نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چین کی بانسری۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اندر کی خبروں کا ہمیں اتنا ہی پتا ہے کہ حالات جوں کے توں جا رہے ہیں۔ جن کے سر پر دستِ شفقت ہے وہ توخوش ہوں گے ہی کہ میدان ان کے حق میں سازگار بنانے کے نسخے آزمائے جا رہے ہیں لیکن لوگ اب بھی سوال پوچھنے سے گریز نہیں کرتے کہ آنے والے سال کے پہلے ماہ کے آخر میں جیسا کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے‘ انتخابات ہوں گے؟
ہماری موجودہ صورتحال کوجو بھی نام دینا پسند فرمائیں مگر یہ حالات ہماری سیاست ہی کا نتیجہ ہے۔ یہ رسہ کشی تب پیدا ہوتی ہے جب اقتدار کے گھوڑے پر وہ سوار ہونے کی کوشش کریں جنہیں عوام نے تائیدنہ بخشی ہو۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی رتبے ہی نہیں بلکہ کوئی اور بھی صورت اختیار کر لیتے ہیں‘مگر بنیادی طور پر سیاست میں مرکزی کردار سامنے نظر آنے والا نہیں بلکہ کوئی اور ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔اس طرح سیاست فقط کٹھ پتلیوں کا تماشا رہ جاتی ہے۔ ہمارا 45 سال سے ایک ہی المیہ ہے بلکہ اگر انہیں دس‘بارہ سال اور پیچھے لے جائیں تو اس سیاست میں جمہوری روح کب کی پرواز کر چکی تھی‘ آج کے حالات کچھ دیگر ادوار سے مختلف تو نہیں مگر انہیں سلجھانے کے لیے خلوصِ نیت‘ وژن اور نئی سمت کی ضرورت ماضی کی نسبت آج کہیں زیادہ ہے۔ مقصد آپ کو یا کسی اور کو مایوس کرنا نہیں‘مگرحالات کا معروضی جائزہ نہیں لینا اورسب اچھا ہے کا نوکر شاہی نعرہ لگاتے چلے جانا ہے تو یہ صفحے کالے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ گزارش ہے کہ ہم سیاسی کھیل گزشتہ 60 برس سے دیکھ رہے۔ اس کھیل کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ ایک دفعہ دیکھنا شروع کر دیں تو پھر آنکھیں ادھر سے ہٹ نہیں سکتیں۔ اس دوران ہم نے کتنے ادوار دیکھے‘ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں کئی تحریکیں چلتی ابھرتی اور مٹی دیکھتی رہیں اور کئی طاقتور حکمران بذاتِ خود اور کچھ عوامی تائید سے بھی اقتدار کے ایوانوں میں محفل سجائے ہماری آنکھوں نے دیکھے۔ ان میں سے کسی کو پاکستان کی قسمت بدلنے سے کم کسی منشور اور نظریے سے وابستہ نہ دیکھا‘مگر سب آئے اور چلے گئے۔ کچھ تو سیاست میں اتنے پھلے پھولے کہ سیاسی جماعتوں کے نام پر سیاسی کمپنیاں ہی بنا لیں‘ جن کی قیادت ان کے گھرانوں کے ہاتھ میں ہے‘ مگر ان سب نے ملک کا حال وہ کیا جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ ان کے ہرکارے کچھ بھی کہیں مگر اصل بات تو یہ ہے کہ جس کو لوگ کہتے ہیں کہ اب اگلی نسل کو آگے لانے کی کوشش ہو رہی ہے‘ ویسے تو وہ آ چکی ہے مگر بڑی کرسیوں پر انہیں بٹھانے کے لیے جو بھی ضروری ہوتا ہے جوڑ توڑ کی مہارت دکھائی جاتی ہے۔ مگر ایسی سیاست کے لیے عوام کے سامنے جانے کی نہ انہیں ہمت ہے اور نہ کچھ دکھانے کے لیے کسی کے پاس کچھ ہے۔ پہلے ہی اپنے دامن میں کچھ نہ تھا رہی سہی کسر سولہ ماہی حکومت نے پوری کر دی۔ گزارش ہے کہ آپ اسے پنجابی والا ماہی نہ سمجھیں۔ شاید وہ ووٹ کو عزت دلوانے کے قابل ہو سکیں۔اس وقت تو اندر کا ایسا ہی نقشہ بنا ہوا ہے اور نگرانوں کے سب اقدامات طے شدہ منصوبے کے مطابق آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر کوئی اختلافی بیان سننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں تو اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کسی آنے والے بندوبست میں حصہ کیوں بڑھ گیا اور کس کو اپنی پرانی تنخواہ پرگزارا کرنے پر کیوں مجبور رکھا جا رہا ہے۔ دیکھنے میں تو دھڑے بندی کی سیاست زوروں پر ہے مگر نہ یہ دھڑے نئے ہیں اور نہ صف بندی۔ جب بھی ہمارے ہاں انتخابات کا وقت قریب آتا ہے ایک ہی سیاسی ٹولے کے افراد اپنے مقامی حریفوں کے خلاف ہواؤں کے رخ کے ساتھ چلنے کی جرأت نہیں کرتے۔ پنجاب میں اس کے لیے سب سے پرکشش (ن) لیگ ہی معلوم ہوتی ہے‘ جن کو وہاں جگہ نہیں ملے گی ان کا رُخ سندھ کے بڑے سیاسی گھرانے کی طرف ہونا فطری بات ہے۔ یہ کھیل کوئی نیا نہیں کہ جماعت میں نظریہ تو کب کا ہوا ہو چکا۔ اگر کوئی نظریہ رہ گیا ہے تو وہ نظریۂ ضرورت ہے۔ اس نظریے کی بھی اپنی تاریخ ہے کہ کہاں سے چلا تھا اور کہاں کہاں اس نے اپنا جھنڈا گاڑا ہوا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی اور اس کی عوامی سطح پر ملک کے کونے کونے میں مقبول قیادت کی بات اب کیا کریں البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر میدان سب جماعتی اتحادیوں کے لیے ہموار ہے اور وہ جماعت جس کے آنے سے کپکپی طاری ہوتی ہے اس کے لیے رکاوٹیں اس طرح رہیں جس طرح ہم گزشتہ کچھ عرصے سے دیکھ رہے ہیں تو پھر اس انتخابی تماشے کے تکلف کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ پاکستانی بھی یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور دنیا کے وہ ممالک جن کی طرف ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ان کی رائے ہمارے بارے میں کیا ہے‘وہ ہم سے بھی زیادہ باریکی اور گہرائی سے ملک کے سیاسی ماحول پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی طاقت کی طرف سے حالیہ بیان کند ہتھیار کے بھاری وار سے کم نہیں۔
ہم لاکھ بار کہہ چکے ہیں کہ رجیم چینج کی حمایت نہیں کرتے۔ہو بھی سکتی ہے کہ عوامی تائید کے بغیر اور جمہوری جائزیت سے کھوکھلی کوئی بھی نئی حکومت طاقتور ممالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اندر ہی اندر ملکی مفادات کا سودا کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ ہر ایسے ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔اپنی تاریخ کے گوشوں میں ذرا چند لمحے نکال کر جھانک لیں۔ اس وقت جو دہشت گردی کی فضا ہمارے ملک میں ہے اور اب تو ہم بھول چکے ہیں کہ کب شروع ہوئی تھی‘ کچھ ایسی ہی حکومتوں کی دانشمندانہ سوچ اور سب سے بڑی طاقت کے قریب ہونے کے شوق میں جو فیصلے کیے گئے تھے ان کا نتیجہ ہے۔ہمارے قومی مفادات ہوں یا کسی اور ملک کے ہوں‘ اُن کا تحفظ صرف اور صرف حقیقی جمہوری اور آئینی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ابھی تو یہ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں‘مگر مقصد مثبت نتائج حاصل کرنا ہے اور انہیں ہی مسند ِاقتدارتفویض فرمانی ہے جو ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں تو سیاسی استحکام اور دنیا میں عزت و مقام کی خواہش دور کہیں سمندر میں پھینک کر چین کی بانسری بجائیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author