وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے وسطی ایشیا کے آریا گھڑ سوار یورپ، مغربی اور جنوبی ایشیا میں پھیلنے شروع ہوئے تو جہاں جہاں بھی انھوں نے بستیاں بسائیں وہاں وہاں کے ہو رہے۔ یورپ میں یہ آریا سلاوک اور جرمن ہو گئے۔ ایشیا میں ایرانی اور جنوبی ایشیا میں ہندو کہلانے لگے۔ آریاؤں کے برعکس سامی النسل یہودی ساڑھے تین ہزار سال کی دربدری کے باوجود آج بھی خدا کی لاڈلی امت کے طور پر کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ لیکن اس دوران انھوں نے کم از کم ایک مرکز ایسا ضرور بنا لیا جو یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہودی بھلے کسی بھی ملک میں رہتا ہو پہلے یہودی ہے پھر کچھ اور۔ اس لیے دنیا کے کسی کونے سے جو بھی یہودی چاہے اپنی غیر اسرائیلی شناخت سمیت اسرائیل میں آباد ہو سکتا ہے۔ آ کے پھر جا سکتا ہے اور جا کے پھر آ سکتا ہے۔ کم و بیش یہی حال سامیوں کے دوسرے گروہ عربوں کا بھی ہے۔ وہ اسلام سے پہلے بھی عربی تفاخر میں مبتلا تھے اور اسلام کے بعد بھی عرب عصبیت دماغ سے نہ نکال پائے۔ جتنا عرب سعودی ہے اتنا ہی عرب شامی اور مصری بھی ہے اور جتنا عرب ایک مسلمان ہے اتنا ہی عرب ایک فلسطینی و لبنانی عیسائی بھی ہے اور جتنا عرب ایک کویتی سنی ہے اتنا ہی عرب ایک عراقی شیعہ بھی۔ دکن کی سلطنتِ عثمانیہ کی فوج میں بھرتی کے لیے یمن سے آنے والا چاؤش بھلے کتنی بھی باتاں کر لے۔ آج ڈھائی سو برس بعد بھی اس کی آٹھویں نسل خواب میں یمن ہی دیکھتی ہے۔ چودہ سو برس پہلے کے خطبہ حجتہ الوداع کے بعد بھی عربوں کا تصورِ دنیا آج بھی دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ عربی (صاحب السان )اور عجمی (اجنبی اور گونگے )۔ اور جو عرب اس نفسیات سے بظاہر انکار کریں انھیں ذرا دس منٹ کرید کے دیکھئیے۔ پھر وہ آپ کو دیکھ لیں گے۔ اور یہ صرف عربوں کا ہی حال نہیں۔ صحرائے اعظم کا بربر اور نائجیریا کا بلالی مسلمان ہو کہ بپتسمہ زدہ جنوبی سوڈانی عیسائی زادہ۔ خود کو بیچ ڈالے گا مگر اپنی افریقی شناخت کسی قیمت فروخت نہیں کرے گا۔ رہا جنوبی ایشیا تو یہاں کے بنگالی بھلے مسلمان ہوں کہ غیر مسلم وہ اپنی جڑیں بنگال میں ہی دیکھتے ہیں۔ انھیں زمین زادہ ہونے پر اتنا ہی فخر ہے جتنا ہندو یا مسلمان یا بودھ ہونے پر۔ یہی حال ملے اور انڈونیشائیوں کا بھی ہے۔ عقیدہ بھلے کچھ بھی ہو مگر جانتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا اپنی ہی بھومی سے وابستہ ہے۔ ان کے پرکھے ہزاروں برس پہلے کہیں سے آئے بھی ہوں گے تو ان کی بلا سے۔ مگر (سوائے بنگال) جنوبی ایشیا کے مسلمان کون ہیں؟ اگر تو یہ اسی دھرتی کے ہیں تو پھر باہر کیوں دیکھتے ہیں اور اگر یہ باہر کے ہیں تو پھر جہاں جہاں کے بھی ہیں وہاں وہاں کے انھیں اپنا کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ یہ کب تک شناخت کے صحرا میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کی روحوں کو کب قرار آئے گا اور دماغ و دل کب سمجھیں گے کہ تمہارا اصل کس مٹی میں ہے؟ کئی لوگ اقبالیات میں پناہ لیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ترانہِ ہندی کہنے والے اقبال کا پان اسلامک ازم نسلی تفاخر سے نہیں ممکنہ سیاسی یکجہتی کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا۔ مگر میں جب اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالتا ہوں تو بہت کم ایسے مسلمان نظر آتے ہیں جو خود کو یہیں کا کہتے ہوں اور اپنی شناخت باہر ڈھونڈنے میں فخر نہ محسوس کرتے ہوں۔ آپ خود ہی سوچئے کہ محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک عرب، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا سے زیادہ سے زیادہ کتنے ترک، پٹھان، ایرانی، کرد، کاکیشیائی فوجی، امرا، درویش یا ہنرمند آ کر برصغیر میں بسے ہوں گے؟ دس لاکھ، بیس، تیس لاکھ، پچاس لاکھ، حد ایک کروڑ۔ آج بھارت اور پاکستان میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد اڑتیس سے چالیس کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے ( یہ آبادی پورے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے مسلمانوں سے زیادہ ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چالیس کروڑ میں سے نوے فیصد وہ ہیں جن کے آبا و اجداد صوفیا کے طفیل مسلمان ہوئے۔ لیکن ان میں سے اگر جاٹ راجپوت اور بنگالی مسلمان نکال دیے جائیں تو باقی سب اپنے ڈانڈے آج بھی برِصغیر سے باہر تلاش کرتے ہیں۔ مثلاً سب سے زیادہ سید جنوبی ایشیا میں ہیں اور سب کے شجرے ایران، بخارا اور حجاز سے شروع ہو کر وہیں ختم ہوتے ہیں۔ یقیناً منگولوں کے حملوں کے بعد سے بالخصوص بخارا و سمرقند، ایران اور عربستان سے لوگوں نے برصغیر کی جانب ہجرت کی۔ مگر کیا یہ تمام کے تمام علما، صوفیا اور اشرافیہ ہی تھے؟ کوئی ایک آدھ ترکھان، جولاہا، لوہار، مزدور اور کاشتکار بھی تو ان علاقوں سے آیا ہو گا؟ وہ آج کہاں ہیں؟ کہا جاتا ہے ہندوستان پر مسلمانوں نے ایک ہزار برس حکومت کی۔ خاندانِ غلاماں سے مغلوں تک سب یہیں آ کر بسے، مقامی رسوم و رواجات سے بھی متاثر ہوئے اور اپنی روایات سے مقامی لوگوں کو بھی متاثر کیا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر