نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انوار الحق کاکڑ۔ نگران وزیر اعظم !۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی ملاقات میںنگران وزیر اعظم کیلئے انوار الحق کاکڑ کے کا نام پر اتفاق کر لیا گیا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے سمری پر دستخط کیے جانے کے بعد انوار الحق کاکڑ نگراں وزیراعظم بن گئے جس کے بعد انہیں وزیر اعظم کی سکیورٹی بھی دیدی گئی ہے، انوار الحق کاکڑ ملک کے 8 ویں نگران وزیر اعظم ہوںگے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے درمیان نگراں وزیراعظم کے نام پر مشاورت کا دوسرا دور ہوا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان نگراں وزیراعظم کے تقرر سے متعلق حتمی مشاورتی عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہوا ۔نگران وزیر اعظم سینیٹر انوار الحق کاکڑ بلوچستان عوامی پارٹی سے وابستہ ہیں ۔2018ء میں سینیٹر منتخب ہوئے اور وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانی کے چیئرمین ہیں، انوار الحق کاکڑ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کاکڑ سے ہے، انہوں نے کوئٹہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے، یونیورسٹی آف بلوچستان سے پولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی میں ماسٹرکیا۔سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے 2008 میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پرکوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں انہیں کامیابی نہ مل سکی، سینیٹر انوار الحق کاکڑ 2013ء میں بلوچستان حکومت کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل میں ان کا کلیدی کردار رہا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح الیکشن کے بعد وزیر اعظم منتخب کرانے کیلئے لابنگ کی جاتی ہے ، نگران کیلئے بھی اتنا ہی زور لگایا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے پاس 3 دن کی مہلت آئین دیتا ہے جس کے تحت دونوں طرف سے تین، تین نام پیش ہوتے ہیں اور اس میں سے ایک نام پر اتفاق رائے ہونا ضروری ہے ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جہاں سیاسی جماعتیں اپنا اپنا وزیر اعظم لانے کی خواہش مند رہتی ہیں وہاں عوامی سطح پر لوگ بھی اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے ہی علاقے سے نگران وزیر اعظم نامزد ہو۔نگراں وزیر اعظم کیلئے سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے کے نام بھی سامنے آتے رہے،قبل ازیں اسحاق ڈار، حفیظ شیخ، صادق سنجرانی، محمد میاں سومرو اور اسلم بھوتانی سمیت کئی شخصیات کے نام بھی زیر گردش رہے۔ نگران وزیراعظم کے لیے نواز شریف اور آصف علی زرداری نے دو ہفتے قبل دبئی میں اہم مشاورت کی تھی، واقفان حال بتاتے ہیں کہ دونوں رہنمائوں نے اصولی طور پر اتفاق کیا کہ نگران وزیراعظم کے لیے کسی معتبر سیاستدان کا نام آگے بڑھایا جائے گا۔ نگران سیٹ اپ کیلئے آئین کیا کہتا ہے؟ اس سلسلے میں سب آئین کی بات کرتے ہیں مگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کی پسند کو ہی ملحوظ خاطر رکھا جائے ،چاہے وہ آئین سے متصادم ہی کیوں نہ ہو، مقتدر حلقوں کی بات فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اصل بات آئین پر عملدرآمد کی ہے ، افتخار چوہدری کی عدالت سے فیصلہ آیا تو یوسف رضا گیلانی کو ہٹا دیا گیامگر عمر عطاء بندیال کے فیصلے کو نہیں مانا گیا۔سیشن جج کے فیصلے کو مان لیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے کو تسلیم نہ کریں مگر نام سب فیصلے کا لیتے ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے آئین کے تحت خط کے ذریعے وزیراعظم اور قائدحزب اختلاف کو بارہ اگست تک نگراں وزیراعظم کا نام دینے کے لیے کہا تھا ۔آئین کے تحت وزیر اعظم اور قائدحزب اختلاف کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 3 دن کے اندر نگراں وزیراعظم کا نام تجویز کرنا ہوتا ہے،خط میں کہا گیا تھا کہ میں نے وزیراعظم کی ایڈوائس منظور کرتے ہوئے 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی، اب وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف بارہ اگست تک موزوں نگران وزیر اعظم کا نام تجویز کریں۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا کہنا ہے کہ تجویز تھی کہ نگران وزیر اعظم چھوٹے صوبے سے ہو۔ سوال یہ ہے کہ صرف نگران وزیر اعظم ہی کیوں؟ دیگر معاملات میں بھی بلوچستان کو اولیت ملنی چاہئے ۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ بڑے چھوٹے صوبوں کا فرق جس قدر ممکن ہو کم کرنا چاہئے اور اس کیلئے مزید صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ وفاق مضبوط اور متوازن ہو سکے۔ میاں شہباز شریف اور راجہ ریاض نے جس طرح بلوچستان کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے اسی طرح وسیب کو بھی کریں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین نے نگران وزیراعظم کیلئے اپوزیشن لیڈر کی جانب سے دئیے گئے ناموں کی حمایت کی تھی جبکہ مسلم لیگ کے چیف آر گنائزر چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کو نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورتی عمل میں شامل نہیں کیا گیا جو بات چوہدری سرور نے کہی یہی اعتراض قوم پرست جماعتوں کو بھی ہے۔ پورے ملک میں نگران سیٹ اپ کیلئے ہنگامہ خیزی ہے ، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں پہلے تحلیل ہوئیں، بعد میں مرکز کی باری آئی اور آخر میں سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی تحلیل ہو چکیں ( یہ سطور لکھنے تک وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس پر دستخط کر دئیے ہیں اور ایڈوائس گورنر بلوچستان کو بھجوا دی ہے) ۔ ادھر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر رعنا انصار کے درمیان نگران وزیراعلیٰ کے لیے نام طے نہیں کیا جاسکا۔ ایک طرف کرسی اور اقتدار کی جنگ جاری ہے ، دوسری طرف مہنگائی نے غریب عوام کو کچومر نکال دیا ہے، بجلی اور گیس کے بھاری بلوں کی وجہ سے خود کشی کے واقعات بھی رونما ہوئے ، عمران خان کے دور میں بھی ریلیف کی بجائے غریب کو تکلیف ملی اور شہباز شریف کے دور میں تو عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا ۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ حکومت کے اپنے ادارہ شماریات نے ملک میں مہنگائی کے ہفتہ وار اعداد و شمار جاری کئے ہیں جس کے مطابق مہنگائی کی مجموعی 30.82 فیصد تک پہنچ گئی، گزشتہ ہفتے 29 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے، دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومتوں کے دور میں غریب کو کیا ریلیف ملتا ہے؟

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author