نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سانحہ گوٹھ ماڑی جلبانی سکرنڈ اور چند سوالات ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکرنڈ کی کہانی کہاں سے شروع کی جائے۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے زین شاہ اور دیگر قوم پرستوں کے اس الزام سے کہ

” سکرنڈ کا واقعہ پیپلزپارٹی کی انتخابی حخکمت عملی کا حصہ ہے۔ پیپلزپارٹی انتخابات سے قبل سندھ میں قوم پرستوں کے مضبوط حلقوں (حامیوں کی اکثریت والے علاقوں) کے باسیوں پر ظلم ڈھاکر من پسند انتخابی نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے؟” سکرنڈ واقعہ کے بعد نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی پریس ریلیز ہے جو مختلف ہی نہیں بلکہ ہزار زاویہ کی مختلف کہانی سناتی ہے۔

این ایس ایف کی پریس ریلیز کے مطابق سکرنڈ چھائونی کی توسیع کے لئے کچے کے علاقے میں 5ہزار ایکڑ اراضی پر آباد متعدد گوٹھوں (دیہات) کو بزور قوت خالی کرایا جارہا ہے۔ سکرنڈ واقعہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

کیا رینجرز اور پولیس کی پریس ریلیزوں سے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جن میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انتہائی مطلوب انتہا پسندوں کی گرفتاری کے لئے گوٹھ ’’ماڑی جلبانی‘‘ میں پولیس آپریشن مقامی مسلح افراد کی مزاحمت کی وجہ سے ناکام ہوا بعد میں رینجرز نے گوٹھ ماڑی جلبانی پہنچ کر کارروائی کی اس بار دوطرفہ فائرنگ میں رینجرز کے 4 اہلکاروں کے ساتھ پولیس کا ایک اہلکار زخمی ہوگئے جبکہ 4 مقامی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

چوتھی رائے یہ ہے کہ گوٹھ ماڑی جلبانی کے مکینوں کا ایک گروپ رجب علی جلبانی کی سربراہی میں قبضہ گروپ کے طور پر سرگرم تھا ان کے خلاف کارروائی کے دوران ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ متعدد انسانی جانیں ضائع ہوئیں ایک خاتون سمیت درجن بھر افراد زخمی ہوئے ہیں۔

سکرنڈ واقعہ ہم اسے سانحہ گوٹھ ماڑی جلبانی کہہ سکتے ہیں، کے حوالے سے 4 مختلف موقف بالائی سطور میں عرض کردیئے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیجئے کہ اس سانحہ کا ذرائع ابلاغ نے مکمل بلیک آئوٹ کیا۔

بعدازاں رینجرز اور پولیس کی پریس ریلیزوں کی اشاعت کے ساتھ قوم پرستوں کی متعدد تنظیموں اور بالخصوص ایس یو پی (سندھ یونائیٹڈ پارٹی) کا اڑھائی تین سطری موقف شائع کرکے فرض ادا کرلیا گیا

ذرائع ابلاغ کے اس نامناسب بلکہ بے شرمی سے عبارت رویہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوشل میڈیا پر جس کے جو جی میں آیا اس نے لکھا۔ بعض سندھی اور غیرسندھی دوستوں نے سوشل میڈیا پر سرگرم دوسرے دوستوں کو طعنے بھی دیئے کہ سکرنڈ سندھ کے واقعہ پر وہ خاموش ہیں۔

کسی حد تک یہ طعنے درست اور جذبات کا بروقت اظہار بھی تھے لیکن کیا اس موضوع پر بات نہ کرنے والوں نے جرم کیا یا معلومات تک عدم رسائی نے خاموش رکھا؟

میں معلومات تک عدم رسائی والے نکتے کو درست سمجھتا ہوں۔ سکرنڈ ضلع نوابشاہ کی گوٹھ ماڑی جلبانی سکرنڈ شہر سے لگ بھگ 13کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ گوٹھ ماڑی جلبانی جس علاقے میں ہے اسے کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔

اس گوٹھ میں مقیم ایک قوم پرست رہنما رجب علی جلبانی پہلے جئے سندھ محاذ میں تھے آجکل مرحوم جی ایم سید کے خانوادے کی قائم کردہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی میں ہیں۔

رینجرز اور پولیس حکام رجب علی جلبانی کے حوالے سے جو دعوے کررہے ہیں ان دعوئوں کو لفظ یہ لفظ درست مان لیا جائے تو رجب جلبانی سندھ کے "ڈاکٹر اللہ نذر” قرار پاتے ہیں۔

مگر ایسا ہے نہیں۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں، دوستوں اور ذرائع ابلاغ کے ساتھیوں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق سندھ پولیس کو رجب علی جلبانی چند مقدمات میں مطلوب تھے اور یہ مقدمات سیاسی ہیں مگر پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ رجب علی جلبانی انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے (ہم آگے چل کر اس پر بات کرتے ہیں)

رجب علی جلبانی کی گوٹھ والے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ زیادہ تر گوٹھ میں ہی مقیم رہتے ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ روپوش تھے۔ یہ دعویٰ بھی ہے کہ صرف رجب علی جلبانی کے بھتیجے لیاقت علی جلبانی کا اپنے چچا سے رابطہ تھا۔

لیاقت علی جلبانی شہید محترمہ بینظیر بھٹو یونیورسٹی کا طالب علم ہے

اسے چند دن قبل پولیس نے گرفتارکرکے رینجرز کے حوالے کیا تھا یہ گرفتاری بظاہر چچا کے جائے قیام کی نشاندہی کے لئے عمل میں لائی گئی مگر پولیس پارٹی اور رینجرز اسے لے کر سیدھے گوٹھ ماڑی جلبانی ہی پہنچے۔

یہاں ایک سوال ہے، وہ یہ کہ اگر رجب علی جلبانی کے گوٹھ میں موجود ہونے کی اطلاع کنفرم تھی تو پھر یونیورسٹی میں زیرتعلیم ان کے بھتیجے کو گرفتار کرکے چچا کے مقام روپوشی کی نشاندہی کا شوشا کیوں چھوڑا گیا؟

بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں پچھلے بارہ پندرہ سالوں سے قوم پرستوں بالخصوص جئے سندھ محاذ کے شبیر قریشی گروپ اور اس گروپ سے الگ ہوکر نئی تنظیموں میں جانے والے افراد کے خلاف وفاقی وزارت داخلہ اور سندھ ایپکس کمیٹی کی ہدایات پر کارروائیاں ہورہی ہیں۔

یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ سندھ لبریشن آرمی نامی کوئی تنظیم ہے اور اسے سب سے زیادہ سہولت کاری جئے سندھ محاذ شبیر قریشی گروپ اور ایس یو پی وغیرہ کے ہمدردوں سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ دعویٰ ایک مفروضہ ہے یا حقیقت کے قریب اس کے سنجیدہ تجزیہ کی ضرورت ہے۔ مثلاً اگر سندھ لبریشن آرمی نامی کسی تنظیم کو جئے سندھ محاذ بشیر قریشی گروپ سے سہولت کاری ہوتی ہے تو پھر ایس یو پی والی بات درست نہیں کیونکہ ایس یو پی (سندھ یونائیٹڈ پارٹی) بعض قوم پرستوں اور بشیر قریشی گروپ کے نزدیک قابل اعتماد نہیں، کیوں؟

یہ ایک الگ موضوع ہے اور یہ بھی کہ اس کالم میں ہم سندھی قوم پرستوں کے باہمی اختلافات یا ایک دوسرے پر دہائیوں سے اچھالے جانے والے الزامات پر بات نہیں کررہے۔

گوٹھ ماڑی جلبانی کے افسوسناک واقعہ کے حوالے سے سامنے آنے والی مختلف آراء ابتدائی سطور میں عرض کرچکا۔ این ایس ایف کے پریس ریلیز کے مطابق یہ واقعہ کچے کی 5 ہزار ایکڑ اراضی ہتھیانے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ این ایس ایف نے سندھ کے وزیر داخلہ کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کیا اس کے خیال میں سندھیوں کی زمینوں پر قبضہ گیری کے منصوبے میں نگران صوبائی وزیر داخلہ اہم کردار ہیں۔

گوٹھ ماڑی جلبانی میں رینجرز کی فائرنگ سے 4 افراد موقع پر جاں بحق اور 10 کے قریب زخمی ہوئے۔ رینجرز اور پولیس کے 5 اہلکاروں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے جبکہ عینی شاہدین کہتے ہیں رینجرز کا ایک شخص زخمی ہوا۔ سرکاری محکموں کا

کہنا ہے کہ رینجرز اور پولیس والے جونہی گوٹھ میں داخل ہونے لگے گوٹھ کے باسیوں نے ان پر چاروں طرف سے حملہ کردیا۔

یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے، رینجرز کے اہلکاران اگر مقامی روایات سے واقف نہیں تھے تو پولیس والوں کو ان کی رہنمائی کرنا چاہیے تھی کیونکہ بقول پولیس رینجرز ان سے تعاون کے لئے آئی تھی۔

عینی شاہدین کے مطابق رینجرز اور پولیس اہلکار یونیورسٹی کے طالب علم لیاقت جلبانی جوکہ رجب علی جلبانی کا بھتیجا ہے کو جس حالت میں گوٹھ لائے اسے دیکھ کر لوگ مشتعل ہوئے۔

ماڑی جلبانی کے مکین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر واقعی رجب علی جلبانی کی گرفتاری مقصود تھی تو گوٹھ کے بزرگوں سے بات چیت کے ذریعے راستہ نکالا جاسکتا تھا۔

یہ بھی کہ یہ کیسی دوطرفہ فائرنگ تھی جس میں گوٹھ کے 4 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوئے مگر پولیس و رینجرز کے دعوے مطابق 5 اہلکار زخمی ہوئے۔

رجب علی جلبانی جن کی گرفتاری کے لئے ہونے والے ریڈ کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا ایس یو پی کے رہنما ہیں۔ خود ان کی ذات اور سرگرمیوں کے حوالے سے سرکاری موقف کے علاوہ متعدد آراء ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وہ سکیورٹی اور امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بعض سرگرمیوں میں مزاحم ہوتے تھے اس لئے ان کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔

ان کا خاندان کہتا ہے کہ رینجرز گوٹھ ماڑی جلبانی خالی کرانا چاہتی ہے۔ پہلے کئی بار دھمکیاں دی گئیں اب جعلی مقدمات کی آڑ میں گوٹھ پر چڑھائی کردی گئی۔

ماڑی جلبانی کے واقعہ کے حوالے سے قوم پرست سات مقامی افراد کے جاں بحق ہونے کا کہہ رہے ہیں۔ دیگر ذرائع 4 سے 5 افراد کے گولیاں لگنے سے جاں بحق ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔

دوطرفہ فائرنگ والی بات کی کم از کم میں تصدیق نہیں کرپایا۔ رینجرز نے کسی انتباہ کے بغیر سیدھی فائرنگ کیوں کی یہ سوال بھی ہے اور معمہ بھی۔

رینجرز کی فائرنگ سے 4 افراد موقع پر جاں بحق ہوئے ایک بعدازاں ہسپتال میں وفات پاگیا ۔ مجموعی طور پر ایک خاتون سمیت 10 افراد زخمی ہیں ان میں سے تین زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔

حرف آخر یہ ہے کہ گوٹھ ماڑی جلبانی سکرنڈ ضلع نوابشاہ کا سانحہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اس کی جوڈیشل تحقیقات کرائی جائیں۔ اسی طرح یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ قانون کے نام پر لاقانونیت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔

کیا یہ دونوں کام ہوسکیں گے؟ ہونے تو چاہئیں تاکہ پورا سچ عوام کے سامنے آئے اور یہی بہت ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author