نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‘کشمیر کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے تین سابق وزرائے اعلی  کو نظر بند ہی رہنا چاہیے’

گزشتہ روز جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو چشمہ شاہی کی ایک سرکاری عمارت سے مولانا آزاد روڈ پر واقع بنکوئٹ ہال میں منتقل کیا گیا تھا۔

جموں:بھارت کے مرکزی وزیر ڈاکٹر جیتندر سنگھ کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کے تینوں سابق وزرائے اعلی کو نظربند رکھنا چاہئے اگر اس سے وادی کشمیر میں امن و امان برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلی فاروق عبد اللہ، عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کی نظربندی کا ذکر کرتے ہوئےڈاکٹر جیتندر سنگھ نے کہا کہ’ اگر وادی میں صورتحال پر امن ہے کیونکہ انہیں حراست میں لیا گیا ہے تو بہتر ہے کہ وہ نظربند رہیں’۔

ڈاکٹر سنگھ نے ان باتوں کا اظہار جموں خطے میں دو روزہ علاقائی کانفرنس کا افتتاح کرنے کے بعد افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ دو روزہ علاقائی کانفرنس میں جموں خطے میں بہتر حکمرانی کے طریقوں کے نفاذ پر توجہ دی جائے گی۔

ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق  5 اگست کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر میں ہند نواز سیاسی جماعتوں کے سینئر قائدین، جن میں تین سابق وزیراعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کو نظر بند رکھا گیا ۔

وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ تینوں وزرائے اعلی کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو چھ ماہ سے دوسال تک بغیر مقدمہ چلائے نظر بند کیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ روز جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو چشمہ شاہی کی ایک سرکاری عمارت سے مولانا آزاد روڈ پر واقع بنکوئٹ ہال میں منتقل کیا گیا تھا۔

حکام نے یہ فیصلہ چشمہ شاہی علاقے میں سخت سردی کے پیش نظر کیا ہے تاہم محبوبہ کی بیٹی کی اس درخواست کو رد کیا گیا ہے جس میں انہیں جموں منتقل کرنے کی گزارش کی گئی تھی۔

محبوبہ مفتی کو 4 اگست کی شام گپکار روڑ پر واقع انکی سرکاری رہائش گاہ میں نظر بند کیا گیا تھا جسکے اگلے روز مرکزی حکومت نے ریاست سے دفعہ 370 ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسکے کئی روز بعد انہیں رہائش گاہ سے منتقل کرکے چشمہ شاہی کی ایک سرکاری ہٹ میں نظر بند کیا گیا۔

مولانا آزاد روڑ پر واقع بنکویٹ ہال کی دیواریں محبوبہ مفتی کی پہلی سرکاری رہائش گاہ کے ساتھ ملی ہوئی ہیں جس میں انکے والد مفتی محمد سعید 2002 میں پہلی بار وزیر اعلی بننے کے بعد منتقل ہوگئے تھے۔ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت نے اس عمارت کو جیل کا درجہ دیا ہے یا نہیں۔

محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا نے گزشتہ ہفتے سرینگر کے ضلع کمشنر کو ہاتھ سے لکھی ایک درخواست میں کہا تھا کہ سرد موسم اور انکی والدہ کی خرابی صحت کی بنیاد پر انہیں کسی گرم علاقے میں منتقل کیا جائے۔ لیفٹننٹ گورنر انتظامیہ نے بظاہر اس درخواست کو رد کردیا۔

انتظامیہ نے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو سرکاری رہائش گاہیں بھی خالی کرنے کے لیے نوٹس جاری کردئیے ہیں۔دونوں سابق وزرائے اعلی کو سرینگر میں سرکاری بنگلے الاٹ کئے گئے تھے۔

About The Author