نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"قاضی فائز عیسی اور کارونجھر  !||رانا محبوب اختر

قاضی فائز عیسی اگر چاہیں تو اللہ رکھیو کھوسو، عشرت علی لوہار، خلیل کمبھار، شنکر لال اور سجاد احمد چانڈیو سے بہ طور دوستانِ دادگاہ یا رفیقانِ عدالت، کارونجھر اور قانون کی کہانی سن سکتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کارونجھر کے بارے میں اعتزاز احسن سے بہتر Amicus Curiae ہو سکتا ہے۔ ان سب کے نزدیک قانون اشرافیہ کا بچھایا ہوا جال نہیں، آدمی اور فطرت کا محافظ ہے۔ کارونجھر، قاضی، آدمی اور کوہ طور میں ایک ہی خدا کا نور ہے:

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا انھیں نظر بد سے بچائے!

عام لوگ قاضی فائز عیسی سے خیر کی امید رکھتے ہیں۔ آئین شہریوں کے لئے خیر کا منبع ہے. عدالت آئین کی محافظ اور مفسر ہے۔ خیر، حق اور جمال ہے۔ سندھ کی حکومت خیر اور جمال کے عتیق مظہر کارونجھر جبل کو کاٹنا اور بیچنا چاہتی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں جناب محمد شفیع صدیقی اور جناب ارشد محمد خاں نے کارونجھر کی قدامت، خیر اور جمال کو بچانے کے لئے سولہ اکتوبر 2023 کو تاریخی فیصلہ دیا۔ یہ فیصلہ آب زر میں لکھنے کے قابل ہے۔ مگر سندھ حکومت کارونجھر کو بیچنے کے لیے سپریم کورٹ میں ہے۔

کارونجھر، پاکستان کے صوبہ سندھ اور انڈیا کے راجستھان اور گجرات کے سنگم پر واقع گلابی گرینائیٹ کا پہاڑ ہے۔ بائبل میں ہے کہ ایک شادی کی تقریب میں حضرت عیسی نے120 گیلن پانی میں دیکھا اور پانی شراب بن گیا۔ اس پر کسی گیانی نے گرہ لگائی کہ شراب وہ سرخ پانی ہے جو خداوند خدا کے دیدار سے شرما گیا۔ کارونجھر کو محبوب حقیقی نے بہ یک نظر سرخ کیا ہے۔ کارونجھر کا کوہ طور فطرت کے معجزے سے یاقوت الحمرا ہے۔ مجسمہ ساز کی نظر سے دیکھیں تو کارونجھر کا ہر ایک پتھر مائیکل اینجلو نے تراشا ہے۔ مورخ کی آنکھ سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ کارونجھر میں موھن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب پتھرا گئی ہے۔ شاعر کی نظر میں کارونجھر پتھر کا سرخ باغ ہے۔ گلستاں جس کی بہار کو خزاں نہیں۔ غالب نے کلکتہ جاتے ہوئے بنارس میں قیام کیا اور بنارس کے حسن پر مثنوی”چراغِ دیر”لکھی۔ مثنوی کا ایک شعر کارونجھر کے حسن کے بیان کو مستعار لیتے ہیں:

بیاباں در بیاباں لالہ زارش
گلستاں در گلستاں نورِبہارش

اس کا لالہ زار بیاباں در بیاباں پھیلا ہوا ہے اور گلستاں در گلستاں اس کی بہاریں ہے۔ کارونجھر جبل،”چراغِ سندھ”ہے۔
کارونجھر جبل 19کلومیٹر طویل اور کہیں کہیں 305میٹر اونچا ہے۔ 109پہاڑیوں کے الگ الگ نام ہیں۔ اس کے علاوہ 45 چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ مختلف مذاہب کے 108 تیرتھ اور مقدس مقامات ہیں۔ ساردھرو میں شِیو راتڑی کے تہوار پر سالانہ دو لاکھ انسان جمع ہوتے ہیں۔ پہاڑ سے نکلنے والے چشمے زندگی کو سیراب کرتے ہیں ۔ نایاب جنگلی حیات پہاڑ کے سائے میں سانس لیتی ہے۔ کارونجھر میں چراغ یا جھرک نام کا ایک نایاب جانور ہے جو گدھے کا شکار کرتا ہے۔ ہرن ، نیل گائے، بڑے چمگادڑ اور گِدھ بھی اس پہاڑ پر رہتے ہیں ۔ مور ہیں جو مقامی لوگوں کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ناچتے ہیں۔ ایسے نایاب درخت ہیں جو پاکستان میں اور کہیں نہیں پائے جاتے۔ کڑایو ، تیندور اور کئی قسم کی جڑی بوٹیاں ہیں جو مقامی لوگوں کے میڈیکل سٹورز ہیں۔ کڑایو کا gum جوڑوں کے درد کے لیے اکسیر ہے۔ پہاڑ میں ایسی گھپائیں ہیں جن میں ہزاروں لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ رانا سر اور چندن گڑھ ہیں۔ پارکر کے بارے میں شاہ لطیف بھٹائی کا بیت ہے کہ:
”ڈھٹ سے بارش سر اونچا کرکے پارکر کے میدان میں برسی، سارے تالاب بھر گئے اور پانی تالابوں سے باہر نکلتا تھا۔”

ننگر پارکر میں اس بیت کی شرح ہر موسم میں ہوتی ہے۔ یہ پہاڑ مقامی لوگوں کی زندگی اور ثقافت ہے۔ کارونجھر میں چھبیس ارب ٹن گلابی، سفید اور سرمئی پتھر کا ذخیرہ ہے۔ ان پتھروں کی قیمت بہت ہے۔ کارپوریٹ سامراج غریبوں سے اربوں ڈالر چھیننا چاہتا ہے۔ مقامیوں کی دولت مقامی آدمی کا عذاب رہی ہے اور اب بھی سرمایہ دار مقامی آدمی کی تاریخ، ثقافت ، تہذیب اور معیشت سے بے خبر پہاڑ کو کاٹ کر بیچنا چاہتے ہیں۔

سندھ ہائیکورٹ نے 16اکتوبر 2023ء کے فیصلے میں لکھا کہ 1979سے پہاڑ کو کاٹنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کارونجھر یونیسکو کے عالمی ورثے کی عارضی فہرست میں شامل ہے۔سندھ حکومت کی ایک مجاز کمیٹی نے کارونجھر کو تہذیبی ورثہ قرار دیا ہے۔ عدالت عالیہ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس علاقے کو 2020کے ایکٹ کے تحت نیشنل پارک بنایا جائے کہ کارونجھر ایک مربوط monument کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ علاقہ محکمہ مائنز اور منرل کی jurisdiction سے باہر ہے اور یہاں کھدائی اور کٹائی کی ممانعت ہے۔ عدالت نے تباہ شدہ ثقافتی مقامات کی بازیافت کا حکم دینے کے بعد ڈپٹی کمشنر مٹھی اور علاقے کے تھانیدار کو پابند کیا کہ وہ عدالتی حکم پر عمل در آمد یقینی بنائیں۔ سندھ حکومت نے سندھ کی عدالت عالیہ کے اس تاریخی فیصلے کو پاکستان کی عدالت عظمی میں چیلنج کیا ہے اور کارونجھر کو بیچنے کے لئے کارپوریٹ سامراج کی ساتھی ہے۔

سندھ ہائیکورٹ کے بینچ کے فیصلے سے بہت پہلے سندھ حکومت کی ایک کمیٹی ننگر کے لوگوں کے تحفظات سننے آئی تھی۔ یہ سیاست کار اور افسر تھے۔ پوسٹ کولونیل سیاست دان اور افسر کا آزار مگر یہ ہے کہ وہ طاقتور کے غلام اور غلام کے آقا ہیں۔ ظِلّی طاقت کا نشہ کرتے ہیں ۔کارپوریٹ غلامی کی عالمی جکڑ بندی میں شعوری یا غیر شعوری طور پر طاقت کا ساتھ دیتے ہیں۔ قرنوں میں کہیں کوئی کلیم اللہ لاشاری چمکتا ہے۔ اللہ رکھیو کھوسو کا اس کمیٹی کے ممبران سے خطاب شیکسپیئر کے مارک انتھنی کے خطاب سے زیادہ سحر انگیز تھا ۔ اس نے کمیٹی کے ممبران کو سائیں یعنی آنر ایبل کہا۔ جبر آشنا مقامی آدمی bandit kings کو لوک دانش کی higher order cognition کی وجہ سے ”بادشاہ لوگ” کہتا ہے۔ لوک دانش میں بیوقوف کو بادشاہ اور سائیں لوک کو فقیر کہا جاتا ہے۔ مگر یہ سب انتھنی کے سیزر ہیں۔ اللہ رکھیو کھوسو نے کہا ”میرے سائیں، کارونجھر اور اس سے منسلک پہاڑیاں نہ ہوں تو کوئی جاندار تو کیا نباتات بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ کارونجھر رن آف کچھ کے گھیر میں ہے۔ یہ ساڑھے پانچ یونین کونسلوں کا علاقہ ہے۔ نیچے کا پانی نمکین ہے۔ ہمیں پینے کا پانی پہاڑیوں سے ملتا ہے۔بیراج سے آنے والے پائپ کے پانی کا ایک قطرہ ہمیں نہیں ملتا۔ لوگ سڑکوں پر جنازے رکھ کر احتجاج کرتے ہیں۔ لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مویشی ہیں۔پچھلے سال یہاں پیاز کی فصل ایک ارب روپے کی ہوئی تھی (پھلکارو بیج والا سفید پیاز نایاب ہے)۔ آپ چند ارب ڈالرز کے لیے صدیوں تک لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم کر رہے ہیں۔” اللہ رکھیو کھوسو ہر کسی کو یہ تقریر سناتے ہیں:

دو حرف تسلّی کے جس نے بھی کہے، اُس کو
افسانہ سُنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی

قاضی فائز عیسی اگر چاہیں تو اللہ رکھیو کھوسو، عشرت علی لوہار، خلیل کمبھار، شنکر لال اور سجاد احمد چانڈیو سے بہ طور دوستانِ دادگاہ یا رفیقانِ عدالت، کارونجھر اور قانون کی کہانی سن سکتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کارونجھر کے بارے میں اعتزاز احسن سے بہتر Amicus Curiae ہو سکتا ہے۔ ان سب کے نزدیک قانون اشرافیہ کا بچھایا ہوا جال نہیں، آدمی اور فطرت کا محافظ ہے۔ کارونجھر، قاضی، آدمی اور کوہ طور میں ایک ہی خدا کا نور ہے:

بتانش را ہیولی شعلہء طور
سراپا نورِایزد، چشمِ بد دور

اس حسین کا جسم شعلہء طور جیسا ہے اور وہ سر سے پاؤں تک خدا کا نور ہے۔
خدا اسے نظر بد سے بچائے!

About The Author