رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک تو وہ نہیں رہا جب امیدوں کی بہاروں میں ہم زندگی گزارتے تھے۔ دل برداشتہ ہو کر ہم دیہات کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ آبادی‘ جہالت‘ لاقانونیت اور بدحکمرانی سارے ملک میں ساتھ ساتھ ایسے چلے ہیں جیسے موسمیاتی تبدیلیوں نے کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دیہات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں جہاں اوائل زندگی کے پندرہ بیس برس گزارے تھے لیکن یہاں سب کچھ اتنا خراب نہیں ہے جتنا ہم شہروں میں دیکھتے ہیں۔ وہ مکان‘ وہ محبتیں‘ وہ رشتے‘ دوستیاں‘ گلیاں اور ماحول شاید ہی کوئی بھولتا ہو۔ کچھ تو سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور ایسے بسے ہیں کہ کبھی واپس ہی نہیں آتے لیکن یادوں میں وہ کھیت‘ پگڈنڈیاں‘ نہریں اور دریاجوں کے توں موجود ہیں۔ یہ عناصر یاد کا دامن ان کا بھی نہیں چھوڑتے‘ بیتے سمے کے دھندلے تصورات ان کے بھی دامن گیر رہتے ہیں۔ ہم تو زمینی مخلوق ہیں کہ اس زمین کی مٹی سے اٹھے ہیں۔ ہم جیسے پرانے دیہات کی طرف وقت ملتے ہی چل پڑتے ہیں۔ باہر کے ملکوں کو ہم نے بہت دیکھ لیا ہے‘ کہیں اور جانے کو اب جی نہیں چاہتا۔ ہم اپنے لگائے ہوئے درختوں‘ کچھ کھیتوں اور ایک چھوٹی سی پرانی حویلی کو ایک دفعہ پھر سے دیکھنے کے لیے آجاتے ہیں۔ اپنی جامعہ میں درس و تدریس اور دیگر کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تو یہاں نہیں ٹھہر سکتے‘ فقط دو تین دن لاہور یا اسلام اباد کے جس ماحول اور جن علاقوں میں وہاں ہماری رہائش ہے‘ وہاں سے نکل کر جب دیہات میں آتے ہیں تو ایک مختلف دنیا اور وہاں پر رہنے والوں کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وقت بالکل ٹھہرا ہوا ہے‘ ہنگامہ خیز تبدیلی کا یہاں گزر نہیں۔ یہاں کے سکوت میں ایک طرح کا سکون پوشیدہ ہے۔ لوگوں کا رہن سہن‘ رنگ ڈھنگ بالکل وہی ہے جو ہم 60سال پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔ کچھ اچھی روایات بھی باقی ہیں کہ وقت کے گزرتے لمحات ان پر اثرانداز نہیں ہوئے ہیں۔ کہیں کوئی فوت ہو جائے تو کسی غریب آدمی کے جنازے میں بھی اچھی خاصی تعداد ملنے جلنے والوں کی صفوں میں کھڑی ہوتی ہے۔ کوئی وقت پر نہ پہنچ پائے تو آنے والے ایک دو ہفتوں تک ارد گرد کے دیہات سے لوگ افسوس کرنے آتے ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی شرکت شہروں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح دکھ سکھ میں لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ بچوں اور بچیوں میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان بھی اب اس گئے گزرے علاقے میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بچے سکولوں میں ہیں۔ ہر صبح‘ ہر طرف سے بچوں کو اچھی تعداد میں سرکاری اور نجی سکولوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ رجحان پیدا تو ہو چکا ہے مگر نہ سہولتیں وہ ہیں جو پنجاب کے دیگر علاقوں میں ہیں اور نہ عام لوگوں کی مالی استعداد اچھی ہے کہ وہ سب زیر تعلیم بچوں پر توجہ دے سکیں اور اگلے مرحلوں تک انہیں لے کر جائیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ تعلیم کی طرف قدم ہر کوئی بڑھاتا ہے۔ وہ اس راہ پر کتنا آگے بڑھ پاتا ہے‘ یہ تو ریاست کے سوچنے کا کام ہے۔
میرے آبائی علاقے میں زراعت نے بہت ترقی کی ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ غیرمعمولی ترقی ہوئی ہے مگر حکومتوں کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ عام لوگوں نے محنت کرکے غیر آباد زمینوں کو قابلِ کاشت بنایا ہے۔ نہری پانی کے کم وسائل کے باوجود کسانوں اور متوسط درجے کے کاشتکاروں نے زیر زمین پانی اور اگر دریائے سندھ کے کہیں قریب ہیں تو وہاں سے سیلاب کے سیزن میں چھوٹی نہریں نکال کر فصلیں اگانے پر بہت سرمایہ کاری کی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں زیادہ تر سرمایہ کاری شمسی توانائی پر کی گئی ہے۔ یہاں کے زمیندار کہتے ہیں کہ 60فیصد سے کہیں زیادہ اب سولر ٹیوب ویل چل رہے ہیں۔ اور یہ تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک اور ترقی پسند تبدیلی اگلے روز دریائے سندھ کی طرف جاتے ہوئے دیکھنے میں آئی۔ یہ تبدیلی لیزر کے استعمال سے کھیتوں کی ہمواری ہے۔ کسانوں اور کاشتکاروں کی عادت یہ ہے کہ وہ کسی کے کامیاب تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ گرچہ لیکچرز اور بات چیت پر دھیان کم ہی دیتے ہیں۔ دیکھا دیکھی کی ثقافت کاشتکاری میں زیادہ چلتی ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ساتھ والا لیزر لیولنگ سے پانی بچا رہا ہے‘ بیج بھی زیادہ اُگ رہا ہے اور کھیت میں کھاد بھی ہر پودے کو یکساں مل رہی ہے اور اوسط پیداوار زیادہ ہے تو زمین کی ہمواری کا یہ طریقہ عام ہونے لگا ہے۔ ایک اور بڑی تبدیلی بیجوں کی کاشت ہے۔ پرسوں صبح دھان کے کھیت دیکھے تو حیران رہ گیا‘ کبھی زندگی میں ایسے گھنے‘ بار آور اور حدِ نظر تک ایک ہی سطح کی فصل نہیں دیکھی تھی۔ حیرانی یہ ہے کہ فی ایکڑ پیداوار 90من تک ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر کچھ امید کی کرن پیدا ہوتی ہے کہ ہم زرعی انقلاب کے دوسرے مرحلے کی طرف جلد سفر شروع کر سکتے ہیں۔ 60سال قبل جب یہاں کی آبادی آج کی آبادی کی نسبت غالباً چوتھائی سے بھی کم تھی‘ لوگ خوراک میں خود کفیل نہیں تھے۔ ویسے تو سارا ملک اڑھائی کروڑ کی آبادی کے ساتھ بھی امریکہ سے گندم درآمد کرتا تھا۔ اب ہم نہ صرف گندم میں کافی حد تک خود کفیل ہیں بلکہ برآمد بھی کرتے ہیں اور غیررسمی ذرائع سے افغانستان اور مرکزی ایشیا میں بھی غیرقانونی طور پر فروخت ہوتی ہے۔ اس محدود علاقے سے لاکھوں من گندم حکومتِ پنجاب خرید لیتی ہے‘ ہر سال کم از کم گندم کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر حکومت گندم اور آٹے کی قیمتوں پر کنٹرول ختم کر دے تو میرے خیال میں گندم کی پیداوار مزید زیادہ ہو سکتی ہے۔ دیگر فصلوں میں یہاں کینولا کی کاشت کا رجحان زیادہ ہے۔ گنے کی کاشت میں خاصی کمی آئی ہے اور اس کی وجہ پانی کی کمی کے علاوہ شوگر ملوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ ان کے سامنے حکومتیں بھی بے بسی کی علامت بنی رہی ہیں۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی تو نہیں کہ زیادہ تر شوگر ملیں ہمارے بڑے اور چھوٹے سیاسی گھرانوں اور ان کے اقربا اور سیاسی اتحادیوں کی ہیں۔ اس علاقے کی حد تک میرا خیال یہ ہے کہ کاشتکاروں نے گنے کی فصلیں ختم کرکے دھان اور گندم کی فصلیں لگانا شروع کر دی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں فصلوں کی قیمتوں میں اضافے سے لوگ زیادہ تر خوشحال نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ کھادوں‘ بیجوں اور کیڑے مار دوائیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ نیز جعلی ادویات کی شکایت بھی عام ہے۔ کاشتکار سوائے ان کے جنہوں نے کپاس کی کاشت کی تھی‘ مناسب منافع کماتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ علاقہ جو کبھی کپاس کیلئے بہت مشہور تھا‘ نہ جانے کیوں اب یہ فصل ہر سال بیماریوں کی زد میں آجاتی ہے اور چھوٹے کسانوں کو خسارہ اتنا ہوتا ہے کہ آئندہ کیلئے کئی سال تک اس کی کاشت کا سوچتے بھی نہیں۔ دیہات اور دیہاتیوں کیلئے ہماری حکومت نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ ظلم کی بات ہے کہ یہ خوراک آپ کی میز پر لائیں‘ ہماری برآمدات ان کی اگائی ہوئی کپاس اور دھان پر مشتمل ہیں‘ زیادہ تر ٹیکس بھی یہ دیں مگر نہ سڑکیں‘ نہ مناسب تعلیم اور صحت کا انتظام اور نہ ان کو قانون اور انصاف کی فراہمی حاصل ہے۔ معلوم ایسا ہی ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف کام اور محنت کیلئے اور ہماری سیاسی گھرانے‘ نوکر شاہی اور سیٹھ کاشتکاروں کی دولت پر عیش کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر