نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گگن سنگھ پاکستانی اور گیند۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ واقعہ تو بہت پرانا ہے مگر کہانی‘ ادیب اور گیند کی تمثیل کا نقشہ دل میں بالکل تازہ ہے۔ چالیس سال پہلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں پہلی فیلوشپ ملی تو اس شہر میں ایک سال سے زیادہ عرصہ تحقیق و تالیف میں گزار دیا۔ اگر آپ امریکہ گئے ہوں اور کیلیفورنیا نہ دیکھاہو‘ اور کیلیفورنیا میں رہے ہوں اور برکلے اور کچھ فاصلے پر سان فرانسسکو نہ دیکھا ہو تو پھر آپ نے نصف سے زیادہ امریکہ دیکھا ہی نہیں۔ یہ شہر اپنی نوعیت کی آزاد رو‘ آزاد خیال‘ نرالی اور رنگا رنگ دنیا اپنے اندر آباد کیے ہوئے ہیں ۔ ویتنام جنگ کے خلاف مزاحمت کی لہر یہاں سے پُرزور طریقے سے اٹھی تھی۔ ثقافت‘ ادب اور سماجی تحریکوں میں برکلے امریکہ میں سب سے آگے تھا اور ظاہر ہے کہ اس حوالے سے دنیا سے بھی۔ اس سے قبل تین سال اسی یونیورسٹی کے نظام کی ایک کڑی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سانٹا باربرا میں تین سال سے زیادہ طالب علمی کے دن گزار چکا تھا۔ آج بھی امریکہ کا شہری نہ ہوتے ہوئے کئی معنوں میں خود کو کیلیفورنیا کا شہری محسوس کرتا ہوں۔ آج تک وہاں کے کلاس فیلوز سے رابطہ ہے جو سب آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی تین چار بار زندگی میں برکلے جانا ہوا۔ رونقیں وہی تھیں لیکن وہ شناسا لوگ‘ دوست اور احباب سب وہاں سے جا چکے تھے۔ وہ 1984-85ء کا زمانہ تھا اور ابھی تک ہمارے کچھ کلاس فیلو ڈگریاں لینے کے لیے تیار نہیں تھے کہ کچھ اور سال طالب علمی کی دنیا میں گم رہیں۔ اپنے پاکستانی دوستوں کے علاوہ جامعہ پنجاب کے دنوں کے نظریاتی ساتھی فیاض باقر بھی وہیں تھے‘ جو آج کل کینیڈا میں درس و تدریس میں مصروف ہیں۔ وہاں ملے تو ایک نئی دنیا آباد ہوگئی۔
ہم انقلابی تھے اور پاکستان میں اشتراکی انقلاب کی منصوبہ بندی اور نظریاتی مباحثوں اور چھوٹی موٹی جدو جہد میں سب نے کچھ حصہ ڈالا ہوا تھا۔ ہمارے امریکہ میں بسنے والے وہ ساتھی بھی تھے جو چند بار سر گنگا رام ہسپتال کے سامنے واقع امریکی سنٹر کے باہر مظاہرے بھی کر چکے تھے مگر پاکستان کے حالات کے جبر اور علم کی جستجو نے سب کو امریکہ کی طرف دھکیل دیا تھا۔ مجھے کسی میں کوئی مجبوری کا احساس نظر نہیں آیا تھا۔ سب تعلیمی اداروں میں داخلہ لے کر اسناد حاصل کر چکے تھے اور ادھر اُدھر کچھ کام بھی کر رہے تھے۔ امریکی تعلیم کے باجود مارکسی سماجی علوم سے ہم سب کا قریبی نظریاتی رشتہ رہا ہے۔ یہ وہی حوالہ تھا جو ہمیں دوبارہ گروہی شکل اختیار کرنے میں کام آیا۔ وہاں کی مصروف زندگی میں ہماری ملاقاتیں ہفتے کے اختتامی دنوں میں ہوتی تھیں۔ پاکستان کی سیاست اور نظریات ہمیشہ زیر بحث رہے۔ اپنی نظریاتی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے فیاض باقر کی زیر قیادت ہم نے برکلے پاکستان ڈیمو کریٹک کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان سے کوئی ادیب‘ شاعر‘ دانشور یا صحافی امریکہ کے مغربی ساحل کی طرف آتا یا ہم میں سے کسی سے رابطہ کرتا تو ہم اُسے اپنے ہاں دعوتِ کلام اور خطاب دیتے۔ کئی دن عبداللہ ملک نے ہمارے اِن دوستوں میں سے ایک کے ہاں گزارے۔ اُن سے تقریباً ہر روز شام کو ہم سب ملنے کے لیے جاتے۔ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا تھے اور کمال کی یاد داشت رکھتے تھے۔ تمام زندگی صحافت میں گزاری تھی۔ اُن کی پنجاب کی سیاسی تحریکیں اور محترم محمود قصوری کی سوانح عمری‘ سیاسی علوم اور پاکستان کی تاریخ میں انمول اضافہ ہیں۔ اور بھی لوگ آتے جاتے رہے اور ہم پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کا منشور برکلے میں ان کے سامنے رکھتے۔ اس بارے میں ہم جنوبی ایشیا کے ممالک سے آنے والے دانشوروں کا خیر مقدم بھی کرتے اور اُن سے مستفید بھی ہوتے۔
ایک روز کیمپس کی مرکزی لائبریری کے اندر وسیع استقبالیہ میں داخل ہوا تو سامنے دراز قامت‘ سفید ریش پنجابی سکھ سردار صاحب دکھائی دیے۔ ہم بڑوں سے ہمیشہ ملنے میں پہل کرتے ہیں لہٰذا میں نے بغیر کسی تامل کے انہیں سلام کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ بہت خوش ہوئے۔ کہیں فوراً بیٹھنے اور کافی پینے کو کہا۔ پھر پنجاب کے بارے میں پنجابی میں باتیں ہونے لگیں۔ یہ پہلی ملاقات دوستی میں بدل گئی۔ ان کے تعارف کی درخواست کی تو جیب سے ایک کارڈ نکالا اور ساتھ ہی بولے: گگن سنگھ پاکستانی۔ کچھ چونکا‘ کچھ حیران ہوا کہ اپنے ناموں کے ساتھ تو پاکستان میں کسی کو پاکستان کا سابقہ لگاتے نہیں سنا تھا مگر یہاں دیارِ غیر میں گگن سنگھ پاکستانی کہلانے پر مُصر ہیں۔ سوال کر ڈالا کہ آپ بھی پاکستان میں رہے ہیں؟ کہا کہ نہیں‘ چھوڑ کر آگئے تھے۔ غالباً منٹگمری کے علاقے سے فسادات کی مجبوری سے ہجرت کرکے سرحدپار چلے گئے تھے اور پھر وہاں سے کیلیفورنیا۔ کہنے لگے جو ہندوستان سے پاکستان گئے ہیں‘ وہ خود کو لکھنوی‘ جالندھری‘ ہوشیار پوری اور امرتسری اور دہلوی کہلاتے ہیں تو میں نے سوچا کہ میں اپنے وطن کی یاد میں اپنے نام کے ساتھ پاکستانی کیوں نہ لکھوں۔ میں نے عرض کی مجھے تو بہت خوشی ہوئی کہ آپ پاکستان کی مٹی سے اب بھی محبت کرتے ہیں اور وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں۔ باتوں ہی باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ پنجابی کے بہت بڑے لکھاری اور ادیب ہیں۔ میں نے اُنہیں برکلے پاکستان ڈیمو کریٹک کمیٹی میں مدعو کر لیا کہ آپ اپنی لکھی ہوئی کوئی کہانی سنائیں۔
اگلے ہی ہفتے کے اختتام پر وہ ہمارے مہمان تھے۔ شام کے وقت نشست کا بندوبست کیا۔ ان کے ارد گر د ہم جمع ہوگئے اور اُنہوں نے ”گیند کی کہانی‘‘ پنجابی میں پڑھنا شروع کر دی۔ اس سے پہلے اتنی خوبصورت ادبی پنجابی میں کچھ سننے کا موقع نہیں ملا تھا۔ ہر دو چار منٹ بعد واہ واہ کے نعرے لگتے۔ کہانی میں ہاکی کے میدان کا تفصیلی نقشہ بہت ہی رنگدار اسلوب میں انہوں نے اس طرح کھینچا کہ دونوں طرف کے کھلاڑی ہاکیاں لے کر گیند کے قریب جانے کے لیے ہر طرف دوڑ رہے تھے۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ گیند پر کبھی ہلکی پھلکی اور کبھی زور دار ضرب لگائے اور اسے میدان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھینک دے۔ دوسری جانب سے بھی زور دار ہاکی پڑتی تو گیند کسی اور کونے کی طرف فراٹے بھرتی نکل جاتی۔ ہر ایک گیند پر ضربیں لگا رہا تھا۔ انہوں نے گیند کی تکلیف‘ اذیت اور چوٹیں کھانے کا جو نقشہ کھینچا وہ میرے بس کی بات نہیں۔ آ خر کار گیند کے لیے ان چوٹوں کا عذاب نا قابلِ برداشت ہو گیا تو اس نے اپنی زبان کھول دی۔ جونہی اس نے زبان کھولی ہاکیاں برسنا بند ہو گئیں اور گیند آزاد ہو کر میدان سے باہر نکل گئی۔ زبان کھلنے کے بعد کوئی پھر اس کے پیچھے نہیں بھاگا۔ زبان گیند کا وہ حصہ ہے جو اس کے دو حصوں کو سلائی سے جوڑتا ہے۔
ایسا لگا کہ یہ کہانی ہمارے لیے گگن سنگھ پاکستانی نے لکھی ہے کہ جب تک زبان نہیں کھولو گے‘ ظلم اور نا انصافی کی ہاکیاں تمہارے اوپر اسی طرح برستی رہیں گی۔ جب تک اپنی زبان نہیں کھولو گے‘ حقوق نہیں مانگو گے‘ جبر و استبداد کے سامنے نہیں کھڑے ہو گے تو ہاکی کی گیند بن کر زندگی کی اذیتیں برداشت کرتے رہو گے۔ واپس آیا تو گگن سنگھ پاکستانی سے کچھ عرصہ خط و کتابت جاری رہی۔ اکثر وہ خط کا کوئی حصہ بھی خالی نہ چھوڑتے اور لکھتے کہ یہ جگہ خالی تھی‘ سوچا کہ کچھ شعر بھی آپ کے لیے لکھ دوں۔ اُن کی خواہش تھی کہ پاکستان میں ان کی کہانیوں کی اشاعت کا بندوبست کروں۔ افسوس میں ایسا نہ کر سکا اور چند سال بعد اُن سے رابطہ بھی ٹوٹ گیا۔ ان کی شخصیت اور گیند کی کہانی کا اثر چالیس سال بعد آج بھی قائم ہے۔ مگر برکلے پاکستان ڈیموکریٹک کمیٹی کی یادیں اب مدہم ہوتی جارہی ہیں کیوں کہ ڈیموکریسی کے نام پر کیا کیا تماشے دیکھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author