حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونانی ساحل کے قریب تارکین وطن کی لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی ڈوبنے سے سینکڑوں افراد موت کا زرق بن گئے۔ مرحومین میں پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاوہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
پچھلے دو تین دن سے سوشل میڈیا کے پاکستانی صارفین اس انسانی المیہ پر نوحہ کناں ہیں۔ چند صارفین نے سنجیدہ سوالات یقیناً اٹھائے ہیں لیکن اکثریت وہی لکیر کے فقیر والی صورتحال کا شکار ہے ۔
اس انسانی المیے کا ذمہ دار کون ہے کچھ کے خیال میں وہ استحصالی نظام جو اس ملک پر مسلط ہے۔ کچھ حکومت اور مسلسل اقتدار میں رہنے والوں کو مجرم قرار دے رہے ہیں۔ چند ایک نے یورپی ممالک تک رسائی کے اس جنون پر بھی بات کی ہے جس کے ہمارے نوجوان اسیر ہیں لیکن کیا ہم ان والدین کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں جنہوں نے 20سے 25لاکھ روپے کا سرمایہ انسانی سمگلروں کے حوالے کیا اور جوان بیٹے کو ان دیکھی موت کے سپرد کردیا؟
انسانی سمگلروں کا تو دھندہ یہی ہے سبز باغ دیکھانا، سبز باغوں کے تعاقب میں رہنے والے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے آنکھیں چراتے ہیں۔ جو والدین اپنے صاحبزادے کو یورپ بھجوانے کے لئے کسی بھی طرح 20سے 25لاکھ روپے جمع کرکے انسانی سمگلر کو دیتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اتنی رقم دینے کے بعد بھی بیٹا غیرقانونی طور پر جارہا ہے راستے کی مشکلات و مسائل ان دیکھی موت ان میں سے کسی نے ڈس لیا تو کیا ہوگا؟
ابتدائی طور پر 1500سے 2000 ڈالر فی کس اور گاہے اس سے زیادہ رقم فی کس لی جاتی ہے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچانے کے لئے۔
ایک پہلو یہ ہے کہ استحصالی نظام، طبقاتی امتیازات اور دوسرے مسائل نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ پہلو حقیقت کے قریب ہی ہو۔ سوال یہ ہے کہ اپنے بچوں کو غیرقانونی طور پر یورپ بھجوانے کے لئے اہلیہ و بیٹیوں کے زیور فروخت کرنے، قرضے لینے، مکان اور تھوڑی بہت دستیاب زرعی اراضی رہن رکھنے کے بعد بھی یہ سوچنے کی زحمت کیوں نہیں کی جاتی کہ جوان بیٹا اگر کسی مشکل سے دوچار ہوا تو کیا ہو گا؟
اچھا اس استحصالی نظام سے فرشتوں نے آسمان سے اتر کر نبردآزما ہونا ہے یا اس کے خلاف جدوجہد کرنا ہمارا فرض ہے؟
ہم مان لیتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ 20سے 25 لاکھ روپے دے کر غیرقانونی طور پر یورپ جانے کا خطرہ مول لینے کی بجائے اس رقم سے اپنے ہی ملک اور شہر میں چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کا مشورہ دینے والے احمقوں کے جنگل میں بستے ہیں بھلا یورپ کی کمائی سے مقامی چھوٹے موٹے کاروبار کی آمدن کا کیا مقابلہ۔
لیکن یہ بھی سوچئے کہ اگر خاکم بدہن پہنچ ہی نہ پائے اور یورپ کی آمدنی کیا نعش بھی نہ ملی تو زندگی کیا ہے۔
کیا تمام تر ذمہ داری حکومت اور استحصالی نظام کی ہے؟ اس میں دوسروں کے پختہ گھر ڈالروں و یوروز کی آمدنی اور دیگر معاملات کا کوئی عمل دخل نہیں۔ کیا سونامی کی طرح بڑھتی آبادی میں حصہ ڈالنے کے لئے حکومت کہتی ہے ۔
ایک سوال اور ہے کہ یہ کہ حالیہ انسانی المیہ میں موت کا رزق بننے والے بچوں (بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں صاحبان اولاد کے لئے) میں سے زیادہ تر کی تعلیمی قابلیت کیا تھی ان میں سے کتنے اس تعلیم کے حامل تھے جو کسی نئے معاشرے اور نظام میں قانونی طور پر بسنے میں معاون بن سکتی تھی؟ کتنے بچے بس واجبی پڑھے لکھے تھے اور ان کے ذہن میں یہ سوچ راسخ تھی کہ وہ جو کچھ یہاں نہیں کرسکتے یورپ کے کسی ملک میں کرپائیں گے نہ صرف یہ کہ کرپائیں گے بلکہ چند برسوں میں قانونی حیثیت بنوانے کے ساتھ وہ پچھلوں کی سفید پوشی کو بہتر زندگی کی طرف لے جانے میں کردار ادا کرسکیں گے۔
اچھا کیا ہم نے ایک دن قومی سوگ مناکر پرچم سرنگوں کرکے بطور ریاست اپنا فرض ادا کرلیا۔ بس یہی فرض تھا؟
ہماری دانست میں ایک انکوائری کمیشن بننا چاہیے جو غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے ’’شوق‘‘ کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے یہ بہت ضروری ہے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بھاری بھرکم سرمایہ کاری سے خریدی جانے والی غیرقانونی ہجرت کا پس منظر کیا ہے۔ مجبوریاں، ضرورتیں، خواہشیں، مقابلہ جو بھی ہے حرف بحرف لکھا اور سامنے لایا جائے۔
معاملہ صرف 2ہزار ڈالر کی فوری ادائیگی کا نہیں ایک شخص کو غیرقانونی طور پر یورپ پہنچانے کے لئے25سے 40لاکھ روپے لئے جاتے ہیں۔ رقم وصول کرنے کے دو طریقے ہیں 30سے 50فیصد رقم ایڈوانس باقی رقم منزل پر پہنچ کر فون کرانے کی صورت میں یا پھر ابتدائی طور پر یہ طے کرلینا کہ نصف رقم پاکستان میں ادا ہوگی اور نصف رقم لے جائے جانے والے نوجوان کا بھائی یا کوئی دوسرا رشتہ دار اس نوجوان کے مطلوبہ ملک پہنچ جانے پر ادا کرے گا۔ محض 1500سے 2000ڈالر میں پاکستان سے یورپی ممالک کوئی نہیں لے جاتا یہ رقم اصل میں ٹوکن منی میں شمار ہوتی ہے۔
اصل رقم جو بھی طے ہو وہ دو طرح وصول کی جاتی ہے ایک طریقہ بالائی سطور میں لکھ دیا ہے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسانی سمگلر منزل بہ منزل مطلوبہ نوجوان کا اس کے گھر والوں سے رابطہ کرواکر طے شدہ قسط وصول کرتے ہیں۔ اگر معاملہ 30لاکھ میں طے ہوا ہے تو یہ تقریباً 4اقساط (4اقساط کسی تعلق واسطے یا ضمانت پر ہوتی ہیں) وصول کرتے ہیں۔
مثلاً 5سے 7لاکھ روپے بوقت روانگی باقی پہلے دوسرے اور تیسرے پڑائو پر قسط وار۔ بات پھر وہی ہے ہمیں (یعنی ہم سبھی اور حکومت) کو سوچنا ہوگا کہ نئی نسل بیرون ملک ہجرت کے قانونی طریقہ کار کو اپنانے کی بجائے غیرقانونی تارکین وطن کے طور پر بھاری بھرکم رقم خرچ کرکے خطرہ مول کیوں لیتی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ ہمارا نظام استحصالی بنیادوں پر کھڑا ہے ۔ یہاں ہر شخص اچھا گھر، گاڑی، بہتر شاپنگ، دبدبے اور دوسرے بہت کچھ کا خواہش مند ہے۔
اعلیٰ فنی تعلیم کے حامل نوجوان بہرطور قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں ہجرت کے لئے۔ اگر غیرقانونی طور پر لاکھوں روپے خرچ کرکے یورپ جانے کا خطرہ مول لینا خاندان کو غربت و سفید پوشی سے نجات دلانے کی خواہش ہے تو اس خواہش کی تکمیل کا کیا یہی واحد طریقہ ہے؟
معاف کیجئے گا افزائش نسل کے جس اندھا دھند پروگرام پر ہم عمل پیرا ہیں اس پر بھی سوچنا ہوگا یہ صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب ایک آدمی کے حصے کی خوراک تین سے چار آدمیوں میں تقسیم ہونے لگے۔ اصلاحات اور روزگار کے بہتر مقامی مواقع پیدا و فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تعلیم، صحت اور صلاحیت کے مطابق روزگار فراہم کرنا یقیناً حکومت کا کام ہے آج اور ماضی کی کسی حکومت نے اپنے ان فرائض کی ادائیگی پر مربوط توجہ نہیں دی۔
حکومتوں کے جرائم اور استحصالی نظام کی پردہ پوشی ممکن نہیں بلکہ پردہ پوشی گھنائونے جرم کے زمرے میں آئے گی لیکن کیا طمع اور دوسرے کا منہ لال دیکھ کر اپنا لال کرلینے کی ذمہ داری بھی حکومت اور نظام پر عائد کردی جائے؟
یونانی ساحل کے قریب تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے جنم لینے والے انسانی المیہ پر گزشتہ روز یونان کے دارالحکومت میں ہزاروں افراد نے اپنے ملک کی کوسٹ گارڈز کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔
ہمارے ہاں اس احتجاج کو زندہ قوم کے اظہار کے طور پر دیکھا لیا گیا۔ اپنوں یعنی اپنے لوگوں پر طنز کے تیر چلائے گئے۔ کشتی حادثے میں بچ جانے والے 8نوجوانوں کے ورثا نے سمگلروں کو ایک کروڑ 87لاکھ روپے ادا کئے اسے فی کس پر خود تقسیم کرلیجئے۔ یہ رقم ورثا نے یقیناً محنت سے جمع کی ہوگی۔
خوش قسمتی سے یہ نوجوان موت کا رزق بننے سے بچ گئے۔ قانونی کارروائی کے بعد ڈی پورٹ کئے جائیں گے کیا ان کے ورثا ایک کروڑ 87لاکھ روپے کی رقم سمگلروں سے وصول کرسکیں گے؟
وصولی بہت مشکل ہے عملی طور پر ایسے معاملات میں لکھت پڑھت نہیں ہوتی ہو بھی تو قانونی کارروائی کے جھمیلے ہیں لمبی عدالتی کارروائی۔ گزشتہ چند دنوں میں جن افراد کو سمگلر قرار دے کر گرفتار کیا گیا وہ تو اصل میں وچولے ہیں ان کا کام بندے گھیرنا ہے یہ کمیشن پر کام کرتے ہیں اصل کردار کون اور کہاں ہیں یہ بذات خود ایک سوال ہے۔
اور ایک سوال یہ کہ کیا 20سے 25لاکھ روپے فی کس دے کر جگر کے ٹکڑوں کو غیرقانونی طور پر یورپ بھجوانے والے والدین کے حالات سے وہ والدین سبق سیکھیں گے جو چاہتے ہیں لڑکا یورپ جائے کمائی کرے اور ان کی گلی محلے گائوں میں ناک اونچی کرے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر