ،حیوانات اور نباتات سے محبت کرنا انسان کی نیچر میں شامل ہے اور یہ عوامل انسان کی خوشی کا باعث ہیں۔
3) وقت کا تصور
وڈے وڈے مغالطاں اچوں
ھک وڈا مغالطہ وقت اے
جیڑھا روز دی روز
نویں نویں مغالطے بہہ تُلیندے
جتنی دیر اچ
اساں ایکوں
تولنڑ دی کوشش کریندے ہیں
اے پرانا تھی ویندے
(وقت : وسمارا، ص 39)
یونانی فلسفی ہیرا کلائٹس نے کہا تھا کہ "ہم ایک دریا میں دو مرتبہ قدم نہیں رکھ سکتے” یعنی ہر چیز مسلسل تبدیلی کے عمل میں ہے۔ دریا بھی مسلسل روانی کے عمل میں ہے اس لیے ہم ایک دریا کو دو مرتبہ چھو بھی نہیں سکتے۔
وقت کا شمار بھی دریا کی طرح ہے وقت ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے۔ وقت دنیا کا بہت بڑا نفع بھی ہے اور خسارہ بھی، ہم جوں جوں وقت کے دھارے پر بہتے ہیں تو تو اسے ضائع کر دیتے ہیں اشو لال اپنی نظم "وقت” میں وقت کو مغالطے سے تشبیہ دیتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہم جب جب وقت کو محسوس کرنے یا وقت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ہیں وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ انسان دراصل مغالطے کی بنیاد پر وقت کو ٹھوس یا جامد شئے تصور کرتا ہے لیکن حقیقت میں وقت ٹھوس یا جامد نہیں ہے وقت تو دریا کے پانی کی طرح رواں دواں ہے۔
4) مجرد اشیا کو مجسم کرنا
سنگ تراش ہووے کوئی تاں پتھر وی
اندروں اپنڑیں جیندا جاگدا تھیا
اوہو تارا دھمی ویلے ملدا ہے
جیڑھا تارا شام کوں ودا تھیا
(لاہوتی۔۔۔17 : وسمارا، ص 139)
انگریزی شاعری میں تجسم کاری (Personification )کی ٹیکنیک کو اکثر شاعری میں استعمال کیا گیا ہے۔ تجسیم کاری کا مطلب خیالات تصورات کو مجسم شکل میں پیش کرنا یا بے جان اشیاء کو جاندار اشیاء کے پیکر میں ڈھال دینا۔ ڈاکٹر اشو لال صاحب کی شاعری میں تجسیم کاری سے ملتے جلتے نمونے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ڈاکٹر اشو لال صاحب کے نزدیک دنیا کی کوئی شے بھی بے جان نہیں ہے یعنی اس کائنات میں ہر چیز کوئی نہ کوئی function پرفارم کرتی ہے۔ انسان کی طرح دنیا کی دیگر اشیاء بھی قابلِ احترام ہیں چاہے وہ حیوانات ہوں یا نباتات شجر ہوں یا حجر غرض ہر شئے کائنات کی اہم اکائی ہے۔ اردو کے مشہور شاعر مجید امجد کے ہاں بھی اس تصور کی جھلک ملتی ہے مجید امجد نے اپنی کچھ نظموں میں بے جان اشیاء کو انسانی اوصاف سے بھی متصف کیا ہے۔
کائنات کے مظاہر اور موجودات انسان کو خالق حقیقی سے محبت کا درس دیتے ہیں۔ رنگ برنگے پھول، پُر اِسرار سمندر، پُر ہول میدان، گھنے سر سبز جنگل، رواں دواں دریا اور فلک پوش پہاڑ خدا تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہیں۔ ان تمام مظاہرِ کائنات سے محبت انسان کی فطرت ہے۔
5) جینے کی امنگ اور زندگی سے پیار
جسم ھک بُتھا لباس اے
اَنا ھک نا آسودہ بلاں اے
علم ھک عیار قسم دی
چالبازی اے
"میں” ایں چالبازی دا
سب توں وڈا ہتھیار اے
اساں اے بُتھا لباس
ترک پئے کریندے ہیں
کہیں دے مرن توں پہلے
کہیں دے مرن توں بعد
دول وجاؤ،
جشن مناؤ ،
رقص کرو ،
متاں جی پوووں
(اوشو نال مل کرائیں: وسمارا، ص 117ـ118)
"اوشو سے مل کر ” ڈاکٹر اشو لال صاحب کی ایک منفرد نظم ہے۔ اوشو ہندوستان میں جنم لینے والا ایک فلسفی اور لکھاری تھے جس نے فلسفہ، روحانیات اور نفسیات کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ اوشو نے انسانی آزادی اور Personal Growth کا پرچار کیا۔ اپنی نظم "اوشو سے مل کر ” میں ڈاکٹر اشو لال صاحب یہ پیغام دیتے ہیں کہ جینے کی امنگ ہی اصل زندگی ہے زیادہ علم اور گیان انسان کو غرور اور تکبر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یعنی زندگی جینے کے لیے بہت زیادہ علم اور معلومات کی ضرورت نہیں بلکہ زندگی جینے کے لیے رقص ، موسیقی آرٹ، ادب اور ثقافت سے پیار ہونا ضروری ہے۔ زندگی تو دراصل ایک رقص ہے، ایک ایسا رقص جس میں نہ کوئی ماضی کا پچھتاوا ہو اور نہ مستقبل کا کوئی خوف۔ محبت، تہذیب اور ثقافت کے سہارے خوشی خوشی زندگی گزارنا اور خوشی خوشی موت کا خوش گوار انتظار کرنا ہی زندگی ہے۔
مجموعی طور پر "وسمارا” مقامی زبان میں شاعری کی منفرد کتاب ہے جس میں موضوعات کا تنوع اور خیالات کی گہرائی موجود ہے۔ وسمارا کے شعری مجموعے کی شاعری مقامی الفاظ، مقامی استعاروں اور تلمیحات کی وجہ سے ایک سے زائد مرتبہ مطالعے( Reading )کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ وسمارا کے شعروں سے شناسائی کے لیے آپ کو اس کتاب کی متعدد بار ورق گردانی کرنی پڑے لیکن یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وسمارا کے تفصیلی مطالعے سے آپ لطف اندوز ہوں گے اور وسمارا کی شاعری میں معنیِ تہہ دار موجود پائیں گے کیونکہ ڈاکٹر اشو لال صاحب اپنی شاعری میں معانی آفرینی پیدا کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ڈاکٹر اشو لال صاحب فکر اور فن کی حدود سے واقف شاعر ہیں اس لیے انکا کلام مؤثر اور دل موہ لینے والا ہے۔
بات دل سے نکل کے دل میں بسے
زندگی بھی یہی ہے فن بھی یہی
ڈاکٹر اشو لال صاحب کی شاعری بھی دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھتی ہے۔ انکی شاعری میں جذبہ اور فکر ہم آمیز ہوتے ہیں اور جہاں جذبہ اور فکر ہم آمیز ہو جائیں وہاں عظیم شاعری کا جنم ہوتا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور