ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیے بات کرتے ہیں اسلامیہ یونی ورسٹی کی۔
بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ لعن طعن، گالیاں، کس کا قصور؟ کون جابر؟ کون مجبور؟ کون ظالم؟ کون مظلوم؟ کبھی استاد مجرم نظر آتا ہے، کبھی لڑکیاں؟ کیا لڑکیاں کہنا کافی ہو گا؟
کیوں نہ پہلے ہم کچھ بنیادی باتوں پر بات کرنے کی کوشش کریں۔
سب سے پہلا نکتہ ہے طاقت۔ کمزور اور طاقتور کا ٹکراؤ۔ یہ مانا جا چکا ہے کہ جب بھی کمزور اور طاقتور کی جنگ ہو گی، طاقتور ہی مجرم ہو گا کیوں کہ اس کے پاس زیادتی کرنے، جیتنے کی خواہش کرنے، جیتنے، جائز و ناجائز کرنے بل کہ جائز و ناجائز کم و بیش سب نہیں تو بہت سے حربے موجود ہوں گے۔
دوسرا نکتہ۔ حیثیت ؛ وہ فریق جس کے پاس بحیثیت اختیار موجود ہے وہ اختیار جس سے دوسرے فریق کو پچھاڑا جا سکتا ہے۔ امتحان میں کامیابی، زیادہ نمبر، اور بے شمار اور فائدے اسی اختیار کی چھتری تلے آتے ہیں۔
تیسرا نکتہ۔ طاقت کی اخلاقیات یا طاقتور کا اخلاقی کردار۔
طاقتور جس مقام پر ہے اس کے تقاضوں اور اسباب میں دوسرے فریق کو اور اس کی زندگی کو بنانا، اسے سیدھی راہ پر چلانا، سکھانا، یہاں تک کہ اسے سوچنا سمجھنا تک سکھانا، ایک مقام تک رسائی اور اس کی عزت حاصل کرنا اور پھر اسے قائم رکھنا تک شامل ہے۔
چوتھا نکتہ۔ ادارے کا تشخص، یعنی وہ جگہ جس نے وہاں آنے والیوں اور والوں کی زندگیوں کو فائنل ٹچ دینے ہیں۔ انہیں معاشرے کے بہترین افراد بننے میں مدد دینے کی ذمہ داری لی ہے اور اس سے وابستہ افراد اپنے اس بنیادی فرض کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
پانچوں نکتہ۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا معیار کیا ہو گا؟
یعنی اس صلاحیت کا تعین اگر نمبروں سے کیا جائے اور نمبر کم زیادہ کرنے میں اگر کوئی طاقتور، کمزور کی کمزوری سے فائدہ اٹھا سکتا ہو، تو اس کا توڑ کیسے کیا جائے؟
اب بات کو ایک اور طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرض کیجیے ایک پرائمری سکول کی بچیاں نادانی سے، بھول پن سے یا کچھ بھی کہہ لیجیے، اپنے استاد سے کچھ بے تکلف ہو جاتی ہیں یا ہونا چاہتی ہیں۔ کیا وہ استاد ان بچیوں کو طریقے سے حدود کی راہ دکھائیں گے یا انہیں سیدھا بستر پر لے جائیں گے؟
پہلی بار انیس سو پچپن میں شایع ہونے والے ولادیمیر نیبوکوف کا شہرہ آفاق ناول لو لیتا میں ناول کا مرکزی کردار انگلش لٹریچر کا پروفیسر ہیمبرٹ اپنی بارہ برس کی سوتیلی بیٹی سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے۔ بیٹی مزاحمت نہیں کرتی کیوں کہ اس میں عمر رسیدہ لوگوں کو پسند کرنے کا رجحان ہے۔ آگے چل کر ہمبرٹ لولیتا کا باپ، محبوب اور تجاوز کرنے والا بن کر بھی رہتا ہے۔
آپ میں سے جن لوگوں نے فلم دیکھی ہو گی انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لولیتا کو ہمبرٹ سوتیلا باپ بننے سے پہلے ہی پسند آ گیا تھا لیکن۔ کیا معاشرتی قواعد و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ اگر ایک کم سن بچی کسی بھی وجہ سے لولیتا کی طرح سوچنے لگے تو اس کے ساتھ کیا ہیمبرٹ جیسا رویہ اختیار کیا جانا چاہیے؟ کیا اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے؟
اب اس تمہید کو اسلامیہ یونی ورسٹی پر رکھ کر دیکھیے۔ ذہنی اور جذباتی لحاظ سے کمزور بچیاں، ہزار پابندیوں اور پہروں میں پل کر بڑی ہونے والی چھوئی موئی کی پتلیاں پہلی بار دنیا کا مقابلہ کرنے نکلی ہیں۔
دوسری طرف شاطر اور گھاگ استاد، گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے اپنی حیثیت اور اختیار پر نازاں۔
جانتے ہیں کچھ بھی کر لیں، کچھ بھی کہہ لیں، کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ شطرنج کی بازی کے سب مہرے ان کی جیب میں۔
مگر ایک بات ادارہ اور یہ استاد فراموش کر دیتے ہیں کہ وہ ہیں کون؟ کس کرسی پر کس حیثیت سے بیٹھے ہیں؟
کسٹوڈین، محافظ، روحانی باپ، استاد، زندگی کی مشکل راہوں کے لیے آگہی بانٹنے کی ذمہ داری ان کے سر۔
ایسے میں اگر کوئی بچی/ لڑکی نادان ثابت بھی ہو تو کیا وہ ہمبرٹ بن جائیں گے؟ پرائمری سکول کا وہ استاد بننا ان کی چوائس ہو گی جو کم سنی اور نادانی سے فائدہ اٹھائے؟ یا روحانی باپ کے رتبے کی لاج رکھتے ہوئے بچیوں کی نادانی اور بے سمجھی کو عقل مندی سے ڈیل کریں گے؟
یاد رکھیے، جو کرسی آپ کے زانو کے نیچے ہے اس کا اختیار اور طاقت اس قدر ہے کہ بہت سے کمزور اس کے اثر میں آ کر اپنا گلا خود ہی کٹوانے پر تیار ہو جائیں گے۔
طلبا اور طالبات کا اساتذہ اور استانیوں سے جذباتی اور رومانی تعلق کا پیدا ہونا بہت غیر فطری اور بعید از قیاس نہیں۔ اس کی کثیر الجہتی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔
اس لیے یہ ہر سطح پر طلبا یا طالبات کا نہیں اساتذہ اور استانیوں کا امتحان ہے۔ کیا وہ کسی کمزور اور نادان کو اس دلدل میں داخل ہونے دیں گے؟ اس کے غرق ہونے کی وڈیو بنا کر اپنے آپ کو انسان ہونے کے درجے سے گرا کر حیوان بنا لیں گے؟
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر