سجاد جہانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج چھپ چکا ہے‘ شام دھیرے دھیرے گہری ہورہی ہے۔ ملتان شہر کے حرم دروازے کے باہر ڈھلان پر خاصا ہجوم ہے۔ بازار بند ہورہے ہیں۔ قرب و جوار اور شہر سے جو لوگ خریداری کو آئے تھے‘ وہ اب واپسی کے لئے سواریاں تلاش کررہے ہیں۔ تانگوں کے پہیوں کے دُھرے اِک دوجے سے رگڑ رہے ہیں۔ کوچوان یوں آوازیں لگاتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ زیادہ تانگوں کارُخ بیرون دولت دروازہ، قلعہ کے شمالی جانب جو لاری اڈا ہے‘ اس کی طرف ہے۔ کچھ سیدھے نشاط روڈ سے ہو کر سٹی ریلوے سٹیشن کی طرف جانے کی آوازیں لگارہے ہیں۔ چند ایک ایسے بھی ہیں جن کا رُخ چوک شہیداں کی طرف ہے‘ وہ ریلوے روڈ سے ہوتے ہوئے چھاﺅنی کے ریلوے سٹیشن جائیں گے۔
قریب آدھ پون گھنٹے میں یہ بھیڑ چھٹ جاتی ہے۔ اب دو قسم کے لوگ اس چوک پر نظر آرہے ہیں۔ کچھ تو شہر کے باسی ہیں جو دال مونگ لینے کو آئے ہیں۔ شاپروں کا بدبودار زمانہ آنے میں ابھی بہت وقت ہے‘ ابھی تو پیپل کے بڑے بڑے پتوں پر دال ڈال کر گاہک کو دی جاتی ہے۔ یہ اُس زمانے کی ڈسپوزیبل کراکری ہے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو یا تو خود دکان دار ہیں یا دکانوں پر ملازم۔ ان کو دکان سمیٹتے کچھ وقت لگ گیا ہے‘ سو وہ اب گھروں کو جانے کے لئے نکلے ہیں۔ جن کے گھر شہر میں ہیں‘ وہ تو بیویوں یا ماﺅں کے ہاتھ کا پکا کھائیں گے‘ کچھ ایسے بھی ہیں جو مضافات سے تلاشِ رزق میں ملتان آئے ہیں‘ وہ چھڑے ہیں‘ سو یہیں سڑک کے کنارے کسی ٹھیلے یا کسی سستے تنور ہوٹل سے کچھ کھاتے ہوئے اپنی کوٹھڑیوں کو جائیں گے۔
یہ بھیڑ بھی کچھ دیر میں ختم ہوگئی ہے۔ اب مسجدوں میں عشاء کی اذانیں ہونے لگی ہیں۔ تھوڑا وقت اور گزر جاتا ہے ۔نمازی گھروں کو لوٹ رہے ہیں‘ رات بھیگنے لگی ہے ۔حرم دروازے کا چوک اور یہاں سے سیدھی سٹی سٹیشن کو جانے والی سڑک‘ جسے نشاط روڈ کہتے ہیں‘ پھر سے رونق پکڑنے لگے ہیں۔ چوک پر سواریوں سے لدے پھندے تانگے آرہے ہیں۔ کچھ بڑے سجے سجائے تانگے ہیں جن میں جتے گھوڑے بھی اپنی اعلیٰ نسل کا پتہ دے رہے ہیں۔ یہ کھاتے پیتے لوگوں کے ذاتی تانگے ہیں۔ سائیکل اور سکوٹروں پر بھی لوگ آرہے ہیں۔ کوئی کوئی موٹر بھی نظر آجاتی ہے۔ نشاط روڈ پر دن بھر لوہے کا اور پشاوری چپلوں کا کاروبار ہوتا ہے مگر اب یہاں اور ہی طرح کی دکانیں نظر آرہی ہیں جیسے یکایک کوئی میلے کا بازار سج گیا ہو۔
کباب لگ رہے ہیں‘ وہ مٹن چانپیں جن کے ساتھ لٹکتا گوشت لکڑی کے ہتھوڑے سے کوٹ کوٹ کر خوب پھیلادیا گیا ہے‘ دہکتے کوئلوں پر رکھی جالیوں پر بھونی جارہی ہیں۔ کسی ہوٹل سے دیسی گھی میں پکے کھانوں کی خوش بو اٹھتی ہے‘ کہیں شامی کباب تلے جارہے ہیں۔ جا بہ جا پان بیڑی کی دکانیں اور خوانچے ہیں۔ ان دکانوں سے پان لگ لگ کر گُل روڈ اور اس سے ملحقہ گلیوں میں جارہے ہیں۔ کچھ سیر دیکھنے والے وہیں کھڑے پان لگوارہے ہیں۔ یہ پان لگ چکیں گے تو دکان دار نازک پتہ تہہ کر کے اپنے انگوٹھے اور انگشتِ شہادت کی چٹکی میں نرمی سے پکڑ کر گاہک کی طرف بڑھائے گا۔ اگر تو گاہک نے چہرہ آگے کر کے دہن کھول دیا تو دکان دار یہ پان اُس کے منہ میں رکھ دے گا وگرنہ گاہک دوسرے کنارے سے پان کو چٹکی میں وصول کر کے اپنے کلےّ میں رکھ لے گا۔ پان پکڑتے ہوئے چٹکی کو جو کتھا لگ گیا تھا‘ اسے گاہک سر کے پچھلے بالوں میں صاف کرتے ہوئے پان کی قیمت ادا کر کے‘ بیڑی کا بنڈل یا دو چار سگریٹ طلب کرے گا۔
نشاط روڈ پر انہیں دکانوں کی وجہ سے خاصی روشنی نظر آتی ہے مگر رکئے نہیں‘ چلتے رہئے‘ اصل روشنیاں اور رونق تو ابھی آپ کی منتظر ہیں۔ جوں جوں آپ آگے بڑھ رہے ہیں‘ بھیڑ بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اب آپ ایک سہہ رستے پر پہنچ چکے ہیں۔ یہاں سے الٹے ہاتھ کو جو راستہ ہے‘ وہ ذرا ترچھا ہے اور آگے جا کر یہ پاک دروازے کے سامنے نکلے گا۔ اِسے گُل روڈ کہتے ہیں۔ یہ ملتان کا بازارِ حسن ہے اور گل روڈ پر جو آپ نے گردن پھیر کر نظر ڈالی ہے تو گویا رنگ و نور کا طوفان موج زَن ہے۔ بھیڑ ایسی کہ شانے سے شانہ ٹکرائے بغیر گزر ممکن نہیں۔ گل روڈ پر بھی چلتے ہیں مگر پہلے یہاں کانقشہ جان لیجئے۔
شور خاصا ہے‘ کیونکہ جہاں آپ کھڑے ہیں‘ ایک تو وہاں بھیڑ بہت ہے‘ دوسرا یہ دائیں جانب جو زلف تراش دکان کھولے بیٹھا ہے‘ اس کے پہلو میں پان والا ہے اور دوسری جانب کبابئے کی دکان سے دھواں اٹھتا ہے، ان کے درمیان سے جو تنگ سی سیڑھیاں اوپر جارہی ہیں‘ وہ بالاخانوں کی طرف لے کر جاتی ہیں جہاں غازے اور آرائشی پاﺅڈر کی تہوں تلے چہروں کی بے رنگی چھپائی گئی ہے تاکہ ”مال“ تازہ دکھائی دے۔ وہاں اوپر سے طبلے‘ ڈھولک اور تیز آواز والے ہارمونیم‘ جسے "ٹانٹا” کہاجاتا ہے‘ کی آوازیں آتی ہیں۔ اس تیز موسیقی کے پیچھے گھنگھرو چھنکتے ہیں اور چونکہ ابھی ساﺅنڈ سسٹم کا رواج نہیں ہوا‘ سو گانے والی کی آواز ان سب جھنکاروں کے پیچھے پیچھے سنائی دیتی ہے مگر بہت ہی سُر میں. اس سب کچھ نے مل کر عجیب شور برپا کررکھا ہے مگر آپ ذرا کان قریب لائیں تو بتاﺅں کہ وہ دیکھیں سامنے سڑک دو شاخہ ہوگئی ہے۔ سیدھی تو یہی نشاط روڈ ہے اور یہ جو دائیں کو پھوٹتی ہے‘ اسے شاہ رسال روڈ کہتے ہیں۔ شاہ رسال روڈ پر بھی کچھ بالا خانے ہیں مگر کم‘ اس لئے اِدھر ہجوم بھی کم ہے۔ تھوڑا آگے جا کر شاہ رسال روڈ پر رونق ختم ہوجائے گی۔اس طرف بالا خانے تو کم ہیں مگر نشاط روڈ اور شاہ رسال روڈ پر کچھ عالی شان مکان ہیں، یہ شہر اور علاقے کے رﺅسا کے ہیں اور کچھ خوش حال طوائفوں کے۔ یہاں انہوں نے مکان کیوں بنا رکھے ہیں؟ یہ ذرا آگے چل کر آپ کو پتہ چل جائے گا۔ان دونوں سڑکوں کے دائیں بائیں جوتنگ گلیاں ہیں‘ ان میں سازندوں کے مکانات ہیں۔ وہ استاد جو کوٹھوں پر مختلف ساز بجاتے ہیں. نسبتاً کم وسائل والی طوائفوں کے گھر بھی ہیں۔ وہ طوائفیں جن کا گل روڈ پر کوٹھا ہے مگر وہ کرائے پر لے رکھا ہے۔ رہائش یہاں نشاط روڈ اور شاہ رسال روڈ پر سے پھوٹنے والی گلیوں میں ہے۔ ان گلیوں نے پاکستانی موسیقی کو اور فلم انڈسٹری کو بڑے بڑے نام دئیے ہیں۔ ناہید اختر سے لے کراقبال بانو تک اور انجمن سے لے کر ریما تک۔
آئیے اب گل روڈ پر چلتے ہیں۔ یہاں وہی سماں ہے جو میلے میں ہوتا ہے۔ دکانوں پر‘ کھوکھوں میں ریڈیو بج رہے ہیں۔ لکڑی کی چھڑیوں پر‘ کلائیوں میں پہننے والے تازہ پھولوں کے گجرے پروئے گل فروش یہاں وہاں پھرتے ہیں۔ بھیڑ کی وجہ سے گل فروش نے اپنی چھڑی سر سے اونچی کررکھی ہے کہ لوگوں سے ٹکرا کر پھولوں کی پتیاں نہ ٹوٹنے لگیں۔ چنانچہ یہ گل فروش دور سے ہی نظر آجاتے ہیں۔ ان گل فروشوں سے گجرے اور ہار‘ اس بھیڑ میں کوئی خال ہی خریدے گا۔ کوئی دوچار جو اپنی کسی منظورِ نظر کو ملنے جارہے ہیں دو گجرے لے لیں گے وگرنہ ان پھول والوں کی اصل فروخت تو اوپر چوباروں میں ہوتی ہے۔ اس لئے ان کی نظریں بھی اوپر کھڑکیوں اور دریچوں پر لگی ہیں۔ ان دریچوں میں”حُسن“ سجا ہے۔ بالاخانوں میں روشنی کا اہتمام سِوا ہے۔ "مال” چونکہ مصنوعی ہے سو تیز روشنی سے چمک دمک بڑھا کر نظروں کو خیرہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس بازار میں اصلی نگینے بھی ہیں جن کے حسن کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے اور گلے میں بھگوان بیٹھا سُر لگاتا ہے مگر وہ یوں بالاخانوں کے شوکیس میں سجائے نہیں جاتے۔
اُن کا رقص و گیت خواص کے لئے مخصوص ہے‘ ہر کہہ و مہ کو وہ میسر نہیں۔ وہ کسی خان صاحب‘ ملک صاحب یا نواب صاحب کی منظورِ نظر ہے اور انہی کے لئے مخصوص۔ یہاں ” نواب“ کی اصطلاح پڑھ کر آپ اودھ کے صدرمقام لکھنؤ نہ پہنچ جائیے گا‘ یہاں ملتان میں بھی کئی خوانین اپنے نامِ نامی سے قبل نواب کا سابقہ استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال! میں گزارش کررہا تھا‘ ان درودیوار کے پیچھے اچھا مال بھی موجود ہے مگر اسے دریچوں میں بیٹھ کر ایرے غیرے کو دعوتِ نظارہ دینے کی حاجت نہیں کہ اس کے قدردان موجود ہیں ۔
پھول والوں کی بات ہورہی تھی کہ اُن کی نظریں اوپر کھڑکیوں میں ہیں۔ یوں تو بازارمیں پھرتے سبھی لوگوں کی نظریں اوپر ہیں کہ ان میں سے اکثریت تو آئی ہی صرف نظر بازی کو ہے مگر پھول والا نظر باز نہیں‘ وہ تو اپنی گاہکی کی تلاش میں ہے۔ وہ اس انتظار میں ہے کہ ابھی کسی چوبارے کی کھڑکی سے متلاشی نگاہیں نیچے اتر کے اس کی نظروں سے ٹکرائیں گی اور اشارہ کریں گی۔ وہ لپکتا ہوا تنگ زینہ چڑھ کر اوپر چلاجائے گا۔ ایک مختصر سا صحن گزر کے اُس کمرے کا دروازہ نظر آئے گا جس کی پرلی دیوار کی کھڑکی بازار میں کھلتی ہے‘ اسی کھڑکی سے پھول والے کو اشارہ کر کے بلایا گیا تھا۔ ممکن ہے اس نیم روشن مختصر صحن سے گزرتے ہوئے اسے کسی کونے کھدرے سے بلغم بھری چھاتی سے راستہ بنا کر آتے جاتے سانس کی کھڑکھڑاہٹ بھی سنائی دے جائے۔ درمیان میں بوجھل اور تھکی ہوئی کھانسی بھی سماعت سے ٹکرا سکتی ہے۔ یہ اس کوٹھے کی وہ ازکارِ رفتہ بڈھی طوائف ہے جو اَب استادوں کے پہلو میں بیٹھ کر گاہکوں کے سامنے ناچتی اپنی پوتی یا نواسی کی بلائیں لینے کے قابل بھی نہیں رہی۔ دن میں تو اس کی قدر کی جاتی ہے کہ یہ اپنے تجربے کی روشنی میں اگلی نسل کی تربیت کیا کرتی ہے تاہم دھندے کا وقت اس کو اندھیرے اکلاپے کے ساتھ گزارنا پڑتا ہے۔
پھول والا یہاں سے گزر کر اماں کا حال پوچھتا ہوا دروازے کے پٹ کھولتا ہے تو اِک الگ جہان آباد ہے۔ خوشبو اور روشنی کا طوفان ہے۔ ریشمی لباسوں کے رنگ ہیں اور سرسراہٹیں۔ دیواروں پر تصاویر کے فریم ٹنگے ہیں جس میں اس کوٹھے کی فتنہ ساماں حسینائیں جلوے دکھاتی ہیں۔ سفید براق چادروں کا فرش ہے۔ چادروں کے نیچے دبیز قالین ہے کہ نشست آرام دہ رہے۔ دائیں دیوار کے ساتھ استاد بیٹھے ہیں۔ ہارمونیم ہے‘ سارنگی اور طبلہ۔ ان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر بھاری جسم کی بائی ہے جس کے نام سے یہ بالا خانہ پہچانا جاتا ہے۔ وہ کھڑکی جو بازار کی طرف کھلتی ہے‘ اس کے پٹ بھیڑ دئیے گئے ہیں۔ اس کھڑکی کے سامنے اَب دو حسینائیں بیٹھی ہیں۔ ایک نے بھاری کام والی ریشمی پشواز پہن رکھی ہے جو گھٹنوں سے نیچے تک آتی ہے۔پشواز کے ساتھ اسی رنگ کا چوڑی دار پاجامہ ہے۔ وہ پاجامے کے اوپر ہی اپنی پنڈلیوں پر گھنگھرﺅں کے بند باندھ رہی ہے۔ اس کے ہاتھ گورے اور بھرے بھرے ہیں۔ پیر بھی یوں چمک رہے ہیں کہ ان پر نظر نہیں ٹھہرتی۔ سرخ رنگ میں رنگے ناخن اور پیروں کی چھت پر مہندی سے بنے باریک باریک پتیوں والے پھول۔ میدے میں شہد ملی رنگت والے پیروں پر مہندی کے نقش و نگار نے حسن کو دوآتشہ کردیا ہے۔یہی ہاتھ‘ پیر‘ گردن اور چہرہ ہی تو حُسن کے خریدار کو پہلی نظر میں دکھائی پڑتا ہے، سو ان اعضاء کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ دوسری لڑکی مناسب شکل و صورت کی ہے۔ جوانی کی بہار تو اس پر بھی ہے مگر گھنگھرو والی کے سامنے، اس کی جوانی کا چراغ جل نہیں پارہا۔ اگر منظر سے گھنگھرو والی کو ہٹادیا جائے تو نیلے رنگ کی شلوار قمیص والی یہ دوسری لڑکی بھی کچھ کم حسیں نہیں۔
پھولوں والا جس دروازے سے اندر آیا ہے‘ اس کے بائیں جانب والی دیوار کے ساتھ تین شرفا آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں۔ ان کی کمروں کے پیچھے ریشمی غلاف والے گاﺅ تکئے دھرے ہیں۔ پھولوں والا سلام کرتا ہے اور سیدھا شرفا کی طرف جاتا ہے۔ اپنی لکڑی کی خوب گول گول گھڑی ہوئی چھڑی سے ایک ایک ہار اتارتا ہے اور باری باری تینوں کے گلے میں ڈال دیتا ہے۔ پھر وہ ان کو ایک ایک گجرا بھی تھمادیتا ہے۔ گھنگھرو بندھ چکے ہیں‘ وہ لڑکی اٹھتی ہے اور چھن چھن کرتی سب سے پہلے درمیان والے کے سامنے اپنے پنجے موڑ کر گھٹنے فرش پر ٹکاتی ہے اور بالائی جسم کا وزن کھڑے پیروں پر ڈال کر بیٹھ جاتی ہے۔وہ دایاں ہاتھ آگے بڑھاتی ہے۔ مرد ہاتھ پکڑ کر اس کا گداز پن تولتا ہے اور گجرا اس کی کلائی میں پہنا دیتا ہے۔ گجرا پہن کر وہ مسکراتی ہے‘ پپوٹوں پر لگائی گئی مصنوعی لمبی لمبی پلکیں اٹھا کر شکریہ ادا کرتی ہے۔ پھر دوسرے اور تیسرے کے پاس جاکر گجرا پہنتی ہے۔ تیسرا تو اپنے گلے کا ہار بھی اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیتا ہے۔ پھول والا ابھی کھڑا ہے۔ درمیان والا کرتے کی بغلی جیب سے ایک نوٹ نکال کر پھول والے کو دیتا ہے۔ یہ نوٹ گانا سننے والی کی مالی حیثیت کا پتہ دیا کرتا ہے۔ بہرحال کم سے کم بھی جو رقم پھول والے کو ملتی ہے وہ عام بازار کی نسبت چار پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ وہ سلام کر کے رخصت ہوجاتا ہے اور دروازہ بھیڑ دیا جاتا ہے۔
اب استادوں کے ساتھ بیٹھی بائی پوچھتی ہے ”کیا سنیں گے؟“ اگر تو کوئی صاحبِ ذوق ہے تو اپنی پسند کی غزل‘ ٹھمری یا کسی راگ کا خیال بتادیتا ہے۔ اکثریت یہی کہتی ہے کہ کچھ بھی سنادیں۔ سارنگی والا اپنا گز تولتا ہے۔ طبلے والا جوڑی پر پاﺅڈر چھڑک کر اسے ہتھیلی سے دائیں اور بائیں پر ملتا ہے۔ ہارمونیم والے نے اپنے ساز کا پنکھا کھول لیا ہے۔ اب جو فرمائش ہوئی ہے یا جو بائی نے بجانے کے لئے کہا ہے‘ سارنگی والا استاد اُس کے سُر چھیڑتا ہے۔ ہارمونیم والا اُس کے ساتھ ملنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ جو نیلے سوٹ والی نسبتاً کم رو لڑکی تھی‘ وہ الاپ کرتی ہے کہ ماحول بن سکے۔ گھنگھرو والی اب کمرے کے درمیان میں یوں بیٹھی ہے کہ بایاں گھٹنا اس نے آلتی پالتی کے انداز میں موڑ رکھا ہے جبکہ دائیں ٹانگ نصف موڑ کر گھٹنا کھڑا کیا ہوا ہے۔ پشواز کا گھیر چاروں جانب پھیل کے دائرہ بنارہا ہے۔ دائیں پیر کی ایڑی پر وزن دے کر وہ پنجے کو لَے میں دھیرے دھیرے فرش پر مارتی ہے۔ گھنگھرو ہلکی چھنکار سے تال دینے لگتے ہیں۔
گھنگھرو والی رقاصہ بہت اچھی ہے مگر اس کی آواز اور گائیکی اچھی نہیں جبکہ نیلے لباس والی گاتی کمال ہے۔ چنانچہ وہ گائے گی اور یہ پشواز والی رقص کرے گی۔ کئی بالاخانے ایسے بھی ہیں جہاں قدرت نے اپنی فیاضی دکھائی ہے۔ وہاں کی لڑکی نہ صرف شکل صورت میں یکتا ہے بلکہ گانے میں بے حد سریلی اور رقص میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ سو ایسی جگہوں پر وہ گاتی بھی خود ہے اور رقص بھی کرتی ہے۔ رقص کرتے ہوئے گانابے حد مشکل ہے کہ سانس کا زیرو بم متاثر ہوتا ہے چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ گیت کے بول یا غزل کے شعر کہتے ہوئے وہ رک جاتی ہے اور بے حد معمولی حرکت کے ساتھ سُر تال کے مطابق گاتی ہے۔ انتروں (غزل کے شعر یا گیت کے بند) کے مابین جو موسیقی کے وقفے ہیں‘ اُن میں وہ نرت(رقص) کے بھید بھاﺅ دکھاتی ہے۔
نیلے لباس والی کے الاپ کے سُر‘ سارنگی اور ہارمونیم کے سُروں میں باہم شیرو شکر ہوگئے ہیں۔ کمرے کی فضا میں راگ داری کار چاﺅ ہے۔ پشواز والی لڑکی، گیت، ٹھمری یا دادرا‘ جو بھی گایا جارہا ہے‘ اس کے بولوں پر بے آواز لب ہلاتی ہے اور اوپری دھڑ کو دھیرے دھیرے خم اور گھماﺅ دیتی ہے۔ بازو اور ہاتھ سُروں کے ساتھ فضا میں ڈوبتے ابھرتے ہیں۔ جب خوب رچاﺅ ہوچکے گا تو طبلے والا استاد اپنے ساز کی کھال پر انگلیاں نچائے گا، اس کے ساتھ ہی پشواز والی لڑکی اُٹھ کھڑی ہوگی اور اس کے پیر طبلے کی تھاپ پر فرش بجانے لگیں گے۔ لیجئے، الاپ کے بعدگیت لَے پر آگیا ہے۔ کبھی وہ پنجوں کے بل ہوجاتی ہے، کبھی ایڑی سے فرش پر دستک دینے لگتی ہے۔ مگر یہ سب ایک حسنِ ترتیب کے ساتھ ہے کہ گھنگھرو تال سے باہر نہیں ہوتے۔ نرتکی کے پیر سے لے کر آنکھوں کی پتلیاں تک رقص میں ہیں۔ صرف لب ہی نہیں، آنکھیں بھی گیت کی شاعری گارہی ہیں۔ وہ گھومتی ہے تو پشواز پھیل کر فضا میں ایک گنبد بناتی ہے۔ فرش پر بیٹھے شرفا کی نظریں اس گنبد کے نیچے چوڑی دار پاجامہ میں پھنسی سڈول پنڈلیوں اور رانوں پر مرکوز ہوجاتی ہیں اور ہاتھ بے اختیار جیب کی طرف چلا گیا ہے۔
جیب سے نوٹ نکلا ہے جسے ہتھیلی پر رکھ کر یوں آگے بڑھایا گیا ہے جیسے نذر پیش کی جارہی ہو۔ پشواز والی لڑکی نرت کاری کرتی ہوئی آتی ہے اور بڑی نزاکت سے نوٹ اٹھالیتی ہے۔ نوٹ والا ہاتھ ماتھے تک لے جا کر سلام کی صورت شکریہ ادا کرتی ہے۔ جب تک گانا چلے گا، نوٹ پیش کئے جاتے رہیں گے۔ بلکہ یوں کہئے کہ جب تک نوٹ چلیں گے، گانا بھی جاری رہے گا۔ اگر کسی تماش بین نے جوشِ جذبات میں نوٹ یا گڈی فضا میں اچھال دی ہے اور نوٹ فرش پر بکھر گئے ہیں تو اسے نرتکی ہاتھ نہیں لگائے گی۔ گانا ختم ہونے کے بعد وہی پھول والا فرش سے نوٹ چُنے گا کیونکہ فرش سے نوٹ اٹھانا طوائف کے شایانِ شان نہیں۔
سُر‘ تال اور رقص کا یہ بازار شب کے تیسرے پہر تک آباد رہتا ہے۔ نصف شب کے بعد نیچے بازار کی رونق کم ہونا شروع ہوجائے گی کہ فقط رونقِ بازار دیکھنے کو آئے ہوئے نظر باز تماش بین تھک کر واپس جانے لگیں گے۔ اب یوں بھی مخصوص کوٹھوں پر مخصوص مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگا۔ بالا خانوں کے دریچے چہروں سے خالی ہونے لگے ہیں ۔ جن کے مہمان آیا چاہتے ہیں انہوں نے تو کھڑکیاں بھی بند کردی ہیں۔ مفت خوروں کے دیکھنے کا سامان ختم ہورہا ہے چنانچہ وہ واپسی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ تہی جیبوں والے یوں تو مفت خورے کہلاتے ہیں مگر سچ پوچھئے تو اس بازار کی اصل رونق یہی ہیں۔ بالاخانوں کی نہ سہی مگر بازار کے دکان داروں کے کاروبار کا بڑا حصہ انہی کے دم قدم سے چلتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شب بھر جاری رہنے والے ملتان کے اس بازارِ حسن کے اوقات مقرر کردئیے گئے، یہ نو سے بارہ بجے تک کھلا رہتا۔ شب ساڑھے گیارہ بجے بازار میں سیٹیاں بجنی شروع ہوجاتیں۔ ایک پولیس والے کی ڈیوٹی ہوتی اور چند لوگ بازار والوں کی طرف سے رضاکار مقرر تھے۔ یہ سب بازار میں گھوم گھوم کر منہ میں دبی وِسل بجاتے، یہ اس امر کا اعلان ہوتا کہ اگلے آدھے گھنٹے کے اندر اندر اپنی ”دکان“ سمیٹ لیں۔ بارہ بجے تمام کھڑکیاں، دروازے بند ہوجاتے۔ ضیاءالحق کے زمانہ میں یہ بازار بالکل ہی بند کردیا گیا۔
یہ تو تھا ملتان کے بازارِ حسن کا شبینہ رنگ۔ دن کے وقت یہاں کے مکین خاصی دیر سے بیدار ہوتے ہیں۔ ظہرانے کے وقت ناشتہ ہوتا ہے۔ سہہ پہر ڈھلتی ہے تو تربیت شروع ہوتی ہے۔ لڑکیاں استادوں سے گانے کا ریاض کررہی ہیں۔ وہ کم عمر بچیاں جو ابھی بازار کی زینت بننے کی عمر کو نہیں پہنچیں، ان کو گانے اور رقص کرنے کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کوٹھے کا مستقبل ہیں۔ سارا دن استادوں کے ساتھ چہلیں چل رہی ہیں اور بن دھلے منہ اور الجھے بالوں والی لڑکیاں ریاض کررہی ہیں۔ یہ استاد ایک طرح سے ان کے گھروں کے فردہیں۔ وہ کوٹھے جن کا کاروبار بہت اچھا ہے، ان کے پاس تو اپنے مستقل استاد اور سازندے ہیں. استادوں کے گھر آس پڑوس کے محلوں میں بھی ہیں۔ وہ بھی دوپہر کو گھروں سے نکلتے ہیں اور اپنی اپنی شاگردوں کے گھروں کا رُخ کرتے ہیں۔ دن ڈھلنے تک یہ تربیت و ریاض کا کام ختم ہوجاتا اور پھر رات کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔جو لڑکی گانے میں سریلی نکلتی ہے تو اس کے استاد کا نام بھی بازار میں گونجنے لگتا ہے۔
ملتان‘ برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ظاہر ہے زندگی کے باقی تمام شعبوں کی طرح یہاں بازارِ حسن کی تاریخ بھی قدیم ہے۔تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ چونکہ طوائفوں نے غدر 1857ء میں باغیوں کا ساتھ دیا تھا چنانچہ جب فرنگی برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے اس کاروبار سے وابستہ طبقے کے خلاف قوانین مرتب کئے اوراس کلچر کی حوصلہ شکنی کی۔ تاریخ پر تحقیق کرنے والوں کا کہنا درست ہے مگر ہمارے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریز کو مشرقی موسیقی اور رقص سے کوئی خاص دل چسپی نہ تھی۔ اپنی محافل اور کلبوں میں وہ مغربی طرز کے مخلوط رقص ہی کا اہتمام کرتے تھے مگر اس سامراجی ٹولے کو مشرقی جسم کی ضرورت بہرحال تھی۔ چنانچہ قحبہ خانے(ریڈ لائٹ ایریا) ہر چھاﺅنی میں قائم کئے گئے۔ جس علاقے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا‘ یہاں انگریز نے چار بڑے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ قائم کئے تھے‘ ملتان ان چار میں سے ایک تھا۔
ابھی تک آپ نے جو منظر دیکھا، وہ تھا بالاخانوں میں تھرکنے والی طوائفوں کا مگر ملتان کے بازارِ حسن کا ایک طبقہ اور بھی تھا. یہی ریڈ لائٹ ایریا والا جو کسی نہ کسی صورت اب بھی موجود ہے۔ گل روڈ سے دائیں بائیں جتنی بھی گلیاں پھوٹتی ہیں، تنگ، پیچ دار اور نسبتاً تاریک ہیں۔ یہاں جو عورتیں رہتی تھیں وہ جسم فروشی کے کسب سے وابستہ تھیں اور ”کرسی والیاں“ کہلاتیں۔ ان کا یہ نام یوں پڑا کہ گلی میں کھلنے والے مکان کے دروازے میں یہ کرسی ڈالے بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والوں کو دعوت دیتیں۔ وہیں کھڑے کھڑے پسند اور سودے بازی کے مراحل طے ہوتے اور گاہک کو اندر داخل کرلیا جاتا۔ یہ کاروبار دن بھر چلتا رہتا۔ رات کو بھی ایسی کچھ ممانعت نہ تھی مگر کرسی ڈال کے بیٹھنے کا کام دن میں ہوتا۔ ملتان کا بازارِ حسن گویا شب میں طوائفوں اور دن میں جسم فروش عورتوں کے دم قدم سے آباد رہتا۔ دونوں طبقوں میں بے حد فرق تھا، وہی فرق جو ایک فن کار اور گوشت فروش میں ہوتا ہے۔ طوائفوں اور بالاخانوں کی وجہ سے برصغیر میں موسیقی اور نرت کاری کے فن کو عروج حاصل ہوا۔ برصغیر میں جس قدر گانے والیاں مشہور ہوئیں’ سب کا تعلق انہی بازاروں سے تھا۔ آج بھی اگر آپ کو کوئی سریلی آواز سنائی دیتی ہے تو اس کی ذرا سی کھوج کر کے دیکھ لیں‘ اس کا تعلق بھی پیچھے جا کر بازار سے ہی جڑے گا۔
ویسے تو بازارِ حسن تھوڑے بہت مقامی رسم و رواج کے فرق سے، ایک جیسے ہوا کرتے تھے تاہم ملتان کا بازارِ حسن ایک حوالے سے باقیوں سے مختلف تھا۔ ملتان اور اس کا گردو نواح بنیادی طور پر زمیں داروں اور جاگیرداروں کا علاقہ ہے۔ یہ بڑے لوگ کوٹھے پر جا کر عام لوگوں کی طرح گانا سننا، اپنی شان کے منافی سمجھتے تھے۔ سو ان کے منشی ٹائپ چیلے چانٹے کوٹھوں سے رابطہ میں رہتے اور خبر رکھتے کہ کہاں مال اچھا ہے۔ یہ لوگ طوائفوں کو اپنی حویلی یا ڈیرے پر بلا کر رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوتے۔ کوئی پسند آجاتی تو اسے اپنے لئے مخصوص بھی کرلیتے۔ اس کو خرچہ پانی ماہانہ بنیادوں پر دیا جاتا۔ بعض تو اپنی اس رکھیل کو کوٹھے پر بازار کے اوقات میں کام کرنے کی اجازت دے دیتے مگر زیادہ تر یہ اجازت بھی نہ دیتے۔ ایسی رکھیلوں کے ساتھ جسمانی تعلق بھی استوار ہوتا تھا اور اس میں سے اولادیں بھی ہوجاتیں۔ یہ اولادیں، جاگیردار صاحب کے انتقال کے بعد پس ماندگان کے لئے مقدمہ بازی اور جھگڑوں کا باعث بنتیں۔ ملتان کی عدالتیں ایسے بے شمار مقدمات کی گواہ ہیں۔
اوپر جو ذکر گزرا کہ بازار کے آس پاس کے محلوں میں امراء نے مکانات بنا رکھے تھے تو بازار کے پڑوس میں ان عالی شان مکانات کی وجہ بھی سن لیجئے۔ گردو نواح کے خوانین و سردار، ملک و مہر صاحبان اور نوابین جو اِس تفریح کے کچھ زیادہ ہی رسیا تھے، انہوں نے یہ مکان یہاں شہر میں بنا چھوڑے تھے۔ ان میں ملازمین موجود رہتے۔ دو صورتیں تھیں، منظورِ نظر طوائفیں یا تو ان مکانات میں رہائش رکھتیں، ظاہر ہے ان کا سارا خرچ بذمہ خان صاحب، نواب صاحب ہوتا۔ مہینے میں ایک دو بار تشریف لاتے اور دل پشوری فرما کر پھر سے یہ شرفا، اپنی شرافت گاہوں کو لوٹ جاتے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ منظورِ نظر اپنے کوٹھے پر ہی رہتی اور ناچ گانا کرتی رہتی مگر جب صاحب نے آنا ہوتا تو ملازم خبر کر دیتے کہ فلاں دن سردار صاحب آرہے ہیں ۔ پھر جتنے دن سردار صاحب شہر میں رہتے، منظورِ نظر اپنی ماں کے ساتھ وہیں اس مکان میں سکونت اختیار کرتی۔ اگر گانے کا موڈ ہوتا تو سازندے بھی وہیں بلوالئے جاتے۔ ان مقاصد کے لئے یہ عالی شان مکانات بازار کے قریب بنائے گئے تھے۔
اس فیچر کی تیاری کے سلسلہ میں جب بازار کو جاننے والے پرانے لوگوں کے انٹرویوز کئے تو شہر کے بڑے گھرانوں کی. بہت سی کہانیاں سننے کو نہیں ملیں مگر یہ کوئی اس نوع کا تحقیقی مضمون نہیں ہے کہ کون کون خاندان سے کون کون طوائف وابستہ رہی۔ ہمارا مقصد صرف سرائیکی علاقہ کے صدرمقام، ملتان کے اس قدیمی اور معروف بازارِ حسن کی ایک جھلک اور کچھ مناظر دکھانا ہے جو اَب وقت کے غبار میں کھو چکے ہیں۔ اچھا سمجھیں یا برا مگر حقیقت یہی ہے کہ ایک زمانے تک یہ بازار ہماری روزمرہ معاشرت کا حصہ رہے ہیں۔ اِن کو بند کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ اب جگہ جگہ بغیر بورڈ والی دکانیں کھل گئی ہیں۔
ادب اپنے زمانے کی معاشرت کا پتہ دیتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے مشہور افسانہ ” کنجری“ کا مرکزی کردار ” تاجی“ جس کا اصل نام زرتاج ہے، ملتان کے بازارِ حسن کی معروف طوائف ہے جو ایک کھاتے پیتے شخص سہراب خان سے شادی کرلیتی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عذرا شوذب نے اپنے تحقیقی مقالہ ” ملتان میں اردو نثر کا ارتقا“ میں ملتان کے ایک ہندو ناول نگار لالہ مول چند کے ناول ” چلتا پرزہ المعروف بگلا بھگت“ کا ذکر کیا ہے۔ یہ ناول 1900ء میں چھپا۔ اس کی کہانی ایک ہندو تاجر کندن لعل اور بازارِ حسن کی طوائف مہرالنساءکے گرد گھومتی ہے۔ اس ناول میں ملتانی معاشرت کی عکاسی کی گئی ہے۔ آئیے سوا سو سال پہلے کے ملتان کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔
کندن لعل ایک دکان دار ہے، وہ ایک لمبے چوڑے کاروباری دورے کے بعد ملتان لوٹتا ہے تو خاصا سرمایہ اس کے پاس ہے۔ وہ اپنی دکان کو جنرل شاپ میں بدل دیتاہے اور سود پر رقم دینے لگتا ہے۔ شادی بھی کرتا ہے مگر بیگم سے اس کی نہیں بن پاتی۔ دلہن روٹھ کر میکے جا بیٹھی ہے۔ کندن لعل کی دکان پر ایک روز مہر النساء ریشمی مخمل خریدنے آتی ہے اور کندن لعل دل ہار بیٹھتا ہے۔ وہ اپنے دوست پریم چند کے ساتھ شہر کی معروف سیر گاہ، عام خاص باغ پہنچتا ہے۔ یہاں روز شام کے وقت گلزار پور بستی کی طوائفیں جلوس کی شکل میں سیر کرنے کے لئے آتی ہیں۔ اس وقت سڑک پر‘ جو دہلی دروازے سے عام خاص باغ کو آتی ہے، بے شمار دل پھینک عاشق بھی طوائفوں کے اس جلوس کی سیر دیکھنے کو جمع ہوا کرتے ہیں۔ یہاں کند ن لعل پھر سے مہر النسا کو دیکھتا ہے اور اُس کاجنونِ عشق فزوں تر ہوجاتا ہے۔ مٹھائی، پھول اور تحائف سے لدا پھندا مہر النساءکے ڈیرے پر جا پہنچتا ہے۔
اس ناول کی کہانی مختصر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برس کو حذف کر کے دیکھیں تو یہ طوائفیں، ان کی بستیاں، کوٹھے، ڈیرے ملتان کی معاشرت کا ایک ناگزیر حصہ تھے۔ یہ روزمرہ کا ایسا ہی حصہ تھیں جیسے دیگر عام شہری۔ عام خاص باغ جو کبھی ملتان کے آخری گورنر دیوان ساون مل کی حویلی تھی اور اب مدت سے عوامی سیرگاہ ہے‘ یہاں کبھی شہر کی طوائفیں شام کو ہوا کھانے آیا کرتی تھیں۔ یہ طبقات اب بھی موجود ہوں گے مگر حالات کے جبر نے انہیں چھپ چھپا کر دھندا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اب ان کی کوئی مخصوص بستی، محلہ نہیں رہا۔ لالہ مول چند کے اس ناول میں بستی گلزار پور کا ذکر ہوا۔ معلوم نہیں یہ نام اصلی ہے یا فرضی۔ گلزار پور نام کی ایک بستی شہر سے دور دنیا پور روڈ پر ہے مگر اس کا کوئی تعلق ایسے کسی کسب سے نہیں۔ دلی دروازے کا ذکر ہوا کہ طوائفوں کا جلوس اُدھر سے عام خاص باغ کو آنے والی سڑک پر آیا کرتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں ملتان کا بازارِ حسن دہلی گیٹ کے باہر واقع تھا۔
شاہ رسال روڈ‘ ایک بزرگ کے نام سے منسوب ہے۔ اسی سڑک پر ان کا مزار بھی ہے۔ اگر آپ مزار شاہ رسال کے احاطے میں داخل ہوں تو پھاٹک سے گزر کر بائیں طرف مسجد ہے اور اس کے آگے مزار جبکہ دائیں جانب ایک مختصر سبزہ زار ہے، جس میں ایک قبر بھی بنی ہے۔ یہ دربار کے کسی خدمت گار کی قبر ہے۔ اس سبزہ زار کے بعد اکھاڑہ ہے۔ اسے ”اکھاڑہ مستو پہلوان“ کہا جاتا ہے۔ سویرے اکھاڑے کے وقت تو اَب غلام مصطفی عرف مستو پہلوان شاذ ہی وہاں ہوتے ہیں۔ اکھاڑے اور مزار کے درمیان کے صحن کے پار سامنے والی دیوار کے ساتھ بیری کا جسیم درخت کھڑا ہے۔ اس کے نیچے ایک چبوترہ بنا ہے جس پر ایک دری بچھی رہتی ہے۔ اگر آپ شام کے وقت جائیں تو دری پر آلتی پالتی مارے ایک بھاری تن و توش کے صاحب بیٹھے ہوتے ہیں۔ سوجے ہوئے ٹخنے، مضبوط کلائیاں اور گول بھاری چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی۔ یہی مستو پہلوان ہیں۔ ساری عمر اس بازار میں گزر گئی۔ ان کے منہ پر تو لوگ مستو پہلوان کہتے ہیں مگر عدم موجودگی میں مستو کنجر۔ وہ کہتے ہیں ”میں کشمیری ہوں‘ میرے نام کے ساتھ جو لاحقہ ” کنجر“ لگا ہوا ہے، یہ آپ کے صحافیوں کا دیا ہوا ‘اعزاز’ ہے“۔بہر حال وہ ایک روایت سناتے ہیں جو میں نے پہلے کبھی پڑھی نہ سنی مگر مستو پہلوان کا کہنا ہے کہ یہ سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے اور مبنی بر حقیقت ہے۔دروغ بَر گردنِ راوی‘ سنئے وہ کیا بتاتے ہیں۔
صدیاں بیتیں، ایک دفعہ ملتان میں وہ سوکھا پڑا کہ خلقِ خدا کی جان لبوں پر آگئی۔ دعائیں، مناجاتیں بےثمر ہوئیں اور کوئی سبیل بارش کی نظر نہ آئی تو شہر کے نمائندہ لوگ ایک وفد کی صورت میں حضرت بہاﺅ الدین زکریا ملتانی سہروردیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ”یا حضرت! بارگاہِ عزوجل میں ہاتھ بلند کیجئے اور دعا فرمائیے کہ اللہ اپنی رحمت کی بارش عطا کرے۔ سوکھا دور ہو اور خلقِ خدا چین کا سانس لے“۔ حضرت زکریا ملتانی ؒ نے فرمایا کہ دہلی گیٹ جو چکلہ ہے، وہاں چلے جاﺅ اور فلاں بائی کو جا کر کہو۔ وہ دعا کرے تو اللہ بارش ضرور دے گا۔ اہلِ شہر حیران تو ہوئے مگر حضرت کا حکم تھا، سو بائی کے ڈیرے پر گئے اور قصہ سنا کر دعا کی درخواست کی۔
خاتون نے پہلے تو لیت و لعل سے کام لیا کہ میں ایک گنہگار ، ایک ناپسندیدہ پیشے سے وابستہ ، میری دعا سے بھلا کیا ہوگا۔ مگر شہریوں کے اصرار پر اس نے دعا کو ہاتھ اٹھادئیے۔ خدا کی قدرت کہ بارش ہوئی اور جل تھل ایک ہوگیا۔ لوگوں نے پوچھا، یہ کیا راز ہے۔ خاتون بولی اور تو مجھے اپنی کوئی نیکی یاد نہیں آتی‘ ہاں ایک دفعہ میں رات گئے گلی سے گزر رہی تھی۔ کڑاکے کا جاڑا تھا۔ گلی کے ایک گوشے میں کتے کا چھوٹا سا بچہ سردی سے سُکڑا ٹیاﺅں ٹیاﺅں کرتا تھا۔ میرے دل میں جانے کیا آئی کہ اسے اٹھا کر یہاں ڈیرے پر لے آئی، ملازم سے کہا کہ اسے دودھ میں انڈہ پھینٹ کر پلائے۔ سردی سے نجات ملی اور خوراک پیٹ میں گئی تو وہ جیسے جی اٹھا۔ دس بارہ روز یہیں ڈیرے پر رہا پھر خود ہی کہیں چلاگیا۔
مستو پہلوان کا کہنا تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے، کون کیا ہے۔ ہم لا علم انسان کسی کا ظاہر دیکھ کر فتوے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ اہل اللہ کا اور اِن بازاروالوں کا رشتہ بڑا پرانا ہے۔ اہل اللہ چونکہ اندر تک دیکھنے والی نظر رکھتے ہیں سو وہ سامنے والے کے اصل مقام سے واقف ہوتے ہیں۔ سخی شہباز قلندر نے تو اپنا ڈیرہ ہی بازارِ حسن میں لگایا تھا۔ مستو پہلوان کے مطابق یہاں ملتان کے لودھی محلہ میں ایک طوائف تھی مائی حوطاں۔ خواجہ غلام فرید کبھی کبھار اس کے ہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اقبال بانو ایک طویل عرصہ اسی بازار میں رہیں۔ وہ سامنے گلی میں اداکارہ انجمن اور گوری کا گھر ہے۔ ناہید اختر کی پھوپھی مسرت گُٹکی یہیں رہتی تھیں اور کیا غضب کا گاتی تھیں۔ گُٹکی انہیں اس لئے کہا جاتا تھا کہ چھوٹے قد کی تھیں۔ ریما کی والدہ کی آواز سارے بازار میں مشہور تھی۔ سلامت علی خان، نزاکت علی خان، ذاکر علی خان سب یہیں سے نکلے ہیں۔ بھیڈی پوترا قریب ہی ایک تکیہ ہے وہاں کے استاد حسین بخش سارنگی نواز اور طبلہ نواز استاد معشوقے خان نے بڑا نام پایا۔ استاد معشوقے خان کے فرزند شبیر حسین کا پچھلے دنوں انتقال ہوا‘ وہ بھی اپنے فن میں یکتا تھے۔ مستو پہلوان نے کہا کہ بازار اجڑ گیا ہے۔ کچھ پرانے گھرانے موجود ہیں، سازندوں کی اولادیں رہتی ہیں مگر اب اس کسب سے وابستہ نہیں ہیں۔ گلیوں میں جسم فروش عورتیں ابھی بھی باقی ہیں مگر خال خال۔ وہ پہلے جیسے کرسی والیوں کا سا عالم نہیں ہے۔
بازارکا تصور اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ ای شاپنگ کی طرح یہ بازار بھی اب موبائل اور انٹر نیٹ کے ذریعے چلتا ہے۔ فون پر اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر رابطے استوار ہوتے ہیں اور ڈرائنگ رومز میں محافل آراستہ ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف سٹیج ڈرامے ہیں۔ ڈرامے کا تو بس نام ہے پانچ چھ گانوں کی اجازت سرکارکی طرف سے ہے۔ عملاً یہ مجرا ہی ہوتا ہے۔ سو بازار کے جو تماش بین طبیعت عوام تھے، وہ تھیٹروں کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ کام سب جاری بس شکلیں بدل گئی ہیں۔
بازارِ حسن آباد تھا تو کچھ روایات موجود تھیں اور کسی حد تک اخلاقیات بھی۔ کچھ اصول بھی تھے ۔ ملتان کے زمیں دار حضرات فنِ موسیقی کی سرپرستی کرتے تھے۔ استاد صغیر احمد بتاتے ہیں کہ ابدالی روڈپر نواب اقبال خان کی بڑی وسیع حویلی تھی۔ وہ خود بھی ستار بجاتے تے۔ استاد کوڑے خاں اپنے زمانے کے بڑے نام وَر اور کہنہ مشق طبلہ نواز گزرے ہیں، وہ مستقل نواب صاحب کی ملازمت میں تھے۔ ان کی حویلی پر ہی رہا کرتے تھے۔ قصبہ مڑل کے زمیں دار پیر بخش مڑل بھی موسیقی کے سرپرستوں میں سے تھے۔ برصغیر کا کوئی نام ور گائیک ایسا نہیں جو اُن کی حویلی کا مہمان نہ ہوا ہو۔ سب ان کے ہاں اپنے فن کے مظاہرے کو آتے تھے۔ زاہدہ پروین کافی گائیک تواکثر ان کے ہاں حاضر رہتی تھیں۔ استاد صغیر احمد نے بتایا کہ حیدرباندی نام کی ایک ڈیرہ دار طوائف گزری ہے جو نہ صرف گاتی کمال تھی بلکہ خوب صورتی میں بھی یکتا تھی۔ ان پر بہاول پور کے مشہور شاعر خرم بہاول پوری عاشق تھے اور اکثر اس کے ہاں پائے جاتے۔ خرم بہاول پوری کا یہ شعر حیدر باندی کے عروج کے دنوں میں زبان زدِ عام تھا۔
واہ مکھڑا حیدر باندی دا
جیویں چَندر چمکدے چاندی دا
تقسیمِ ہندوستان سے آس پاس کا ایک واقعہ استاد صغیر احمد سناتے ہیں۔ نواب ممتاز چترالی تھے جن کی بوہڑ دروازے کے باہر بے تحاشا جائیداد تھی۔ وہ بازارِ حسن کی طوائف پکھراج بائی پر عاشق ہوگئے۔ عاشق بھی ایسے کہ اپنی زندگی اور جائیداد، سب پکھراج بائی کے لئے وقف کردیا۔ کوٹھیاں، مکان، موٹریں اور دیگر تعیشات‘ نواب صاحب کی نوازشوں کے طفیل پکھراج بائی کے در کی لونڈیاں ہوئیں۔ ایک دن پکھراج بائی نے فرمائش کی کہ اگر مجھے بمبئی لے چلو تو میری گائیکی فلم کے راستے چہار وانگ عالم میں چھا جائے گی۔ نواب صاحب کی جائیداد تب آخری دموں پر تھی۔ اس کا شاید پکھراج بائی کو بھی احساس تھا۔ بہرحال نواب صاحب آخری جمع پونجی لے کر پکھراج بائی کو بمبئی لے گئے۔ وہاں اُس نے تیرِ نظر سے ایک اور موٹی اسامی گھائل کرلی۔ نواب صاحب دل برداشتہ ہو کر ملتان لوٹ آئے۔ سب کچھ فروخت ہوچکا تھا۔ یہاں ایک معروف بس کمپنی ہوا کرتی تھی مسلم وہاڑی اینڈ وہنی وال بس سروس۔ وہ نواب صاحب کے آشنا تھے۔ ان سے ایک بس لی اور نواب صاحب بس ڈرائیور ہوگئے۔ بس سروس والوں نے کہا کہ نواب صاحب آپ یہ بس رکھیں اور اس کی آمدن بھی اپنے تصرف میں لایا کریں‘ یہ آپ کی ہوئی مگر نواب صاحب کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔ انہوں نے بقیہ عمر بس چلائی. اس وقت ڈرائیور کی جو بھی مروجہ تنخواہ تھی، وہ اپنے پاس رکھتے، باقی آمدن مالکان کو پہنچاتے۔
کاخ (محل) سے خاک تک کے سفر کی ایسی داستانیں صرف ملتان کے بازارِ حسن ہی نہیں بلکہ برصغیر کے سبھی بازاروں میں تحریر ہوئیں۔ ایک زمانے میں جو بڑے ٹھسے سے آکر گانا سنا کرتے تھے، وہ سب کچھ لٹانے کے بعد اسی کوٹھے پر گاہکوں کو پان پیش کرتے دیکھے گئے۔
بازارِ حسن کی پہلی اینٹ تب رکھی گئی ہوگی جب اس زمین پر کسی پہلی عورت نے پیٹ میں لگی بھوک کی آگ بجھانے کے لئے چند لقمے حاصل کرنے کو اپنا ناز نخرہ اور جسم بیچا ہوگا۔ خریداریقینا اس قدر صاحبِ حیثیت ضرورہوگا کہ اپنی اور اپنے متعلقین کی بھوک مٹانے کے بعد اُس کے پاس چند نوالے بچ رہے ہوں گے‘ جن سے اُس نے کچھ دیر کو ایک نسوانی جسم خرید لیا ہوگا۔ یہ خرید و فروخت آج بھی جاری ہے۔بیچنے والے شائد آج بھی مجبور ہیں۔ اگر کچھ فی صد مجبور نہیں تو وہ تعیشات کی ہوس کی ہاتھوں مجبور ضرور ہیں جبکہ خریدنے والے کے پاس اپنی بنیادی ضروریات سے زائد ہے اور وہ اپنی حسِ لامسہ ، حسِ باصرہ اور حسِ سامعہ کو لذت اندوزکرنے کی خواہش پوری کرنے کووسائل رکھتا ہے ۔سو تجارت جاری و ساری ہے۔ اچھا کہیں یا برا ‘ کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔حقیقت یہی ہے کہ حسن کے بازار انسانی معاشرت کا ناگزیرحصہ ہیں اور روئے زمین کا قدیم ترین پیشہ.
طوائف کا شباب ڈھل جائے تو وہ بازار کی سیر دیکھنے والوں کے لئے اہمیت کھو بیٹھتی ہے، ایسے ہی ملتان کا بازارِ حسن بھی فقط گئے وقتوں کا ذکر ہو کر رہ گیا ہے۔
حرم دروازہ وہیں ہے، اس سے پھوٹنے والی نشاط روڈ بھی اور اس کی ذیلی سڑک گل روڈ بھی مگر روشنیاں اور رنگ روٹھ گئے ہیں۔ اب وہاں تاریک شام اترتی ہے. ویران‘ پھیکی اور وحشت زدہ. گل روڈ پر بیابانی برستی ہے۔ کہیں کہیں مدقوق، بڈھے چہرے دکانوں پر بیٹھے یا اپنے ناتواں پیکر گھسیٹتے نظر آتے ہیں، جن کی آنکھوں میں اجڑے بازار کی خاک اُڑتی ہے۔گویا منیر نیازی کا مصرع ہوں”آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول“
گل روڈ پر دکانوں کی نوعیت بدل چکی۔ عمارتوں نے بھی پیرہن بدلا۔ بیچ میں کہیں کوئی ایک آدھ عمارت رہ گئی ہے کہ جس کی پیشانی پر حسرت زدہ کھڑکیاں اور محرابی دریچے خستگی کی تصویر بنے موجود ہیں۔ وہ دریچے جہاں سے کبھی روشنیاں لپکتی تھیں اور سجے سنورے چہرے طلوع ہوتے تھے۔ طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم، سارنگی کے سُر سنائی دیتے تھے۔اب گل روڈ پرحسرتِ مزار کی سی پژمردگی اوڑھ کر شام اُترتی ہے۔ اب کسی آٹریا (بالاخانہ، چھت پر بنا کمرہ، چوبارہ) سے بھیرویں میں ترتیب دئیے داد راکی یہ صداسنائی نہیں دیتی۔
ہمری اٹریا پہ آﺅ سنوریا
دیکھا دیکھی بلم ہوئی جائے
اب کوئی اختری بائی بھی تو پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال بانو، مائی دارو، بدرو ملنگ والی، نسیم اختر، مسرت بانو، بدروملتانی، ثریا ملتانیکر کا بدل بھی توکوئی نہیں آیا۔
”
اِک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے“
٭٭٭٭٭
اے وی پڑھو
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ