ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھیے آفتاب سیمی کی محبت کو کیا معنی دے رہا ہے۔
”محبت چھلاوا ہے۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کچھ آپ کی روح کے لئے تڑپتے ہیں۔ کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے لاکھ چاہو ایک آدمی آپ کی تمام ضروریات پوری کر دے، یہ ممکن نہیں۔ انسان جامد نہیں ہے بڑھنے والا ہے۔ اوپر، دائیں، بائیں اس کی ضروریات کو آپ پابند نہیں کر سکتے۔ لیکن سیمی بڑی ضدی ہے وہ محبت کو کسی جامد لمحے میں بند کرنا چاہتی ہے۔“
آفتاب کی اصلیت نہ صرف قاری پہ کھل چکی بلکہ سیمی بھی اس کی حقیقت تک پہنچ گئی ہے جو روایتی شاؤنسٹ مرد کی نمائندگی کرتی ہے۔
”مانا، اس کی بڈھی بے بے مجھ سے شادی پر رضامند نہ تھی۔ لیکن کیا کچھ سال اور وہ رک نہ سکتا تھا؟ کم از کم ہم دونوں ایم اے ہی اکٹھے کر لیتے۔ لیکن اسے شوق تھا شادی کا۔ اسے اپنی بچپن کی منگیتر سے محبت ہے۔ وہ دوغلا ہے۔ اس کی دو شخصیتیں ہیں مٹر کے چھلکوں کی طرح۔ وہ الو کا پٹھا چاہتا ہے کہ خود تو بڑے مزے کی خوشگوار شادی شدہ زندگی گزارے اور میں یہ یقین رکھوں کہ وہ دل ہی دل میں مجھ پر مرتا ہے اور میں شادی نہ کروں۔“
یہ جملے پڑھ کر کیا کوئی قاری سیمی کو دیوانہ سمجھ سکتا ہے جو حالات کا درست تجزیہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آفتاب کی بے وفائی سے وہ آزردہ تو ہے لیکن اس کی عقل سلب نہیں ہوئی۔ اپنے فیصلے خود مختاری اور آزادی کے ساتھ کرتے ہوئے وہ معاشرتی دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے لیکن اپنے طریقے سے۔ کالج چھوڑ کر پنڈی چلے جانا، واپس آ کر قیوم سے ملنا اور آفتاب کی اصلیت بیان کرنا اس کا ثبوت ہے۔
اپنی محبت میں سچی سیمی معاشرے کے سامنے تن کر کھڑی ہے۔ دوسری طرف آفتاب اپنی کمینگی کا اقرار اپنی زبان سے کر رہا ہے۔
”آگے جانے والے پیچھے رہ جانے والوں کی طرح کبھی یاد نہیں کرتے۔ گھر سے بندھی ہوئی گائے اور طرح یاد کرتی ہے اور تانگے میں جتا ہوا گھوڑا اور طرح سے۔ جس کو سب کچھ مل جائے اچھا یا برا اس کی یادداشت کمزور ہونے لگتی ہے۔ جس کو سب کچھ کھو کراس کا ٹوٹا پھوٹا نعم البدل بھی نہ ملے اس کا حافظہ بہت تیز ہو جاتا ہے اور ہر یاد بھالے کی طرح اترتی ہے دل میں۔ سیمی اور۔ میری سچوئشن میں بہت فرق ہے۔“
یہاں قاری سوچ سکتا ہے کہ ناول میں سب سے بڑا راجہ گدھ تو آفتاب تھا جس نے منگنی شدہ ہو کر ایک دوسری لڑکی کے ساتھ محبت کے نام پر وقت گزارا، بقول بانو جنسی استحصال کرتے ہوئے حرام کھایا۔ بچپن کی منگیتر سے بھی دھوکا اور سیمی کو بھی محبت کا فریب۔ پھر خاندان، منگنی، بے بے اور ڈاکٹر سہیل کی بے سروپا باتوں کی آڑ لے کر اپنے آپ کو معصوم، بے گناہ سمجھتے ہوئے خوشی خوشی شادی کے منڈپ پر جا بیٹھا۔
لیکن آفتاب کو گدھ بنانے سے کہانی آگے کیسے بڑھتی؟ مصنفہ کو ایک ایسے کردار کی ضرورت تھی جس کے ساتھ بہت سی عورتوں کا معاشقہ اور جنسی تعلق دکھا کر اسے راجہ گدھ بنایا جا سکتا۔
اس تجزیے کا تقاضا ہے کہ سیمی کے رویے کو ایک دوسری نظر سے بھی دیکھ کر سمجھا جائے۔ ہمارے تھیسس کے مطابق سیمی آفتاب سے مایوس تو تھی لیکن وہ اپنے آپ سے بھی بہت ناراض تھی کہ آفتاب جیسے کمزور مرد سے اس نے محبت کیوں کی؟ وہ خود کو معاف کرنے پر تیار نہیں تھی کہ آفتاب پر اعتماد کرتے ہوئے دھوکا کیوں کھایا؟ سیمی کا قیوم کی طرف بڑھنا اور اضطرابی حالت میں ماضی کو مختلف زاویوں سے دہراتے ہوئے زود رنجی میں خود سے بار بار سوال کرنا اور قیوم سے جنسی تعلق اس پہلو کی گواہی دیتے ہیں۔
دوسری طرف قیوم پہلے دن سے سیمی کی محبت میں گرفتار مگر اظہار کرنے سے گھبراہٹ کا شکار۔ تمام کلاس فیلوز میں سے سیمی کی دلجوئی کرنے والا قیوم، سیمی کی ہر بات سن کر اعتبار کرتے ہوئے اس کی دل جوئی بھی کرتا ہے۔
قیوم کا خیال یہ ہے کہ سیمی اس کی خاموش محبت کے بارے میں نہیں جانتی مگر قاری کو جا بجا نظر آتا ہے کہ سیمی نہ صرف قیوم کی محبت سے آگاہ ہے بلکہ آفتاب کے بعد اس سے تعلقات استوار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتی۔ اسے آفتاب کی محبت میں جوگ لینے کا کوئی شوق نہیں اور وہ آفتاب تک یہ پیغام پہنچانا بھی چاہتی ہے کہ مرد کی بے وفائی کے بعد عورت کو بھی رستہ بدلنے کا حق ہے۔ جیسا کہ ایک مرحلے پہ اس نے قیوم کو کہا:
”تم اسے سب بتانا۔ اپنے اور میرے متعلق۔ جہاں جہاں ہم گھومے پھرے، ہمارا جسمانی تعلق، ہم نے جو کچھ انجوائے کیا، کیسے ایک دوسرے کو اپنایا“
گر چہ بانو قدسیہ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ آفتاب کی محبت میں اس قدر غرق ہو چکی تھی کہ جب قیوم نے اس سے جنسی تعلقات قائم کیے وہ اسے آفتاب کا سایہ سمجھ کر مزاحمت نہیں کرتی۔ لیکن بانو کے اپنے ہی لکھے ہوئے کی تردید قاری کو جگہ جگہ نظر آتی ہے۔
”وہ الو کا پٹھا چاہتا ہے کہ خود تو بڑے مزے کی خوشگوار شادی شدہ زندگی گزارے اور میں یہ یقین رکھوں کہ وہ دل ہی دل میں مجھ پر مرتا ہے اس لئے میں ساری عمر شادی نہ کروں۔“
وہ جانتی ہے کہ قیوم اس سے نہ صرف متاثر بلکہ محبت بھی کرتا ہے اور وہ ہر حال میں اس کا ساتھ دیتے ہوئے یہ تعلق نباہے گا۔
”میں جانتی تھی تم آؤ گے۔ مجھے پتہ تھا تم ویسے نہیں ہو۔“
قیوم اور سیمی کے جنسی تعلقات اور سیمی کی خاموش رضامندی کے کچھ مناظر دیکھیے۔
”ڈرتے ڈرتے میں نے اس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھا۔
میں نے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر پوچھا۔
میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
مجھے تم سے محبت ہے سیمی۔
کسی نوبیاہتا بیوہ کی طرح وہ میرے کندھے سے لگ کر ہولے ہولے کراہنے لگی۔“
دیکھیں یہاں بیوی نہیں بیوہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
”میں نے اس کے سر کو بوسہ دیا۔ یہ بوسہ میری روح کا تحفہ تھا۔
پھر میں نے اس کے ماتھے کو چوما، اس التفات میں میرے دل کا نذرانہ تھا۔
آہستہ سے میں نے اس کی گال پر اپنے ہونٹ ثبت کیے۔
تمہیں محبت چاہیے۔ وفا چاہیے۔ رفاقت؟
ہاں۔ ہاں۔ ہاں۔ میں بچپن سے بہت pampered ہوں میں محبت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گی لیکن۔ لیکن اب زندہ رہنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟
میں تمہیں زندہ رکھوں گا جس طرح سات ماہ کے بچے کو incubator میں زندہ رکھتے ہیں۔
اچھا قیوم؟ تم بچا لو گے۔ اس سے سیمی سے؟ میں جانتی ہوں تم بھی مجھے مرنے کے لئے چھوڑ دو گے کسی دن۔
نہیں نہیں سیمی میں تمہیں اپنی روح کی حدت سے زندہ رکھوں گا۔ خدا قسم میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا، never۔“
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر