نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا حاصل ہو گا؟۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی باتوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں‘ دانشوروں‘ عام لوگوں اور غیرملکی مبصروں کا پاکستان کی موجودہ صورتحال پر اتفاق ہے۔ آج کی بات نہیں‘ گزشتہ پانچ عشروں سے کچھ چیزیں بہت واضح نظر آرہی ہیں۔ آج ہمسایہ ممالک کے ساتھ سماجی اور معاشی ترقی اور استحکام‘ جمہوریت اور امن و سلامتی کا موازنہ کرنا آسان ہو چکا ہے۔ سب اعداد و شمار ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔ عالمی بینک کے پاکستان کے لیے کنٹری ڈائریکٹر کے اظہارِ خیال نے کھلے الفاظ میں اعداد و شمار‘ موازنہ اور کچھ تاریخی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ نظام اور حکمران طبقات کے ساتھ ملک آگے بڑھنے کی استعداد کھو چکا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو بھی دولت کسان‘ مزدور‘ کارخانے دار اور عوام کی مشقت سے پیدا ہوتی ہے‘ اس کو اعلیٰ حکمران طبقات نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔ ایسا کرنا حکمرانوں کے لیے وہاں مشکل ہوتا ہے جہاں احتساب ہو‘ جواب دہی ہو‘ جمہوریت ہو اور عوام کی منشا کے مطابق حکومتیں بنیں۔ جہاں مختلف ذرائع سے کوئی جماعت‘ فرد یا ادارہ اور حکمرانوں کے گٹھ جوڑ سے کوئی غیر جمہوری اتحاد اقتدار پر قبضہ کر لے تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں ہو رہا ہے اور جس کی نشاندہی عالمی بینک کے پاکستان کے لیے کنٹری ڈائریکٹر نے کی ہے۔ یہ بھی سب کہتے ہیں کہ معاشرے کے اندر نجی شعبے میں بے پناہ دولت ہے‘ مگر ریاست کے پاس محدود بلکہ برائے نام وسائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ترقیاتی کاموں اور روزمرہ کے اخراجات کے لیے اندرونی اور بیرونی ذرائع سے کھربوں روپے قرض لینا پڑتا ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کے لیے سالانہ میزانیے کا تقریباً نصف ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرف ہمارا سفر اس وقت سے شروع ہے جب 35سال پہلے دوسرے جمہوری دور کا آغاز ہوا تھا۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ اُس وقت ہم کتنے خوش تھے‘ عوام میں قابلِ دید جذبہ تھا‘ کیسی کیسی اُمنگیں تھیں‘ لیکن ایک سال کے اندر ہی معلوم ہو گیا کہ ہوا کا کیا رُخ ہے اور جمہوریت کے رنگ میں کون سے لوگ رنگے گئے ہیں۔ آج اقتدار کی باریاں لینے والوں کی کھلی اور چھپی دولت کا موازنہ اُن برسوں سے کریں جب وہ اقتدار میں آئے تھے‘تو اُن سب کے بارے میں ہوشربا انکشافات ہوں گے۔ان خاندانوں کی بدعنوانی کی داستانیں ساری دنیا کے اخباروں‘ رسالوں اور تحقیقاتی رپورٹوں میں چھپ چکی ہیں۔
سوائے پیدائشی گماشتوں کے‘ کسی سے بھی پاکستان میں سنیں کہ وہ سیاستدانوں کی لوٹ مار کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ان پارٹیوں کے اندر جو دوسری‘ تیسری صف کے رہنما یا عام کارکن ہیں‘ وہ بھی راز داری کے ساتھ آپ کو اپنی جماعتوں میں کرپشن کے قصے سنائیں گے۔ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ دوسروں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان میں جمہوریت کے جو معروضی حالات ہیں‘ اس میں آگے نکلنے کے لیے زر و دولت درکار ہے۔ کس کو معلوم نہیں کہ اراکینِ اسمبلی کو اربوں کے ترقیاتی فنڈز کیوں دیے جاتے ہیں اور پھر اس میں حصے کیسے بانٹے جاتے ہیں۔ اسے کوئی سیاسی نظام تو نہیں کہہ سکتا۔ ایک مذاق ہے اور وہ ہے کھلی دھاندلی‘ جس کا موقع موروثی سیاسی جماعتوں کو بار بار ملا ہے۔ اصل ذمہ داری تو ان کی ہے جن کی وجہ سے اقتدار ان کے سپرد ہوتا ہے‘ اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ جو سولہ جماعتی اتحاد تھا‘ وہ کیسے آیا تھا؟ شنید ہے کہ ایک بار پھر وہ اتحاد جمہوریت کا لبادہ پہن کر واپس آ رہا ہے۔ ایسی بدعنوانی اور اس کے حکومتی اداروں سے لے کر عوام کی سطح پر پھیلاؤ نے معاشروں اور ریاستوں کو تاریخ اور عصر حاضر میں تباہ کیا ہے۔ کہیں اور جانے کی کیا ضرورت ہے‘ آپ اپنے ملک کا حال دیکھ نہیں رہے؟ وہ کردار جنہوں نے ہمیں تباہی سے دوچار کیا ہے‘ کیا وہ ڈھکے چھپے ہیں؟ قومی سطح پر بالکل اتفاق ہے کہ سب کرپٹ ہیں اور مزید لوٹ مار کرنے کے لیے نئی تیاریوں اور قبولیت کی سند کے ساتھ واپس ہم بے بس عوام پر مسلط ہونے جا رہے ہیں۔
اس امر پر بھی اتفاق نظر آ رہا ہے کہ آٹھ فروری کو جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں ‘ ایسے انتخابات ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سے پیدا ہونے والے حالات سے بے خبر ملک کو مزید گہرے اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ انتخابات کے نتائج کا باقاعدہ اعلان تو آٹھ فروری کو کیا جائے گا مگر مختلف حلقے ایک ماہ قبل ہی جو غیرسرکاری نتائج سنا رہے ہیں وہ سب کے علم میں ہیں۔ سب کی کوشش ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ حصہ ملے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ سب اُس طرح ایک چھتری کے نیچے ہوں گے جس طرح عدم اعتماد کی تحریک اور اس کے بعد بننے والی حکومت میں اتحادی تھے۔ یہ تو اتحاد کروانے والوں پر منحصر ہو گا کہ کس کو کیا حصہ ملتا ہے۔ ہمارا خیال‘ جو ہر مرتبہ غلط ثابت ہوا ہے‘ وہ یہ تھا کہ موروثیوں کی لوٹ مار کا سب کو پتا ہے‘ اور یہ بھی کہ انہوں نے دولت کہاں کہاں چھپا رکھی ہے اور اُس کی اصلی فائلیں کہاں ہیں۔ کیوں کر عوام ایسے لوگوں کو ملک پر چوتھی‘ پانچویں بار حکومت کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔ ہماری ہر خوش فہمی قلم کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی غلط فہمی میں بدلتی رہتی ہے۔ موجودہ حالات میں‘ جب کسی کو کوئی خوش فہمی نہیں رہی تو ہم بھی ماضی کی کئی مرتبہ دہرائی جانے والی غلطی سے بالکل اجتناب کریں گے۔ جب سمندر میں سونامی آرہا ہو اور لہر پہ لہر آسمان کو چھوتی معلوم ہو رہی ہو تو دل میں سوال پر سوال اٹھتے ہیں کہ آخر ان موروثیوں کے پاس ایسا کون سا جادو ہے کہ جب سیاسی فرنٹ لائن مضبوط کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو ان کی تمام کارروائیاں‘ منظم لوٹ مار‘ اقربا پروری اور بے مغز اور بے کار کارکردگی راتوں رات تبدیل ہو جاتی ہے۔ قوانین ایسے بنالیے گئے ہیں کہ جن کا اطلاق ماضی بعید سے ہو رہا ہے تو پھر ایسا کیوں نہیں کہ ہمارے ریاستی اداروں کے بارے میں موروثی سیاسی خاندان اور ان کے حامی جو کچھ ارشاد کہتے رہے ہیں‘ ان کی گرفت بھی ہو؟ قوانین کے نشانے پر صرف ایک جماعت ہی کیوں؟ خیر جواب تو سوالوں کے اندر ہی موجود ہے‘ مزید کیا کہیں؟
جو ہمیں حدِ نظر تک دکھائی دے رہا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت‘ جومقبول ترین ہے‘ کی انتخابی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ایسا پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ کسی جماعت کے اراکین کی نامزدگی پہلے ہی مرحلے میں رد ہو جائے‘ ان کا انتخابی نشان چھین لیا جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ نامزد کرنے والے اور تائید کنندگان بھی ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش نہ ہو سکیں۔ کہیں کوئی نگران حکومت اور نہ ہی نوکر شاہی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے۔ ان انتخابات میں صرف لاڈلے ہی اقتدار میں آئیں گے۔ یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ دستِ شفقت کن کے سروں پر ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ کچھ تاریخی تضادات کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ سیاسی گروہوں میں اب تقسیم وہ نہیں جو کبھی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ ایک طرف طفیلی سیاسی گروہ ہیں اور دوسری طرف ایک معتوب سیاسی جماعت۔ اب یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ موروثی ہر کام اور ہر کردار کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر انتخابات شفاف ہوئے تو تمام بھرم کھل جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author