ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اس کے بعد بھی یہ سمجھا جانا چاہیے کہ سیمی نے قیوم سے جو تعلق جوڑا، اس میں قیوم کی طرف سے کسی قسم کا جبر، زبردستی یا سیمی کی مرضی شامل نہیں تھی؟
مصنفہ قاری کو یہ تسلیم کروانا چاہتی ہیں کہ سیمی لارنس گارڈن کے درخت کے نیچے دنیا و مافیہا سے بے فکر ہو جاتی تھی اور قیوم بد فعلی میں مصروف رہتا تھا۔ دیکھیے قیوم کی رائے کیا ہے؟
”سیمی آسانی سے قابو آنے والی لڑکی نہ تھی۔ وہ خودسر، ضدی خوب پڑھی لکھی اور فیشن ایبل تھی۔ اس کی باتوں میں واشنگٹن ڈی سی کا دبکا تھا۔ اپنی رائے چاہے وہ کیسی بھی دور پار یا انوکھی کیوں نہ ہو اس کے اظہار کو وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتی تھی۔ وہ اصلی معنوں میں ماڈرن تھی کیونکہ ہر ننگے لباس میں وہ ڈھکی رہتی۔ اس نے جو کچھ مغرب سے لے کر اپنا لیا تھا اب اس کی ذات کا حصہ تھا۔“
سیمی کے صحیح الدماغ اور سچوئیشن کو سمجھنے کی اہلیت میں قاری کوئی شک کیسے کر سکتا ہے جب رات کے پچھلے پہر لارنس گارڈن سے نکلتے ہوئے سیمی قیوم کو کہتی ہے۔
”قیوم موٹر سائیکل مت چلانا باغ میں، مال پر جا کر سٹارٹ کرنا۔
کیوں؟
اس وقت ہمیں کسی سپاہی نے دیکھ لیا تو تھانے لے جائے گا مجھے اپنی تو فکر ہے نہیں لیکن تمہیں رزلٹ کے بعد نوکری چاہیے ہو گی۔
مجھے پرواہ نہیں۔
ہونی چاہیے پرواہ، سپاہی نازیبا حرکتیں کر نے والوں کو تھانے لے جاتے ہیں۔ گندے بچے۔ ”
اور پھر اگلے دن۔
”آ گئے۔ مجھے علم تھا تم آؤ گے۔
کیسے؟
مریض کو معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر آئے گا۔
تم کو اتنا کچھ کیسے علم ہوتا ہے سیمی؟
ہوتا ہے معلوم۔ تعلق ہو تو سب کچھ پتہ لگ سکتا ہے۔
اب ہمارا معمول ہو گیا کہ ہم دونوں شام گئے جناح باغ میں چلے جاتے۔ یہاں بیٹھ کر ہم آدھی آدھی رات تک باتیں کرتے۔ جب میں اس کے بہت قریب ہو جاتا اور اس کی آستین رول کرنے لگتا تو وہ ہمیشہ آنکھیں بند کر لیتی۔
وہ مجھے چومتی ضرور تھی لیکن اسے مجھ سے محبت نہ تھی۔
سیمی باوفا تھی کیونکہ وہ قیوم کے وجود کو صرف احساس تشکر میں برداشت کرتی تھی ”۔
کیا واقعی؟
بانو قدسیہ کے خیال میں عورت کی وفا یہ ہے کہ اگر کوئی مرد اس کی ہستی روندتا ہوا بھی گزر جائے تب بھی وہ اس کے فراق میں آہیں بھرتی ہوئی زندگی سے کنارہ کش ہو جائے۔
بانو قدسیہ نے تھیسس پیش کیا کہ قیوم راجہ گدھ بن کر سیمی کی ذات سے کھیلا مگر وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ سیمی کی ذات کو کچرا سمجھتے ہوئے رد کرنے والا کردار بیوی بچوں کے ساتھ لندن میں ہنسی خوشی زندگی گزارتا ہے جب کہ قیوم سیمی کی خاطر نہ صرف دنیا تج دینے پر تیار ہے بلکہ ہر قیمت پر ساتھ دیتا ہے، سیمی کی آخری سانس تک۔
قیوم کی محبت میں صرف ایک قباحت ہے۔ اپر کلاس سے سیمی کی وابستگی پہ قیوم کا شدید احساس کمتری۔ کیا قاری کو نظر نہیں آتا کہ سیمی کی ہر بات بلا مشروط ماننا اور مانتے چلے جانا۔ کے کیا معنی ہیں؟
سیمی بھی یہ سمجھتی ہے لیکن چاہتی ہے کہ قیوم اظہار میں پہل کرے۔
بہانے بہانے سے یہ کہنا۔
”ہمیں کوئی محبت تھوڑی ہے؟ ہیں قیوم؟
میں چپ رہا۔
اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں رہتا۔ میں تسلی آمیز محبت کے ساتھ اسے چومتا رہتا وہ کبھی مدافعت نہ کرتی بلکہ کبھی کبھی شکر گزاری کے ساتھ مجھے دیکھ لیتی۔
تمہیں کیا پتہ، تم میری کتنی بڑی کمزوری بن گئے ہو۔
اگر تم نہ ہوتے، اگر تمہاری ہمدردی محبت نہ ہوتی تو میں کبھی کی خودکشی کر لیتی تمہاری محبت نے مجھے یہ قدم اٹھانے نہیں دیا۔ تم میرے محسن نہیں تو اور کیا ہو؟ تم نے تمہاری محبت نے مجھے روک رکھا ہے اس دنیا میں ”۔
اس واضح اظہار کے باوجود قیوم کی بزدلی آڑے آتی ہے وہ متمنی ہے کہ سیمی مزید کچھ کہے۔
”صرف محسن؟ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
اور، اور۔ کیا؟ لاتعلقی سے اس نے منہ پھیر لیا ”۔
اظہار پہ بار بار اکسانے کے باوجود سیمی قیوم کا خود ساختہ خول توڑ نہیں پاتی اور قیوم کے احساس کمتری اور اس کی محبت کو سمجھ نہ پانے سے فرسٹریٹڈ نظر آتی ہے۔
جنسی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بانو قاری کو مزید کنفیوژن کرتی ہیں۔ ایک طرف وہ کہتی ہیں کہ شدید ڈپریشن کی شکار سیمی جنسی تعلقات میں بے حس و حرکت پڑی رہتی ہے۔ لیکن دوسری طرف قیوم سیمی کی بڑھی ہوئی خواہش کے ہاتھوں تھکاوٹ کا شکار ہے۔
”سیمی باہر بالکل بے حس تھی لیکن جذباتی سیڑھی پر اس کا سفر بہت تھکا دینے والا تھا۔ اس سفر میں اس کا ساتھ دینے کی وجہ سے میرا بدن چور چور رہتا۔ وہ اپنی محبت میں کئی ریگستان چھان چکی تھی۔“
اس جسمانی، ذہنی تھکن اور انگزائٹی کا شکار ہو کر قیوم فیصلہ کرتا ہے کہ وہ سیمی کا مزید تعاقب نہیں کرے گا۔ سیمی بھی قیوم سے ملنا چھوڑ دیتی ہے۔ شاید وہ قیوم کے اظہار نہ کرنے سے اکتا چکی ہے۔
کچھ عرصے بعد دونوں کی اگلی ملاقات ریڈیو سٹیشن پر ہوتی ہے جہاں وہ پروفیسر سہیل اور گورنمنٹ کالج کے ایک اور لڑکے حیدر کے ساتھ ریہرسل میں مصروف ہے۔
سیمی حیدر کی طرف محبت آمیز نظروں سے دیکھ رہی ہے، قیوم بھانپ لیتا ہے اور اٹھ کر باہر لان میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
”سیمی ریکارڈنگ کے بعد باہر نکلتی ہے، قیوم کو دیکھ کر اس کی طرف آتی ہے۔
چلو بھاگ چلیں۔ جلدی کرو۔
کیوں؟
اگر ہم پانچ منٹ کے اندر بھاگ نہ گئے تو میں۔ مجھے حیدر پھر پکڑ لے گا۔ جلدی کرو ”۔
دونوں لارنس گارڈن چلے جاتے ہیں اور درخت کے نیچے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔
”میں بہت سیلفش ہوں لیکن میں تمہیں یوز نہیں کرنا چاہتی۔ مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں اپنی تنہائی کی خاطر اپنے کھوکھلے پن کو بھرنے کے لئے تمہیں استعمال کروں۔ اور استعمال کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دوں۔
خدا کی قسم میں اتنی بڑی چیٹ نہیں ہوں۔ سٹوڈیو میں میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اسے کبھی نہیں ملوں گی ”۔
یہ ہے وہ سیمی جو اپنا ہر فیصلہ خود کرتی ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاتی ہے۔ کب کس کو چھوڑنا ہے اور کب کس کو ملنا ہے؟ کس حد تک ملنا ہے؟ کس حد کو پار کرنا ہے؟ ہر بات کو وہ خود طے کرتی ہے۔
بانو قدسیہ نے کردار تخلیق کرتے ہوئے ماڈرن آزاد عورت کو غلط کار ہی نہیں بے چاری ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر کردار نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بانو سے وہ کچھ لکھوا لیا جو ان کے تھیسس سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
”بتاؤ قیوم میں نے اچھا کیا نا؟
کیا؟
حیدر کو چھوڑ دیا۔ بے چارہ۔ ایک پلے بوائے جسے قید کر لیا تھا میں نے ”
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر