نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وئیر دی اوپیم گروز۔۔۔||رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع لیہ سے تعلق ہے ، وہ مختلف موضوعات پر قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ لوگ کس قسم کے انسانوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کیلئے لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں؟ شاید انسانی مزاج ہے کہ وہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جن میں اسے اپنا عکس نظر آتا ہے۔ انسان جیسا خود ہوتا ہے‘ دوسرے بھی اس کو ویسے ہی دکھتے ہیں اور وہ انہی کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ ان کے بارے میں کوئی غلط بات پڑھے یا سنے گا تو اس کا دل و دماغ اسے فوراً مسترد کر دے گا۔ کوئی اپنے پسندیدہ بندے یا چوائس کو آسانی سے مسترد نہیں کر سکتا۔
اگر آپ یہ جانتے بھی ہوں کہ اس بندے بارے کہی گئی سب باتیں ٹھیک ہیں‘ پھر بھی آپ اپنی پسند پر قائم رہتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی چوائس کیسے غلط ہو سکتی ہے۔ کچھ آپ کی اَنا آڑے بھی آ جاتی ہے اور آپ جانتے بوجھتے اس بندے کے حامی بنے رہتے ہیں۔ یعنی اس بندے کی خوبی سے زیادہ آپ کو آپ کی اَنا اس کی حمایت پر مجبور کر رہی ہوتی ہے۔ میرے دوست جنید مہار بارسلونا‘ سپین پہنچ چکے ہیں۔ میں نے رات گئے جنید کو ایئر پورٹ پر ڈراپ کیا تھا۔ اب ان کا بارسلونا پہنچ کر میسج آیا کہ یہاں بھی آپ کی کمپنی نہیں چھوٹی۔ بتانے لگے کہ انہیں ایئرپورٹ سے جس نوجوان نے پک کیا‘ اس کا تعلق گجرات سے ہے اور وہ میرا بہت بڑا فین ہے۔ رات گئے جب وہ شہر پھرتے رہے تو وہ میرے کالموں‘ وی لاگز اور ٹی وی شوز کا حوالہ دیتا رہا۔ جنید کہنے لگا کہ وہ نوجوان‘ جس کا نام امتیاز ہے‘ مجھے تحفے میں ایک شرٹ بھیجنا چاہتا ہے۔ (ویسے شرٹ سے بہتر سٹار بکس کا کافی مگ ہوگا)۔ خیر جنید سے میرا برسوں کا تعلق ہے اور اسے علم ہے کہ پہلے کبھی مجھے اپنی تعریف سن کر اچھا لگتا تھا ‘ لیکن پھر دھیرے دھیرے یہ شہرت اور تعریف اپنا مزہ کھونے لگی۔ اب پرائیویسی اچھی لگنے لگی ہے۔ اب جو فین تعریف کرتے ہیں‘ مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کر دیتا ہوں لیکن وہ خوشی اب نہیں رہی۔ مجھے علم ہے کہ جو آج فین ہے‘ وہ کچھ عرصے بعد مجھ سے مایوس ہوگا اور اس کے ذہن میں میرا جو موجودہ امیج ہے‘ وہ ٹوٹ جائے گا اور پھر یا تو وہ پیچھے ہٹ جائے گا یا پھر میرے خلاف ہو جائے گا۔ وہ فین یہ اجازت دینے کو تیار نہیں ہے کہ جو امیج اس نے میرے بارے بنایا ہوا ہے‘ میں اس سے ذرا برابر بھی ادھر ادھر ہوں۔ اگر میں اس کے مطابق سوچ‘ لکھ یا بول نہیں رہا تو پھر میں بھی بِک گیا ہوں۔ وہ ہر قیمت پر مجھے اپنی سوچ پر چلانا چاہتا ہے۔ایک دفعہ ایک سپر مارکیٹ میں ایک نوجوان جوڑا ملا۔ اس نوجوان نے بھی بڑی عزت دی۔ مجھ سے میرا نمبر مانگا‘ جو اکثر لوگ مانگتے ہیں اور میں کبھی انکار نہیں کرتا۔ نمبر لینے کے بعد اس نوجوان نے مجھے کہا کہ کسی دن آپ ہمارے ساتھ ناشتہ کریں۔ میں نے کہا: جی ضرور۔ پھر کچھ دن بعد اس کا بدتہذیبی پر مبنی میسج ملا جو اس نے میرا کوئی ایسا کالم پڑھ کر یا شو دیکھ کر کیا تھا جس میں مَیں نے اس کے دیوتا بارے کچھ کہہ دیا تھا۔ ابھی چند روز پہلے ہی تو وہ مجھے ناشتے پر بلانا چاہ رہا تھا۔
پچھلے سال امریکہ گیا تو چند قریبی دوستوں کے رویوں میں حیران کن تبدیلی دیکھی۔ وہ عمران خان کے حامی تھے اور یہ تبدیلی اس لیے تھی کیونکہ میں ان کے دیوتا کی شان میں قصیدے نہیں پڑھ رہا تھا۔ ان سے مل تو لیا لیکن ان کے رویے دیکھ کر افسوس ہوا کہ ان سے کیوں ملا۔ اسی لیے جب اس سال امریکہ گیا تو ان سے نہیں ملا۔ اگر آپ کو کوئی شخص کسی کیفے پر‘ کافی پر مل لے یا آپ کو کہیں سے پک کر لے‘ اس کے بعد تو آپ نے اسی کی مرضی کے مطابق سوچنا اور لکھنا ہے‘ ورنہ آپ بِک گئے ہیں۔ اب اگر لوگ دعوت دیں بھی تو میں معذرت کر لیتا ہوں کہ وہ اپنی کافی یا پک اینڈ ڈراپ کی قیمت مجھ سے اپنے مہاتما کی تعریف کی صورت میں وصول کریں گے۔ ہمارے ہاں یہ عمومی رویہ ہے کہ جو لوگ فیس بک پر آپ کے بارے کچھ اچھا لکھ دیں یا آپ کا دفاع کر لیں تو پھر وہ بھی چاہتے ہیں کہ میں ان کے لفظوں کا معاوضہ دوں‘ جس طرح وہ سوچتے ہیں اسی طرح سوچوں ورنہ وہ میری فیس بک وال پر دھمال ڈالنے آ جائیں گے۔ مجھے میرے وہ قارئین یا ناظرین زیادہ اچھے لگتے ہیں جن کی میرے بارے رائے اچھی نہیں ہے کہ چلیں وہ ایک جگہ تو کھڑے ہیں یا انہوں نے مجھے درست پہچانا کہ میں قابلِ تعریف نہیں ہوں۔ جو پہلے میرے فین بن کر پھر مجھ سے مایوس ہو کر میرے مخالف بنتے ہیں‘ وہ زیادہ خطرناک ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ میں بھلا کیسے اپنی تحریروں سے کروڑوں لوگوں کو خوش رکھ سکتا ہوں اور ان کی سوچ کے مطابق لکھ سکتا ہوں؟ اس لیے جب جنید مہار نے مجھے سپین سے امتیاز صاحب بارے بتایا تو وہی خوف سوار ہوا کہ یہ نوجوان بھی کسی دن یہی سمجھے گا کہ اب میں اس کی سوچ کے مطابق نہیں لکھتا‘ تب وہ سخت مایوس ہوگا۔
مایوسی کی بات چلی ہے تو شاید عمران خان کے حامی یہ پڑھ کر مایوس ہوں گے کہ خان صاحب پر ایک اور کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آچکی ہے جو ایک خوبرو اداکارہ ہاجرہ خان پانیزئی نے لکھی ہے‘ جس کا عنوان ہے Where The Opium Grows۔ اس کتاب میں ہاجرہ خان نے عمران خان سے اپنے چار سال کے تعلقات پر بہت کچھ لکھا ہے جس میں کراچی‘ لاہور اور بنی گالا کی شامیں اور راتیں بھی شامل ہیں۔ ہاجرہ بھی عمران خان کی فین تھیں اور ان سے بہت امیدیں لگا بیٹھی تھیں۔ وہی بات جب فین مایوس ہوتے ہیں تو سخت ردِعمل دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس کتاب سے عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ عمران خان کو علم ہے کہ ان کا فین کلب ان سے کسی قسم کی اخلاقیات یا اخلاقی کردار کی توقع نہیں رکھتا۔ اگر اس ملک کے عوام کا مسئلہ ایک ایسا لیڈر ہوتا جو اخلاقی لحاظ سے مضبوط ہوتا‘ جیسے مغربی ملکوں میں ہوتا ہے تو عمران خان کبھی مقبول نہ ہوتے اور وزیراعظم بننا تو دور‘ وہ پبلک لائف میں بھی نہ ہوتے۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پہلے ان پر درجنوں کتابیں چھپیں‘ درجنوں سکینڈلز اور افیئرز سامنے آئے لیکن انہیں کیا فرق پڑا؟ کیونکہ اس قوم کا مسئلہ اخلاقیات یا اخلاقی بنیادوں پر کھڑا لیڈر ہے ہی نہیں۔ اس ملک میں دو قسم کی قیادت ہے‘ ایک وہ جو اخلاقی طور پر کرپٹ ہے اور دوسری وہ جو سیاسی طور پر کرپٹ ہے۔ قوم کو دونوں قسم کے لیڈروں سے پیار ہے۔ سارا دن وہ دونوں قسم کے لیڈروں کی عزت اور شان کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ رشتہ داریاں تک ختم ہو گئیں‘ دوستیاں ختم ہوگئیں صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میرا پہلوان تمہارے پہلوان سے بہت بہتر ہے۔ کوئی اس ملک کو ریاستِ مدینہ کے نام پر چونا لگا رہا تھا تو کوئی آئین میں ترامیم کرا کے امیرالمومنین کا لقب پانا چاہتا تھا۔ کسی کو جنیوا میں ساٹھ ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کرنی تھی تو کوئی لندن میں فلیٹس خرید کر اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑ رہا تھا‘ جبکہ ان کے حامی ایک دوسرے کے سر کھول رہے تھے‘ سوشل میڈیا پر گالیاں دے رہے تھے۔ اپنی اپنی مرضی کے لٹیروں کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ لوٹ مار ان لیڈروں اور ان کی اولادوں نے کی اور بھنگڑے ڈالے یہاں سوشل میڈیا پر موجود رودالیوں نے۔ خاور مانیکا کے انٹرویو پر نہ بشریٰ بی بی کچھ بولیں‘ نہ عمران خان نے کوئی جواب دیا‘لیکن سوشل میڈیا پر رودالی رو رو کر حال و بے حال ہیں۔
بہرحال‘ ہاجرہ خان کی کتاب میں موجود سنسنی خیز انکشافات تو رہے ایک طرف لیکن اس کتاب کا نام کتنا خوبصورت اور رومانٹک ہے: Where The Opium Grows۔ بس اس کا لطف لیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author