نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"مہاتما”||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق وی سی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو ایک داد تو دینی پڑے گی کہ جب جب کسی رپورٹر نے ان کی کسی مالیاتی یا انتظامی بے ضابطگی کا سراغ لگایا یا اس تک لوگ معلومات لیکر پہنچے یا کسی مالی/اخلاقی /انتظامی کرپشن میں مبتلا اس وی سی کے منظور نظر یونیورسٹی ملازمین یا فیکلٹی ممبر کے بارے میں سراغ لگا اور اس نے پوری تحقیق کے بعد جب ان کے موقف کو جاننے کے لیے رابطہ کیا تو پہلے یونیورسٹی ترجمان کے طور پر کام کررہے ان کے مبینہ چرب زبان سامنے آتے اور جب وہ رپورٹر کو قائل نہ کرواتے تو پھر وی سی خود میدان میں اترتے براہ راست رابطہ کرنے سے پہلے وہ لاہور،کراچی، ملتان ،اسلام آباد میں ‘وڈے وڈے صحافیوں’ کے فون کراتے ،یہ وڈے نام وہ ہوتے تھے جن کو اکثر یونیورسٹی پروگراموں میں بلایا جاتا، ان کو بہت سے فائدے پہنچائے جاتے اور کئی ایک کو اس جامعہ میں ویٹنگ لیکچرار یا ریسرچ ایسوسی ایٹس بھی بنایا جاتا – اگر وہ رپورٹر اس سے متاثر نہ ہوتا تب وی سی خود میدان میں اتر جاتا اور رپورٹر کو اسلامیہ یونیورسٹی میں وی سی اپنی رہائش گاہ پر شرف ملاقات بخشتا اور وہ بھی گیٹ پر چیف سیکورٹی افسر گارڈز کے ساتھ اسکواڈ گاڑی لیکر آتا اور یوں وہ وی سی ہاوس شان شوکت سے لیجایا جاتا – وی سی پہلے تو اپنے پی ایس او کی موجودگی میں ملاقات کرتے اور اس دوران وہ سب سے پہلے تو آنے والے کو یہ بتاتے کہ وہ متحدہ ہندوستان کے دیوبند کے کس جید عالم دین کے پوتے ہیں اور کیسے ان کے والد علیگڑھ سے تعلیم یافتہ تھے -اور پھر وہ اپنے خاندان کو پاکستان بالخصوص سندھ کی عوام کے لیے تعلیمی خدمات کے اعتبار سے سرسید وقت ثابت کرتے – اس کے بعد وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی تعلیمی ترقی کے میدان میں ساکھ کی ایک ایسی دلفریب کہانی بیان کرتے کہ سننے والے کو لگتا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی وی سی شپ قبول کرنا اطہر محبوب کی طرف سے ریاست بہاولپور کی عوام پر بہت بڑا احسان عظیم ہے اور یہ شخص گوتم بدھ سے بھی بڑی شخصیت ہے- اس دوران آدمی کو یہ بھی لگنے لگتا تھا جیسے اس کی خدمات،ایثار اور قربانی کے سامنے تو ہمارے کرار صاحب بھی کچھ نہ تھے –
اب اس کے بعد سابق وی سی کی تان یہاں پر ٹوٹتی کہ وہ مذکورہ رپورٹر کو اگر وہ چاہیں تو ایم فل /پی ایچ ڈی کی سہولت فراہم کرسکتے ہیں اور اگر ایم فل /پی ایچ ڈی ہیں تو انہیں ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے منسلک کیا جاسکتا ہے – ساتھ ساتھ جامعہ میں نوکریاں مشتہر ہونے پر انہیں نوازا جاسکتا ہے – ساتھ ساتھ اشتہارات کی صورت میں ترجیحی بنیادوں پر بزنس دیا جاسکتا ہے –
ملاقات کا بنیادی مدعا یہی ہوتا تھا کہ رپورٹر کسی بھی طرح سے جامعہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حوالے سے اپنی تحقیقاتی رپورٹنگ کو بالائے طاق رکھ دے اور جیسے دوسرے گنگا اشنان کررہے ہیں وہ بھی کرلے –

اب بھی اگر رپورٹر باز نہ آیا تب یہ اس اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر، چیف ایڈیٹر یا پھر براہ راست مالکان سے رابطہ کرلیتے اور رپورٹر یا تو رپورٹ ڈراپ کرنے پر مجبور ہوتا یا پھر نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا-
اور وی سی کی قسمت خراب ہوتی اگر آگے سے اخبار کوئی علاقائی ہوتا اور اس کی ایڈمنسٹریشن تھوڑی انقلابی ہوتی اور وہ اڑ جاتی تب بھی مہاتما وی سی ہمت نہیں ہارنے تھے یہ اس اخبار کے ہیڈماسٹر والے شہر میں پریس کلب میں منڈلی جماتے اور اپنے بھرپور تعلقات کے بل بوتے پر ایڈمنسٹریشن اور سرپھرے صحافی کو یہ باور کرانے، ‘لو اب جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو’

ملتان سے شایع ہونے والے ایک اخبار کے انوسٹی گیشن سیل نے شاید پہلی بار بڑی مستقل مزاجی اور تگ و دود کے بعد نیب، اینٹی کرپشن ، ایف بی آر، ایچ ای سی ، چیف منسٹر آفس، گورنر پنجاب آفس میں اس وی سی ، رحیم یار خان کیمپس ، بہاولپور کیمپس کے فیکلٹی و نان فیکلٹی افسران کے خلاف زیر التوا درجنوں انکوائری کی دستاویزات حاصل کیں اور ان کو شایع کرنا شروع کیا تو وہ سب کچھ ہوا جس کا مینے اوپر ذکر کیا –

جو ایڈیٹر انوسٹی گیشن اس بارے میں اپنی ٹیم کے ساتھ تحقیقات کررہا تھا اس نے بتایا کہ کیسے اسے اس وی سی کے لے پالک صحافی نما گدھ جاتی کے لوگ اس قدر مشترک ہوئے کہ خفیہ مہم شروع کی اور یہاں تک کہ اخبار مالک کو کہا کہ ایڈیٹر انسٹی گیشن کو فارغ کردیں بدلے میں بزنس کے نام پر ماہانہ بزنس طے کرلیں اور وہ بھی ایڈوانس ادائیگی کے ساتھ – لیکن اخبار کا مالک جو خود آئی آر میں پی ایچ ڈی تھا اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا –

ایڈیٹر انوسٹی گیشن نے بھی پہلی تحقیقات رحیم یار خان کیمپس کے دو افسران کی جانب سے فیکلٹی اور نان فیکلٹی خواتین اور طالبات کے ساتھ ہراساں وجودی ھراسانی کی شکایات سے کیا تھا – اس پر اس ایڈیٹر انسٹی گیشن کی ثابت قدمی اور اس کے اخبار کے مالک کی ایمانداری کے سبب ایچ ای سی کی انکوائری کمیٹی بنی لیکن ایچ ای سی جنوبی پنجاب کے ڈائریکٹر سمت تین رکنی کمیٹی نے غیرجانبداری سے انکوائری نہ کی اور جو لوگ کھڑے ہوئے الٹا ان کے خلاف کاروائی شروع ہوگئی القدر دباؤ پڑا کہ متاثرین چپ ہوکر بیٹھ گئے – اس دوران اصل معاملے پر تو "وڈے وڈے اینکرز،کالم نگار، رپورٹرز” نے توجہ نہ کی اور نہ ہی ایچ سی پر دباؤ ڈالا کہ وہ غیرجانبدار انکوائری کرے الٹا وہ مہاتما وی سی کی پاکدامنی، ایمانداری ، نابغہ ہونے اور عبقری ہونے کے ڈھونڈنے پیٹتے نظر آئے-

اس مرتبہ بھی سابق وی سی نے اپنے حدی خوانوں کو آواز تو خوب دی تھی اور وہ حدی خواں لبیک لبیک کی صدا لگاتے حاضر بھی ہوئے لیکن چلی ایک نہیں –
یہ جو کسی کو ادارے کے لیے ناگزیر بناکر پیش کرنے کا خبط ہے جس کے پیچھے اکثر مادی مفادات کارفرما ہوتے ہیں ادارے کے لیے تباہی کا سبب بنتا ہے-

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سابق وی سی اطہر محبوب کو قلم فروش، لسان فروش قبیلوں کے لوگ مہاتما بناکر پیش کررہے تھے اور کچھ ہمارے قلم برادری کے بھائی اتنے سادہ لوح تھے وہ قلم فروش قبیلے کے قصیدوں کو ناقابل تردید سچ سمجھ بیٹھے اور لگے وہ بھی یہی مہاتما ہونے کا تان پورہ بجانے لیکن ان سب نے مل کر اتنی بدحواسی اور شدت سے تان پورہ بجایا کہ وہ پھٹ ہی گیا –

کہا جارہا ہے کہ مہاتما نے وی سی شپ چھوڑ دی حالانکہ مدت پوری ہونے اور دوبارہ تعیناتی نہ ملنے پر مہاتما کو جانا پڑا – اسے بھی قلم فروش اور پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق سادہ لوح اس میں بھی مہاتما کی عظمت کے نشان ڈھونڈنے ،دیکھنے دکھانے میں مصروف ہیں#
#iub

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author