نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ آزاد نہ ہم آزاد۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دور میں جب انقلابوں کا جنون ہمارے ذہنوں پر غالب تھا اور ہم اُلٹے پلٹے سیاسی خوابوں کے خوگر تھے‘ ایک نعرہ چھوٹے بڑے جلسوں میں گلا پھاڑ کر بلند کرتے تھے: ”ظالمو جواب دو‘ خون کا حساب دو!‘‘ چونکہ زمانہ بدل چکا‘ نہ ملک میں اب ظالم رہ گئے اور نہ خون عوام کی رگوں میں باقی ہے۔ تو یہ پرانا انقلابی نعرہ کھوکھلا ہو کر تاریخ کے کباڑے خانے کی زینت بن چکا ہے۔ ویسے بھی اب ہمارے اندر کون سی سکت باقی رہی ہے کہ ان پرانے نعروں کو دوبارہ سے زندہ کریں۔ خون کی بھی ارزانی ہے۔ یہ پہلے ہی اتنا بہہ چکا ہے کہ ہم کس کس سے جواب مانگیں۔ دہشت گردی‘ انتہا پسندی‘ فرقہ واریت‘ لسانیت اور نہ جانے کتنے لبادے پہن کر ہماری ریاست اور معاشرے پر وار کیے جاتے رہے ہیں۔ ظلم ہمارے ملک میں بے انصافی‘ استحصال‘ بدعنوانی اور وسیع پیمانے پر لاقانونیت کی صورت اتنا رَچ بس چکا ہے کہ اس کے مرتکب لوگوں کو اب کوئی ظالم نہیں کہہ سکتا‘ بلکہ وہ تو سب سے اعلیٰ درجے کے اشراف خیال کیے جاتے ہیں۔ جب اقدار ہی تبدیل ہو جائیں تو پرانے نعروں کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ” ظالمو جواب دو‘ خون کا حساب دو!‘‘ کا نعرہ اس ملک میں ہمیشہ کے لیے متروک ہو چکا۔ اور اب جو حالات ہیں‘ اُن کے پیشِ نظر کوئی نظریات کی بیماری میں مبتلا انقلابی بھی اپنے دوستوں کے درمیان زیر لب بھی یہ نعرہ نہیں لگائے گا کہ وہ اِس کے مابعد اثرات سے بخوبی واقف ہو گا۔ اس لیے اب یہ متروک فقرہ کبھی کسی کی زبان پر نہیں آئے گا۔
شنید کہ جب انتخابات ہوتے ہیں تو اقتدار عوام کے پاس ہوتا ہے اور وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے اسے اپنے ہمیشہ سے دائم‘ قائم نمائندوں کو چند برسوں کے لیے منتقل کر دیتے ہیں۔ اصولی طور پر اقتدار بحیثیت شہری ان کی ذات سے وابستہ رہتا ہے۔ انتخابی عمل میں سیاسی جماعتیں‘ ہر قسم کا سیاست باز اور عوام کی خدمت کے جذبے سے مخمور پرانے اور نئے دولت مند‘ بااثر افراد اور معاشرے کی اشرافیہ ووٹ کی عزت بحال کرنے کے لیے جلسے کرتے ہیں۔ عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش ہوتے ہیں جیسا کہ آپ آج کل کہیں کہیں دیکھ رہے ہیں؛ چونکہ غیر معمولی حالات ہیں اس لیے فروری 2024ء کے عام انتخابات بھی غیر معمولی ہونے والے ہیں جن کے غیر معمولی نتائج کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ بے رونقی دیکھ رہے ہیں تو حیرانی کی بات نہیں۔ جب انتخابات انعقاد سے پہلے ہی عوام کی نظروں میں مشکوک ہو جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ میری رائے ذرا مختلف ہے کہ میں الیکشن کمیشن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات نہیں کرائے گا۔ کمزور آدمی ہوں‘ عوامی تشکیک کا عاجزی سے اظہار کرتا ہوں۔ عوام جانیں اور ان کے محبوب رہنما‘ اور ان کی محبوب ترین سیاسی جماعتیں۔ بر سبیلِ تذکرہ صرف ایک بات کرنے کی جسارت چاہتا ہوں کہ انتخابات کے دوران لوگوں کا حق تو بنتا ہے کہ وہ حکمران ٹولوں سے پوچھیں کہ آپ ایک زمانے میں کیا تھے اور اب کیا بن گئے ہیں۔ کارخانے پہ کارخانہ‘ دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں اربوں کی جائیدادیں کہاں سے آئیں۔ جائز آمدنی کے مفصل ذرائع اور ان کی بابت جو مقدمات برسوں چلتے رہے اور دفن ہوگئے‘ ان کے تمام ثبوت اور قصے کہانیاں جو دنیا کے معتبر ترین اخباروں اور رسالوں میں کئی عشروں تک چھپتے رہے‘ کچھ تو بتائیں کہ یہ سب کچھ کیا تھا۔ میں صرف عوام کے حق کی بات کر رہا ہوں۔ یہ ہرگز مقصد نہیں کہ انہیں اُکسایا جائے کہ وہ کسی جلسے میں کھڑے ہوکر کوئی ایسا سوال داغ دیں۔ آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ بدعنوانی کے بارے میں سوال کرنے کا یہاں رواج کب رہ گیا ہے۔ اصولی طور پر عوام کی حد تک سوال بنتا تو ہے کہ وہ ٹھپے پہ ٹھپہ اور ان کے محبوب رہنما کارخانہ پہ کارخانہ لگاتے رہے ہیں۔ کارخانوں کے خلاف کون ہو سکتا ہے مگر یہ اشارہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کو کئی ملکوں کی کمپنیوں میں گھمانے کے بعد اور بے نامی کھاتوں میں لانڈری کے عمل سے گزارتے ہوئے قانونی قرار دینے کا فن ہمارے ملک میں کتنا پروان چڑھ چکا ہے۔ یہ ہماری سیاست اور معیشت کی وہ مہین کاری گری ہے جس سے کرپشن قانونی بن جاتی ہے۔ اب تو کسی کے خلاف کوئی مقدمہ رہ ہی نہیں گیا‘ سب صاف۔ امید ہے کہ اچھا وقت آنے پر کوئی فائل‘ کوئی کاغذ اور کوئی دستاویز کسی کو دستیاب نہیں ہو سکے گی۔ جب قوانین کے مطابق کسی طاقتور سیاسی گھرانے کے خلاف ماضی میں احتساب کی کوئی کارروائی عمل میں آتی تو وہ یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ ہمارا احتساب تو ہر الیکشن میں عوام کرتے ہیں۔ چونکہ یہ ان کے سیاسی منشور کا حصہ ہے کہ الزامات اور مبینہ جرائم کی فہرست کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو‘ ثبوت کتنے ہی جاندار کیوں نہ ہوں‘ قانون اور عدالتوں کے ذریعے نہیں بلکہ عوام کے سامنے پیش ہوکر اپنا حساب کتاب دیں گے۔ تو اس لیے گزارش کر رہے ہیں کہ عوام سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن جس طرح کا ملک بن چکے ہیں اور جو اس وقت ماحول ہے‘ کوئی بھی سوال نہیں کرے گا۔ قلم کاری کرنے اور میڈیا پر بات کرنے والے سوال نہیں کر سکتے تو بیچارے عوام کیا کریں گے۔ نہ ہم آزاد‘ نہ وہ آزاد۔ چھوڑیں ان باتوں کو‘ چلیں منشور کی بات کرتے ہیں۔
منشور سازی اور سیاسی پروگرام تو کتابی صورت میں شائع کرانا ہماری سیاسی جماعتوں کی رسم بن چکی ہے۔ ایک زمانے میں کئی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور اکٹھے کیے تھے۔ اب نہ جانے وہ کہاں ہیں مگر آج بھی جو اس وقت پیش کیے جا رہے ہیں‘ انہیں اکٹھا کرکے دیکھ لیں تو یہ سب دکھاوے کی رسمی کارروائی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کی مجموعی حیثیت بے ترتیب نعروں‘ اعلانات‘ بلند بانگ دعووں اور ملک کی دیواروں پر تشہیر کرنے والے خطرہ جان حکیموں کے نسخوں سے زیادہ نہیں۔ جن دیگر ممالک کی سیاست کے بارے میں تھوڑا بہت پتہ ہے‘ وہاں کبھی کسی سیاسی جماعت نے اس نوعیت کے منشور پیش نہیں کیے۔ بات اور بحث سنجیدہ اور درپیش ملکی مسائل‘ نظریات‘ وسائل کی فراہمی اور خطرات سے نمٹنے کی ہوتی ہے۔ آج کل جو منشور آپ کے سامنے رکھیں گے‘ ہم ان کی بات تو پانچ سال بعد کریں گے۔ دیکھیں گے کہ جو وعدے کیے تھے‘ آپ کی ابھی تک کیا کارکردگی ہے۔ ماضی سامنے رکھیں تو ایک بار نہیں‘ کئی بار اقتدار ملا۔ باریوں پہ باریاں لگی رہیں۔ کچھ اپنے منشوروں پر ہی روشنی ڈال دیجئے کہ آپ نے ملک اور عوام کو کیا دیا؟ اور پھر سولہ ماہ کی اتحادی حکومت بنا کر اداروں‘ قانون اور معیشت کا جو حشر کیا‘ وہ آپ کے کون سے منشور کا حصہ تھا؟ اگر اس ملک میں عوام پڑھے لکھے ہوتے‘ شعور پیدا ہوتا‘ احتساب قانونی ہوتا تو باریوں والی سرکاروں کی اجتماعی سزا ہمیں نہ ملتی۔ یہ سزا والی بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ذہنی طور پر مزید سز ا کے لیے تیار ہو جائیں اور اگر آپ کے ذہن میں کسی معتبر سیاسی شخصیت یا جماعت کے بارے میں کوئی بدگمانی ہے تو نکال باہر پھینکیں کہ حساب کتاب کی سکت دم توڑ چکی‘ پیمانے بدل گئے‘ انصاف کی تو بات ہی نہیں کر سکتے۔ ایسے حالات میں ہماری طرح تماشائی رہیں تو بہتر ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author