عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ کا معروف شہر نوابشاہ کے علاقے سکرنڈ میں فورسز کی فائرنگ سے سے پانچ شہری جان بحق ہوگئے۔ یہ واقعہ 28 ستمبر 2023 کو سکرنڈ کے علاقے ماڑی جلبانی میں پیش آیا۔ سندھ قوم پرست رہنما رجب علی جلبانی کی تلاش کے دوران رینجرز اور پولیس نے فائرنگ کی۔ اس واقعہ کے خلاف جان بحق ہونے والے افراد کے لواحقین نے لاشوں کو قومی شاہراہ پر رکھ کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ جس سے قومی شاہراہ کو ہرقسم کی آمد رفت کے لئے بند کردیا۔ اور اس سانحہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
مظاہرین کے مطابق فورسز کی فائرنگ سے جان بحق ہونے والے کوئی دہشتگرد نہیں تھے۔ بلکہ وہ کاشتکار اور مزدور تھے۔ اور نہ ہی فورسز کے ساتھ کوئی مقابلہ یا لڑائی ہوئی تھی۔ لیکن فورسز نے براہ راست جاکر بے گناہ شہریوں کو بھون ڈالا۔
اس عمل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق ڈومیسائل کا ہے۔ جب لاہور میں جناح ہاؤس کو جلادیا جاتا ہے۔ اور راولپنڈی میں اہم تنصیبات پر حملہ کرکے اس میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ مگر وہاں کوئی گولی نہیں چلتی۔ شاید اس لئے گولی نہیں چلائی گئی کہ پنجاب کا خون مہنگا ہے۔ اور سندھ کا خون سستا ہے۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟۔ کیا سندھی اس ملک کے برابر کے شہری نہیں ہیں؟۔ اسی طرح سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جاتی ہے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نواز شریف کو پھانسی گھاٹ سے سعودی عرب روانہ کردیا جاتا ہے۔
ابھی سکرنڈ کے لوگ اپنے ماضی کے ظلم و ستم کو نہیں بولے۔ ماضی میں بھی اس علاقے سے بے شمار سیاسی کارکنان کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔ انہیں بے دردی سے شہید کیا گیا تھا۔
29 ستمبر 1983 کو سکرنڈ کے قریب پنھل خان چانڈیو گوٹھ میں میں ایک عوامی احتجاج پر فورسز نے فائر کھول دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں سولہ نہتے جمہوریت پسند، سیاسی کارکناں شہید ہوئے۔ ایک بار پھر سکرنڈ کے قریب گاؤں ماڑی جلبانی میں نہتے ہاری اور کسانوں کے خون ہولی کھیلی گئی۔ آخر یہ کیا چاہتے ہیں؟۔ یہ طاقت کا استعمال کب ترک کرینگے؟
ویسے بھی سندھ کے عوام میں سیاسی بے چینی عروج پر ہے۔ سندھ میں ڈیموگرافک تبدیلی لائی جارہی ہے۔ سندھ میں بیگانے لوگوں کی یلغار ہے۔ سندھی عوام کا قومی تشخص خطرے میں پڑگیا ہے۔ وہ اپنی دھرتی پر اقلیت میں تبدیل ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے سندھ میں امن وامان کی صورتحال مزید بھی خراب ہوگئی ہے۔
ویسے بھی سندھ میں انسرجنسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سندھ عسکریت پسندی کی جدوجہدکی ایک طویل تاریخ رکھتاہے۔ بانی پاکستان اور سندھی مرحوم قوم پرست رہنما جی ایم سید نے سندھودیش کا نعرہ بلند کیا۔ ستر سے اسی کی دہائیوں میں جی ایم سید کی سربراہی میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں گوریلا کیمپس قائم کئے گئے۔ اسی طرح 1970ء کی دہائی میں الذوالفقار کا قیام عمل میں آیا۔ یہ جماعت سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادوں نے بنائی تھی۔ سندھ میں گوریلا وار کے دوران بے شمار لوگ مارے گئے۔ ماضی میں حکومت بندوق کے زور پر انسرجنسی کو وقتی طورپر روکنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ تاہم وہ ہمیشہ کے لئے دب نہیں سکی۔
موجودہ دور میں سندھ کے شہری عوام (اردو اسپیکنگ) کی تنظیم ایم کیو ایم (لندن گروپ) کو کالعدم قراردیاگیا۔ کالعدم ایم کیو ایم لندن کے بانی الطاف حسین کی جماعت کو مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا گیا۔ سوشل میڈیا پر الطاف حسین اور کالعدم جئے سندھ متحدہ محاذ (جسمم) کے سربراہ ڈاکٹر شفیع محمد برفت کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی خبریں آرہی ہیں۔ اسی طرح سندھی گوریلا کمانڈر اصغر شاہ کی طاقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان تنظمیوں پر سرکاری طورپر پابندی کے باوجود وہ سرگرم ہیں۔ آئے روز سندھ میں ریلوے لائن کو دھماکہ سے اڑانااور موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب سندھ بھر میں چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بے شمار نوجوان لاپتہ کردیئے گئے ہیں۔
سندھ محل وقوع اور جغرافیہ طور پر بلوچستان سے مختلف ہے۔ سندھ میں انسرجنسی ایک مضبوط شکل اختیار کرسکتی ہے۔ سندھ کے بے شمار اضلاع کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں۔ دونوں اطراف میں زمینی اور سمندری حدود ملتی ہیں۔ جن میں کراچی، ٹھٹہ، بدین، سجاول، تھرپارکر، سانگھڑ سمیت دیگر اضلاع شامل ہیں۔ بدین اور ٹھٹہ اضلاع میں دریائے سندھ کا ڈیلٹا ہے۔ سندھ کا یہ ڈیلٹا دنیا کا ساتواں بڑا ڈیلٹا ہے۔ دریائے سندھ کے سترہ کریکس ہیں۔ جہاں مینگروز کے بڑے بڑے جنگلات ہیں۔ یہ جنگلات بھارت تک چلے جاتے ہیں۔ یہ دلدلی پٹی ہے۔ یہ جنگلات اور دلدل ویت نام کے جنکلات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ قدرتی محل وقوع کی وجہ سے امریکہ جیسی سپرپاور کو ویت نام میں منہ کی کھانی پڑی۔ سندھ کے ان جنگلات اور دلدلی علاقوں کو صرف سندھ کے ”لاڑ“ کے لوگ سمجھتے ہیں۔ بدین اور ٹھٹھہ کی پٹی کو عام زبان میں ”لاڑ“ کہا جاتا ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعرانہ زبان پر سب سے زیادہ اثر ”لاڑ“ کے لہجے کا ہے۔
بھٹائی سرکار نے لاڑ کے لوگوں کے بارے میں کچھ یوں کہا:
” لاڑ کے لوگ بظاہرایک لاغر اور خاموش سانپ کی مانند نظر آتے ہیں۔ اس کی خاموشی اور لاغر پن دراصل ایک دھوکہ ہے۔ وہ اتنے طاقتور سانپ ہیں کہ اپنے ایک حملے سے ہاتھی کو بھی موت کی نیند سلا سکتے ہیں “۔
بلوچستان کی انسرجنسی سے زیادہ خطرناک انسرجنسی سندھ کی ہے۔ اگر اس کو روکا نہیں گیا۔ وہ پورے ملک کا معاشی، تجارتی سرگرمیوں کو جام کرسکتی ہے۔ کیونکہ سندھ کا دارالحکومت کراچی ملک کا معاشی حب ہے۔ جہاں سےپورا ملک کا معاشی، تجارتی اور اقتصادی پہیہ چلتا ہے۔ اس شہر میں پاکستان اسٹاک ایکسجینچ، اسٹیٹ بینک سمیت دیگر مالیاتی اداروں کے ہیڈ آفسز ہیں۔ فی الحال تو کراچی شہر میں ایک مصنوعی امن و امان کی صورتحال ہے۔ خدشات کے پیش نظر وفاقی حکومت کو سندھ کے عوام کو پنجاب کے عوام کی طرح برابری کا شہری تسلیم کیا جائے۔ ایک ملک میں دوہرا معیار پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ خُدارا ایسی پالیسی نہ بنائی جائے جس سے "سندھودیش” ایک حقیقت میں تبدیل ہوجائے۔
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر