معاشی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی تفریق اور ناہمواری وہ فالٹ لائنز ہیں جو ہمیشہ سے تھیں مگر کبھی اتنی متحرک نہ تھیں جتنی آج ہیں۔ تقسیم کے سب بیانیے مضبوط ہورہے ہیں، اتحاد کا کوئی علم بُلند نہیں ہو رہا۔
عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منظر پر نظر آنے والے دھوئیں کے پیچھے آگ کہاں لگی، یہ کسی کو نظر نہیں آ رہا۔ آگ کیسے جلی اس پر غور کرنے کو کسی کے پاس وقت نہیں۔ جو نظر میں ہے وہ منظر نہیں اور جو منظر ہے اُس کا پس منظر کیا ہے، نہیں معلوم! مگر اس کھیل میں نظر بُلند ہوتے شعلوں پر نہیں چنگاریوں پر رکھنا ہو گی۔
بجلی کے بل اور اِن بلوں کے نام پر استحصال تو جانے کب سے ہو رہا ہے مگر تلملائے ہوئے عوام کو مہنگائی اور کچھ نارسائی کا کرنٹ لگا تو وہ احتجاج منظر عام پر آنے لگا جو شاید ابھی نہ آتا۔
یہ جھٹکا بجلی کا نہیں حضور، یہ اظہار اُس استحصال کا ہے جو گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے عوام سے روا ہے۔ خدشات کے طوفان سے الامان الحفیظ کی دعا کرتے طوفان کے یہیں تھمنے کی خواہش ہے مگر کواکب کچھ اور پتہ دے رہے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
زیر زمین کئی فالٹ لائنز متحرک ہیں اور اگر آپ دیکھیں تو گذشتہ چند دنوں سے یہ تمام فالٹ لائنز متحرک ہو چکی ہیں۔ خاکم بدہن کوئی شعلہ یا کوئی چنگاری آتش فشاں کو چھیڑ سکتی ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں پے درپے ایسے واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ رُکے گا تو رُکے گا کہاں؟
جڑانوالہ میں جس انداز میں مسیحی بستی کو آگ لگائی گئی یوں تو تاحال اُس کی کڑیاں نہیں جوڑی گئیں اور نہ ہی تمام ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ انتظامیہ کی عین ناک کے نیچے عیسی نگری کا واقعہ ہوا کیسے؟ کیا کس نے؟ اور آئندہ روک تھام کیسے ہو گی؟
مملکت کی اقلیتوں کے عدم تحفظ اور عالمی سطح پر حساس فالٹ لائن پر آئے زلزلے کے بعد الائی چئیر لفٹ اور اُس سے جُڑے پراپیگنڈہ نے ففتھ جنریشن وار فئیر اور تقسیم کی لکیر کو اس طرح واضح کیا کہ ’ہم بمقابلہ وہ‘ جیسی تقسیم نے دماغ بھک سے اُڑا دیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر