ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس موڑ پر سیمی کا کردار بانو کے قلم پر حملہ آور ہو کر عابدہ کو اس روپ میں ڈھل جانے پر مجبور کرتا ہے جس بنیاد پر بانو سیمی کو بری عورت دکھانا چاہتی ہیں۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا حرام جنسی تعلق۔ عابدہ ایک اجنبی مرد کی طرف اسی طرح بڑھتی ہے جیسے سیمی۔ لیکن عابدہ اس لعن طعن سے محفوظ رہی جس طرح سیمی کو راندہ درگاہ دکھایا گیا۔ عابدہ کے منہ میں زبان تو بانو کی ہے لیکن وہ، وہ کر رہی ہے جو سیمی نے کیا۔
”ہائے جب آپ کو پتہ تھا کہ وہ کسی اور سے ملی ہوئی ہے تو پھر آپ اس کے پیچھے کیوں لگے؟
یہ حرامکاری ہوتی ہے سیدھی۔ چاہے آپ تعلیم یافتہ لوگ اس کا نام کچھ اور رکھ لیں، تو بھی ”۔
یہ ہے راجہ گدھ کا بنیادی تصور یا بانو قدسیہ کا بنیادی پروجیکٹ۔
اگلی ملاقات پر وہ رات کو قیوم سے ملنے آتی ہے اور یہ ملاقاتیں طول پکڑ جاتی ہیں۔ بانو نے عابدہ کی زبان سے سیمی کو بُری عورت تو کہلوا لیا لیکن اسی عابدہ کو روک نہیں پائیں۔
”عابدہ نے حسب معمول چائے کی ٹرے میرے پلنگ پر رکھی۔ وہ اب اسی طرح اوپر آتی تھی اس کے ساتھ چائے کی ٹرے اور مونگ پھلیوں سے بھرا تھیلا بھی ہوتا۔ کبھی کبھی تو ہم دونوں ایک نشست میں سیر سیر مونگ پھلی کھا جاتے تھے“ ۔
ان ملاقاتوں میں وہ اپنے شوہر کا ذکر کثرت سے کرتی اور قیوم سیمی کا۔ وہ اپنی ساس کو کوستی، ماں کا ذکر کرتی جس نے اسے کسی لڑکے کو دیکھنے پر ہی مار مار کر جسم میں نیل ڈال دیے تھے۔ بچہ نہ ہونے پر معاشرتی دباؤ کا ذکر کرتی اور بیچ بیچ میں قیوم کو سیمی کا اس قدر خیال رکھنے پر ٹوکتی۔
یہاں ہر روز سیر سیر مونگ پھلیاں کھانا، اکٹھے چائے پینا ایک اشارہ ہے جو عابدہ کا کردار اپنی فطرت کے مطابق چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فطرت جس کا ایک پہلو جنسی قربت کی خواہش ہے۔ دیکھیے پھر کیا ہوا؟
”میں سرہانے کی طرف سعادت حسن منٹو کی طرح اکڑوں بیٹھا تھا اور وہ پائنتی۔ اب کھسکاتے کھسکاتے اس نے ساری رضائی ہتھیا لی تھی۔ دور کہیں آدھی رات کو بولنے والے مرغے نے اذان دی“
رات، تنہائی، جوان مرد و عورت، ایک پلنگ اور ایک رضائی۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ عابدہ کو سو خون معاف کیے جا چکے ہیں۔ نہ کوئی طنز نہ کوئی اشارہ نہ اعتراض۔ عابدہ بلا تھکان سیمی کو کوسنے دے رہی ہے۔
”تمہاری سیمی کو چپڑی اور دو دو کھانے کا شوق تھا، ۔ یہ امیر زادیوں کے چونچلے ہیں۔ روٹیاں ان کے خانسامے پکائیں، بچے ان کی آیائیں پالیں اور یہ محبت تلاش کرتی پھریں ہر جگہ“ ۔
عابدہ یہ کہتے ہوئے بھول گئی کہ وہ خود کہاں بیٹھی ہے اور کس حال میں ہے؟ ایک غیر مرد کے کمرے میں آغازِ شب سے مرغ کی اذان تک، ایک لحاف میں۔
ناول کی ابتدا میں سیمی کی ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کی عادت کو جنسی بھوک کے اشارے کے زمرے میں ڈال کر قاری کو باور کرایا گیا ہے کہ نسبتاً آزاد خیال یا اپنے فیصلے خود کرنے کا رجحان رکھنے والی عورت ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کی عادت کو جنسی تعلقات کے لئے اشارے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ لیکن عابدہ کا سیر سیر مونگ پھلیاں ایک نشست میں ختم کردینے پر اس اشارے کا اس پر اطلاق کیوں نہیں ہوتا؟ اس لئے لگتا ہے کہ ناول کے تھیسس کا مقصد صرف ماڈرن، اپنے لیے کچھ خود مختاری چاہنے والی اور تعلیم یافتہ عورت کو بے لگام اور قیوم کو راجہ گدھ ثابت کرنا ہے۔
یہاں ہمیں البرٹ کامیو کی ایک بہت نازک کہانی غالباً ایڈلٹرس ویمن یاد آتی ہے۔ جس میں ایک شادی شدہ عورت، غیر اور وجیہہ مرد کو دیکھ کر اُسے اپنے شوہر کی جگہ رکھنے کا صرف تصور ہی کرتی ہے اور کامیو اس پر بدکردار ہونے کی حد جاری کر دیتا ہے۔
راجہ گدھ کا مرکزی موضوع اخلاقیات۔ ایسا اخلاق جس میں رچا حلال و حرام اگلی نسل تک اثر انداز، زیادہ سخت گیر اور زیادہ سزا دینے والا لگتا ہے۔ لیکن اس موضوع کے گرد ناول کی بنت بہت کمزور دکھائی دیتی ہے۔
آگے دیکھیے قیوم اور عابدہ کے تعلقات کی ایک نئی منزل :
”جس وقت میں گھر پہنچا وہ پہلے سے میرے کمرے میں موجود تھی اس نے بال دھو رکھے تھے اور پانی کی ننھی بوندیں اس کی کالی شال پر چمک رہی تھیں۔“
رات کا وقت، اور قیوم کے کمرے میں پہلے سے موجود ایک نہائی دھوئی عورت۔ واہ۔ اس بات کا کیا مطلب نکلتا ہے؟ وہی جو قیوم نے نکالا اور جو عابدہ چاہتی تھی۔ ناول بتاتا ہے کہ:
” مرد اور عورت کے درمیان آٹھ قسم کا لگاؤ ہوتا ہے۔ پہلا تعلق خیال کا ہے جب کسی کا خیال دماغ میں بس جاتا ہے اور نکالے نہیں نکلتا۔ اس تعلق کا ذکر دوسری سٹیج ہے۔ صحبت میں رہنا تیسرا۔ ہنسی دل لگی چوتھا۔ دلی گفتگو کرنا پانچواں اور جسمانی تعلق کی آرزو چھٹا، اس کو ارادے سے پختہ کرنا ساتواں اور آخری سیڑھی وہ ہے جب شیو جی اور شکتی ملتے ہیں۔“
یہاں بانو بھول جاتی ہیں کہ پانچویں چھٹی سیڑھی تک چڑھنا عابدہ کا کمال تھا۔ اس نے نہ صرف تعلق کا آغاز کیا بلکہ اس سفر میں قیوم کو اپنے ساتھ لے کر چلی۔ اتنی قربت کا بھلا اور کیا نتیجہ نکلتا؟
”تمہاری آرزو کی تکمیل ہو سکتی ہے تم ماں بن سکتی ہو۔ ماں۔
پھر منت کے انداز میں مقدس گنبد پر ہاتھ رکھا۔ پتہ نہیں عابدہ کیوں خاموش بیٹھ گئی اس کی آنکھوں میں بڑی حیرانی تھی۔ اس نے آہستہ سے کہا ”تم چاہتے ہو میرا بچہ ہو قیوم۔ سچ؟ سچ؟“
یہاں لفظ ”منت اور مقدس گنبد“ کے الفاظ کا استعمال پورے عمل کے تناظر میں کیا خوب ہے اور حیران کرتا ہے کہ مصنفہ کیا چاہتی ہیں؟ کیوں کہ گنبد کے ساتھ مقدس کا لفظ تو وہ خود ہی استعمال کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر