ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اگر تم مجھ سے محبت نہ کرتے، یہ جسمانی محبت تو یہ میرا کانفیڈنس کیسے بحال ہوتا؟“
اب سمجھ آئی بات آپ کو؟
آفتاب کے یک لخت چھوڑ دینے اور کلاس فیلوز کے تضحیک آمیز رویے کا شکار ہونے کے بعد سیمی نے قیوم سے تعلق اپنی سیلف اسٹیم یا خود اعتمادی بحال کرنے کے لئے بنایا، بغیر کسی دباؤ کے اور کلی طور پہ اپنی مرضی سے۔
اس سے اگلے دن قیوم کو اطلاع ملتی ہے کہ سیمی یرقان کا شکار ہو کر ہسپتال داخل ہو چکی ہے۔ قیوم ڈاکٹر کے کہنے پر اسے پرائیویٹ کمرے میں شفٹ کروا دیتا ہے۔
ڈاکٹر مرض کی تشخیص کے لئے بھیجے جانے والے ٹیسٹوں کا ذکر کرتی ہے۔ دو دن کے بعد سیمی کی طبیعت کچھ بہتر ہوتی ہے۔ وہ دونوں خوب باتیں کرتے ہیں۔ سیمی منہ پر کمبل اوڑھ کر لیٹ جاتی ہے اور قیوم اسے اپنی زندگی کے واقعات سناتا رہتا ہے۔
اچانک اس پر منکشف ہوتا ہے کہ سیمی کا ہاتھ کسی مردے کی طرح ٹھنڈا ہے۔ وہ مر چکی ہوتی ہے۔
قیوم اس کے ساتھ لپٹ کر سو جاتا ہے۔ بعد میں اسے اخبار میں چھپی خبر سے علم ہوتا ہے کہ یو سی ایچ میں زیر علاج ایک تعلیم یافتہ لاوارث لڑکی نے اپنی بیماری سے تنگ آ کر سلیپنگ پلز کھا لیں۔ پوسٹ مارٹم پر پتہ چلا کہ موت طبعی نہیں تھی۔
دیکھیے بانو کیا کہتی ہیں۔
عشق لاحاصل کی طبعی موت! خود کشی! دیوانہ پن کی معراج!
قاری کا سوال یہ ہے کہ سیمی کی خود کشی عشق لاحاصل کا نتیجہ کیوں؟ جب سیمی آفتاب کی محبت اور تعلق کی حقیقت سمجھ گئی تھی پھر کہاں کا عشق اور کیسا عشق؟ یہ طبقاتی برابری کے تعلق کی طلب بھی تو ہو سکتی ہے لیکن مصنفہ اس طرف نہیں جاتیں۔ حالانکہ کلاس کی بنیاد پہ کرداروں کے تعارف سے یہ بات تو ابتدا ہی میں کھل جاتی ہے۔
پھر کسی لاعلاج مرض میں گرفتار ہونے کے بعد خودکشی مایوسی کا نتیجہ بھی تو ہو سکتی ہے۔
ناول اسی کی دہائی میں لکھا گیا۔ سیمی کے دو یا دو سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات بنے۔ یرقان وزن میں روز بروز کمی، بہت سے بلڈ ٹیسٹ، بیماری سے مریضہ کی مایوسی۔ اس تصویر کی روشنی میں کیا یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ نادانستہ طور پہ بانو کا قلم ان کی عشق لاحاصل کی تھیوری ماننے سے انکاری ہے۔ مصنفہ کے خیال میں عشق لاحاصل کے نتیجے میں سیمی کی خود کشی راجہ گدھ کے تھیسس کو مضبوط کرے گی لیکن سیمی کا کردار بانو کے کنٹرول سے نکل کر بتاتا ہے کہ معاملہ عشق لاحاصل کا نہیں بلکہ کچھ اور تھا جس کی پردہ داری تھی۔ یاد کیجیے کہ اسی کی دہائی کے آغاز میں دنیا ایڈز سے واقف ہوئی جس کی علامات بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ ایسا ممکن ہے کہ سیمی کو اپنی بیماری کا علم ہو اور اس نے لمحہ بہ لمحہ موت کا انتظار کرنے سے بہتر سمجھا ہو کہ زندگی کا خاتمہ یک دم کر لیا جائے۔
عابدہ ؛
سیمی کی موت سے قیوم کے اعصاب شدید متاثر ہوئے۔
”میں سارا دن چرس کے سگریٹ پیتا، کبھی پلنگ پر کبھی شہ نشین پر کبھی فرش پر اور کبھی باہر لارنس گارڈن میں جا کر لیٹا رہتا۔ مجھ میں اٹھ کر چلنے پھرنے کی سکت کم ہو گئی تھی۔ میری تمام حسیات اور اضطراری عمل میں تبدیل ہو چکے تھے۔ کھلی آنکھوں میں مچھر گھس جاتے اور میں انہیں جھپکنا بھول جاتا۔ پانی حلق کی بجائے سانس کی نالی میں جا کر غوطے کی سی کیفیت پیدا کرتا، چلتے چلتے فرنیچر سے ٹکرانا اور ٹخنے پاؤں کے انگوٹھے گھٹنے زخمی کر لینا میرا معمول تھا۔“
پروفیسر سہیل انگزائٹی اور ڈپریشن سے بچنے کے لئے قیوم کو یوگا کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جب عابدہ کہانی میں داخل ہوتی ہے اور قیوم کی طرف بڑھنے کی ابتدا کرتی ہے۔
”اس روز جب میں مہاتما بدھ کی طرح آلتی پالتی مارے کنول آسن بیٹھا تھا تو ایک استری وارد ہو گئی۔ بریکٹ سے پیتل کا ڈنڈا گرا، ساتھ ہی فیروزی رنگ کے پردے میں کوئی لپٹا لپٹایا آگے بڑھا۔ پھر پیتل کے راڈ سے پردہ علیحدہ کرتی ہوئی ایک جوان عورت باہر نکلی۔
”ہائے یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ پہلے آئی تھی تو اور طرح بیٹھے تھے اب آئی ہوں تو اور اڑنگ بڑنگ ڈھنگ سے بیٹھے ہیں بات کیا ہے؟
وہ آرام سے میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔
آپ ہر وقت تھوکتے کیوں رہتے ہیں سارا وقت نیچے آواز آتی ہے، یہ گندی عادت ہے۔
پتہ ہے میں کون ہوں؟
اس بات سے لاعلمی ظاہر کرنے میں مجھے کچھ شرمندگی سی محسوس ہونے لگی۔
میرا نام پتہ ہے آپ کو؟
آپ نیچے کیوں نہیں آتے؟ سب لوگوں میں کیوں نہیں کھاتے پیتے؟
میں نے اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے میر کا دیوان کھولا اور لمبی بحر کی غزلیں دیکھنے لگا۔ ”
یہاں میر تقی میر اور ان کی لمبی بحروں کی غزلوں کا استعمال بھی خوب ہے۔ لیکن دیکھیے، کیا یہ کردار سیمی کے کردار سے کسی طرح کم ہے؟ ایک اجنبی مرد کے کمرے میں بلا اجازت گھس کر اس کی چارپائی پر بیٹھ کر بے تکلفی سے گفتگو کا آغاز کرنے والی عابدہ ایک ایسی عورت کا کردار ہے جو نہ تو زیادہ پڑھی لکھی ہے نہ ماڈرن گھرانے سے تعلق اور نہ ہی قیوم کی نزدیکی رشتے دار لیکن اسے قیوم سے دوستی کا آغاز کرنے میں کسی جھجک کا سامنا نہیں۔
دوسری طرف قیوم کسی اجنبی عورت سے گھلنے ملنے کا روادار نہیں۔ وہ اس عورت کی موجودگی میں بے سکون تو ہے لیکن اس کا ازلی دبو پن اسے کچھ بھی کہنے سے روک دیتا ہے۔
پہلی ہی ملاقات میں وہ قیوم کو اپنی زندگی کے گزرے ہوئے قصے سنانا شروع کر دیتی ہے اور دیکھیے کس انداز میں۔
”وہ میرے پلنگ پر اوندھی لیٹ گئی۔ ابھی ابا جی کی طرح ٹھیک سے ٹھوڑی اور بازو دکھا بھی نہ سکی تھی کہ ایک بار پھر اسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا وہ دیر تک جیلی فش کی طرح پلنگ پر ہلتی رہی۔
عابدہ جب بھی ہنستی تو اکیلی شروع ہو جاتی۔ میری ہنسی جب بند بھی ہو جاتی تب بھی وہ ہنستی رہتی۔ اکیلی۔ ایسے میں اس کا جسم، پیٹ، کولہے، دانت اور آنکھیں سب ہنستے رہتے تھے ”۔
قیوم بہت حیران ہے کہ کیسے ایک اجنبی عورت اس کے کمرے میں آ کر اتنی بے تکلفی سے باتیں کر رہی ہے لیکن وہ اس وقت دنگ رہ جاتا ہے جب عابدہ سیمی کے بارے میں پوچھتی ہے۔
”وہ آپ کے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی۔ ہے نا؟ اس کے تعلقات کسی اور لڑکے سے بھی تھے؟ ہے نا؟ یہ دو دو۔ تین تین جگہ تعلقات ہو کیسے جاتے ہیں بھلا؟“
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر