ایسے معصوم پھول انسانی غفلت کے باعث مسلے جائیں تو ہر صاحب اولاد کو دکھ اور تکلیف ضرور ہوتی ہے
مگر اس شہر بے نوا جام پور میں کس قدر بے حسی ہے شاہ جمال کالونی میں مین ہول میں گر کر یہ بچی ہمیشہ کیلئیے ابدی نیند سو گئی
شاید دکھی اور غریب والد محمد اویس ” منہ زور طاقتور وں ” کے دباو میں آکر معافی نامہ لکھ دے یا لکھ بھی چکا ہو مگر اس خوبصورت بچی کی ماں پر کیا گزر رہی ہوگی اس اذیت اور درد کو بے حس لوگ کب محسوس کیا کرتے ہیں ۔
حکومت پنجاب کا گزشتہ دوسال سے نوٹیفیکیشن موجود ہے کہ مین ہولز کے ڈھکن نہ ہونے کے باعث کسی بھی انسانی جان کے ضیاع پر مقدمہ بلدیہ حکام کے خلاف ہوگا مگر جام پور بلدیہ کے ” گرگ ماہرین ” نے انتہائی ہوشیاری سے ملبہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ پر ڈال دیا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے ۔
اس بچی کے خون ناحق کا ذمہ دار کون ہے ؟ اسکا تعین کرنا سرکاری ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے مگر اس واقعہ پر شہریوں کی خاموشی بھی معنی خیز ہے محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ہم سب جام پوری مکمل بے حس ہو چکے ہیں
۔کیونکہ چند ٹکے بھتہ کے عوض بھاری ٹریفک نہایت دھڑلے کے ساتھ شہر سے گزررہی ہے ۔تجاوزات کی بھر مار ہے ریڑھی مافیاء رکشہ مافیاء نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اب ” بکرا فروش مافیاء ” نے اہم چوکوں اور روذز پر قبضہ کر لیا ہے گلی محلے گندگی اور سیوریج کے گندے پانی سے اٹے ہوے ہیں چلڈرن پارک کو مکمل فلتھ ڈپو بنا دیا گیا ہے ۔
ہمارے شہر کے ” عوامی نمائندے ” سب اچھا ہے کی رٹ لگائے رکھتے ہیں
ڈپٹی کمشنر صاحب جو بھی تعینات ہوتے ہیں شاید انہیں یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جام پور بھی راجن پور کا حصہ ہے۔۔
لکھنے اور بولنے کو تو بہت کچھ ہے مگر کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں اور بقول شاعر۔
*میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
سارے شہر نے پہن رکھے ہیں دستانے
راجن پور سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون